آسمان سے برکتوں کی بارش :
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ایک آدمی جنگل میں کھڑا تھا۔ اس نے اوپر بادل میں سے ایک آواز سنی: جا، اور فلاں شخص کے باغ کو سیراب کر۔ (اس نے دیکھا کہ ) وہ بادل ایک جانب بڑھا اور ایک پتھریلی زمین پر پانی برسایا۔ وہ پانی چھوٹی چھوٹی نالیوں میں بہنے لگا اور پھر سب ایک نالے میں جمع ہوگیا۔
وہ آدمی یہ معلوم کرنے کیلئے کہ یہ پانی کہاں جاتا ہے نالے کے ساتھ ساتھ چلا۔ ایک مقام پر اس نے ایک شخص کو دیکھا ، جو اس پانی کو اپنے باغ میں بیلچے سے ادھر ادھر پھیلا رہا تھا۔ اس آدمی نے (باغ والے سے)پوچھا: اے بندۂ خدا، تیرا نام کیا ہے؟
باغ والے نے کہا: میرا نام فلاں ہے ( یعنی وہی نام بتایا جو اس نے بادل میں سنا تھا)۔
پھر اس نے سوال کیا: اے خدا کے بندے، تونے میرا نام کیوں پوچھا؟
اس آدمی نے جواب دیا: میں نے بادل میں سے، جس نے یہ پانی برسایا ہے، آواز سنی تھی کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کر، (یعنی تیرا نام لیا)۔ تو اپنے باغ میںایسا کون سا نیکی کا کام کرتا ہے؟ (کہ بادل کو تیرا نام لے کر حکم ہوا کہ تیرے لئے پانی برسائے)۔
باغ والے نے کہا: تو نے یہ بات بتائی ہے تو میں بھی بتاتا ہوں۔ جو کچھ میرے باغ میں پیدا ہوتا ہے، میں اس کا ایک تہائی صدقہ کر دیتا ہوں، ایک تہائی اپنے اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہوں، اور ایک تہائی اسی باغ میں (اس کی ترقی کیلئے)لگا دیتا ہوں۔ (مسلم)
اللہ تعالیٰ کو یہ محبوب ہے کہ انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور اسی طرح خرچ کرے جس طرح دنیا کیلئے کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ کو یہ بھی محبوب ہے کہ انسان اپنے اوپر بھی خرچ کرے اور یہ بھی محبوب ہے کہ وہ اپنے ذریعہ معاش میں ترقی کیلئے سرمایہ کاری بھی کرے۔
جب وہ اپنے مال کو اس طرح خرچ کرتا ہے تو پھر آسمان سے بھی برکتوں کی بارش ہوتی ہے اور پیداوار بھی پھلتی پھولتی ہے۔
n حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپؐ نے فرمایا: ابھی تمہارے پاس ایک ایسا آدمی آئے گا جو اہل جنت میں سے ہے۔ تھوڑی دیر میں ایک انصاری صحابیؓ داخل ہوئے۔ ان کی داڑھی سے وضو کے قطرے ٹپک رہے تھے اور وہ اپنے بائیں ہاتھ میں جوتے پکڑے ہوئے تھے۔ اگلے دن بھی نبی ﷺ نے یہی بات دہرائی اور پہلے دن کی طرح وہی صاحب آئے۔ تیسرا دن آیا تو آپؐ نے پھر یہی ارشاد فرمایا، اورپھر پہلے کی طرح وہی صاحب آئے۔
جب نبی کریم ﷺ اٹھ گئے تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، ان صاحب کے پیچھے پیچھے گئے اور ان سے کہا : میری اپنے والد سے لڑائی ہوگئی ہے اور میں نے طے کیا ہے کہ تین دن ان کے پاس نہیں جاؤں گا۔ کیا میں آپ کے پاس رہ سکتا ہوں۔ انھوں نے کہا: ضرور۔
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ ان صاحب کے ساتھ تین رات رہے۔ انھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ قیام اللیل کیلئے اٹھے ہوں، سوائے اس کے کہ جب آنکھ کھلتی تو بستر پر لیٹے لیٹے اللہ کو یاد کرلیتے اور تکبیر پڑھتے، یہاں تک کہ نماز فجر کا وقت ہوجاتا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مزید کہا: ہاں اور سوائے اس کے کہ میں نے ان کو صرف بھلی بات بولتے سنا۔
