گنہگاروں کو اُن کے کیے کی سزا ملنی ہی چاہیے

0

ایم اے کنول جعفری

جموں و کشمیر کے سیاحتی مرکز پہلگام سے تقریباً 10کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ’بائیسرن ویلی‘ میں 22اپریل کودن کے تقریباً3بجے فوجی وردی میں آئے دہشت گردوں نے معصوم شہریوں اور بے گناہ سیاحوں پر فائرنگ کرکے انڈین نیوی کے ایک افسر سمیت26لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ اس بہیمانہ قتل اور دردناک واردات میں 20افراد زخمی ہوئے،جن میں2لوگ غیرملکی اور 2 لوگ مقامی ہیں۔ اس غیر انسانی فعل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ گنہگاروں کو اُن کے کیے کی سزا دلانے کے لیے پورا ملک ایک ساتھ کھڑا ہے۔کشمیر میں سیر وتفریح کے لیے گئے نہتے افراد پر گولیاں برسانا جتنا شرم ناک ہے،اُس سے بھی زیادہ شرم ناک اور ذلالت کا کام لوگوں کے نام معلوم کرکے اُنہیںقتل کرنا ہے۔جسم کو لرزانے اور رُوح کودرد دینے والی واردات کے بعد بغیر لحاظ مذہب و ملت عوام احتجاج و مظاہرے کر رہے ہیں۔اس شرم ناک اور درندہ صفت حملے کی ذمہ داری پاکستان میں واقع’لشکر طیبہ‘ سے منسلک تنظیم ’دا ریزسٹینس فرنٹ‘(ٹی آر ایف) نے لی تھی،لیکن بعد میں وہ مکر گیا۔
’ بائیسرن وادی‘ دیودار کے درختوں اور پہاڑیوں سے گھرا ہری گھاس کا سیاحتی میدان ہے۔اسی وجہ سے اسے’منی سوئٹزرلینڈ‘ کہا جاتا ہے۔وزیراعظم نریندر مودی سعودی عرب کا دورہ رد کر وطن لوٹے اور ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میںتفصیلی جانکاری لی۔میٹنگ میں وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر،قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال، خارجہ سیکریٹری وکرم مصری اور دیگر سینئر حکام موجود تھے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ امت شاہ نے کشمیر میں صورت حال کا جائزہ لیا، جائے حادثہ کا دورہ کیا، ہلاک افراد کو خراج عقیدت پیش کیا، اہل خانہ سے ملاقات کی اور مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کا یقین دلایا۔ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے بزدلانہ اور سفاکانہ حملے کے ذمہ داروں کو قانونی کٹہرے میں لانے کا یقین دلایا۔اچھی بات یہ ہے کہ تمام مسلم تنظیمیں حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں اور واردات کی کھل کر مذمت کر رہی ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ و بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کو حیوان بتایا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔یہ ایک ناسور ہے،جو اسلام کی قیام امن کی پالیسی کے متصادم ہے۔اس کے خلاف آواز اُٹھانا ہر مومن کے لیے ضروری ہے۔ وہیں جمعیۃ علماء ہند کے مولانا محمود اسعد مدنی نے بے قصوروں کے قتل کو انسانیت کش عمل قرار دیااورکہا کہ اس کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ حملے کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں،وہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے ناواقف ہیں۔ اسلام میں کسی بے قصور کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی نے واقعات کی مذمت کی اور حملے کے گنہگاروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔ اُنہوں نے جموں و کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی موجودگی اور سرحدوں پر فوج کی تعیناتی و چوکسی کے باوجود اس قسم کے واقعات ہونے پر حیرت کا اظہار کیا۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اﷲ حسینی نے اس المناک واقعہ پر رنج و غم اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس درندگی کو مکمل طور پر غیر انسانی عمل قراردیا،جو تمام اخلاقی اور انسانی ضابطوں کے خلاف ہے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ ہم پلوامہ کے سنگین ترین دہشت گردانہ حملے کو بھول بھی نہیں پائے تھے کہ یہ دہشت گردانہ و مجرمانہ حملہ ہو گیا۔سنگین جرائم کے مرتکبین بخشے جانے کے قابل نہیں ہیں۔ آل انڈیا یونائیٹڈڈیموکریٹک فرنٹ کے صدر مولانا بدرالدین اجمل نے حملے کو انجام دینے والے شدت پسندوں کو انسانی جانوں کا دشمن بتایا۔نہتوں اورمعصوموں کا قتل انسانی اقدار کو سبوتاژ کرنے والا ہے۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دہشت گرد انسان کی جذباتی کیفیت سے واقف ہوتے ہیں اور اس کے ردعمل کی منصوبہ بندی پہلے ہی سے کرچکے ہوتے ہیں۔