جب تین راتیں گزر گئیں اور مجھے ان کا عمل کچھ بھی نہ لگا تو میں نے ان سے کہا: اے اللہ کے بندے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو تین مرتبہ آپ کے بارے میں یہ فرماتے سنا کہ ’’ابھی تمہارے پاس ایک ایسا آدمی آئے گا جو اہل جنت میں سے ہے‘‘۔ تینوں بار آپ ہی آئے۔ میں نے سوچا کہ میں کچھ وقت آپ کے پاس رہوں اور دیکھوں کہ آپ کیا خاص عمل کرتے ہیں، اسی لئے میں آپ کے پیچھے پیچھے آیا۔ لیکن میں نے آپ کو کوئی بڑا عمل کرتے نہیں دیکھا۔ اب آپ بتائیے، وہ کیا چیز ہے جس نے آپ کو اس مقام پر پہنچا دیا جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا؟
انھوں نے کہا: جو کچھ تم نے دیکھا، اس کے علاوہ تو میں کچھ بھی نہیں کرتا۔
میں [اجازت لے کر] چلنے لگا، تو انھوں نے مجھے پکارا اور کہا: جو تم نے دیکھا، اس کے علاوہ تو کچھ نہیں … مگر ہاں میں کسی بھی مسلمان کیلئے اپنے دل میں کوئی برائی اور میل نہیں رکھا، نہ میں کسی سے، اس پر جو اللہ نے دیا ہے، حسد کرتا ہوں۔
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: بس یہی وہ کمال ہے جو آپ کو حاصل ہے۔ (مسند احمد)
ہر مسلمان بھائی کی طرف سے سینہ پاک رکھان، کوئی عداوت ، کوئی کدورت یا برائی دل میں نہ رکھنا اور اس سے حسد نہ کرنا… یہ اتنا اونچا عمل ہے کہ اس پر تین مرتبہ رحمت عالم ﷺ سے جنت کی بشارت پائی۔
n حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ایک مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ ایک آدمی نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ حضورؐ اس کے برا بھلا کہنے کو سنتے اور اس پر تعجب کرتے اور مسکراتے رہے۔ جب وہ شخص (باز نہ آیا) اور کہتا ہی چلا گیا، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی بعض باتوں کا جواب دیا۔ اس پر نبی ﷺ (کے چہرے) پر ناراضی کے آثار ظاہر ہوئے، اور آپ ﷺوہاں سے اٹھ گئے۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ حضور اقدس ﷺ کے پیچھے پیچھے گئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ، وہ شخص مجھے برا بھلا کہہ رہا تھا، جب تک آپؐ تشریف فرما رہے، جب میں نے اس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو، آپ ﷺ ناراض ہوگئے اور اٹھ گئے؟
حضورؐ نے فرمایا: (ابوبکر)تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو اس کو جواب دے رہا تھا۔ جب تم نے خود اس کو جواب دینا شروع کر دیا تو شیطان بیچ میں کود پڑا۔
حضورؐ نے یہ بھی فرمایا: جس بندہ پر ظلم کیا جائے اور وہ صرف اللہ کی رضا کی خاطر خاموش رہے،ا للہ اس کی زبردست مدد کرتا ہے‘۔ (احمد، ابو داؤد، مشکوٰۃ)
لوگ برا بھلا منہ پر بھی کہتے ہیں، پیٹھ پیچھے بھی اور آج کل تو لکھتے بھی ہیں اور فوٹو کاپی کرکے یا اخبار، رسالوں میں چھپواکر سیکڑوں، ہزاروں تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس سے تکلیف بھی ہوتی ہے، غصہ بھی آتا ہے، اور جواب دینے کو بھی دل چاہتا ہے ، مگر اللہ کی رضا کی خاطر صبر اور خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر روش ہے۔ یہ صبر اور خاموشی فرشتوں کے ذریعہ نصرت کا مستحق بناتی ہے۔
آدمی جواب دینے پر اتر آئے تو کہیں نہ کہیں کوئی شیطانی بات سرزد ہونے کا غالب امکان ہے۔
nحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ایک آدمی نے سوچا کہ میں آج ضرور کچھ خیرات کروں گا۔ چنانچہ وہ رات کے وقت مال لے کر صدقہ دینے کیلئے نکلا، مگر (اندھیرے کی وجہ سے) صدقے کی رقم ایک چور کے ہاتھ میں دے آیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں میں چرچا ہوا، کہ آج رات ایک چور