وہ عمل کے ردعمل کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہم لوگ غصے میں وہی سب کچھ کرنے لگتے ہیں، جو دہشت گرد چاہتے ہیں۔ وقف ترمیمی قانون کو لے کر حکومت اور مسلم تنظیموں کے درمیان رسہ کشی ہے۔ احتجاج و مظاہرے ہو رہے ہیں اور نئی پالیسیاں مرتب کی جا رہی ہیں۔اپوزیشن بھی وقف ترمیمی قانون کے خلاف ہے۔ دہشت گردوں نے اسی کا فائدہ اُٹھاکر قتل و خون کے بزدلانہ فعل کو انجام دینے کا منصوبہ بنایا، وہ ملک میں فساد کرانا چاہتے تھے،لیکن مسلم تنظیموں اور اپوزیشن نے اپنے سیاسی،مذہبی اور جذباتی اختلافات بالائے طاق رکھ کر اجتماعیت کا جو مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔ دہشت گردوں کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔ شدت پسندوں کا مقصد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھاکر انتہا تک پہنچانا ہوسکتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ دہشت گردانہ کارروائی کے تار پاکستان سے جڑے ہیں۔ یقینی طور پر ہندوستان کو اس کا موثر جواب دینا ہوگا۔سیاحوں اور شہریوں پر ہوئے حملے سے ناراض ہندوستان نے پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں،ان میں اٹاری سرحد کی بندش، سفارتی عملے میں کمی، ویزوں پر پابندی اور27اپریل سے پاکستانیوں کو جاری سبھی ویزے ردکے علاوہ گزشتہ65 برس پرانے سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کی معطلی شامل ہے۔ آبی وسائل کی سیکریٹری دیبا شری مکھرجی نے پاکستان کے متعلقہ محکمے کے سیکریٹری سید علی مرتضیٰ کو خط بھیج کر ہندوستان کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ اٹاری بارڈر بند کرنے اور دریائے سندھ کا معاہدہ ختم کرنے کے جواب میں پاکستان نے بھی اپنی فضائی حدود ہندوستانی ایئر لائنز کے لیے بند کردیں۔ بھارت سے ہرروز 200 سے 300 پروازیں پاکستانی حدود سے گزرتی ہیں۔ واگھہ سرحد بند کرنے، دو طرفہ تجارت کا عمل معطل کرنے اور سفارتی اہلکاروں کو محدود کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تجارت،ویزوں کے حصول،جوہری ہتھیاروں کی فہرست کے تبادلے، سرحدی امور،سیکورٹی، جوہری تجربات، پانی کی تقسیم سے متعلق سندھ طاس-شملہ اور تاشقند سمیت د و طرفہ معاہدوں کی تعداد 40بتائی گئی ہے۔اس طرح کی پابندیاں 1999 میں کارگل تنازع کے دوران اور 2019میں پلوامہ حملے کے بعد بھی لگائی گئی تھیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے ہندوستان اور پاکستان سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی ہے۔
بدنام میڈیا سمیت کچھ سیاسی افراد بائیسرن وادی کے حملے کوفرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن غیر مسلم سیاح اور عینی شاہدین نے جان بچانے، اپنے گھروں اور مسجدوں میں پناہ دینے، کھانا کھلانے اور ڈرائیوروں کے کرایہ نہیں لینے کے لیے کشمیری مسلمانوں کی کھل کر تعریف کی۔اس سانحہ میں جہاںنزاکت نے اپنی جان پر کھیل کر 11لوگوں کی جان بچائی، وہیں عادل حسین نے سیاحوں کو بچانے کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔کئی دیگر ٹٹو والوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔حملے کا ماسٹر مائنڈ لشکر طیبہ کا ڈپٹی چیف سیف اﷲ خالد بتایاجارہاہے۔ حکومت کی جانب سے حملے میں شامل پاکستانی دہشت گرد آصف فوجی، سلیمان شاہ اور ابو طلحہ کے اسکیچ جاری کیے گئے ہیں۔ ’آپریشن کلین‘ کے تحت14مقامی دہشت گردوں کی فہرست مرتب کی گئی ہے۔ لشکر طیبہ کے اعلیٰ کمانڈر شاہد احمد کُٹے، احسان الحق شیخ، ذاکر احمد غنی، فاروق تیڑوا،عادل ٹھوکر، آصف شیخ،عامر نظیروانی، جمیل احمد شیرگوجری اور عدنان شفیع وغیرہ کے گھر مسمار کیے جاچکے ہیں۔ 175مشتبہ افراد کو گرفتار اور 1,500 سے زیادہ لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ تقریباً2000 سیاحوں کے تفریحی مقام بائیسرن وادی میں سیکورٹی کا نہ ہونا جہاں اپنے آپ میںایک بڑا سوال ہے، وہیں پی ایم کے دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ سے مستقبل میں اس طرح کی واردات اور درندگی کے رکنے میں مدد ضرور ملے گی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS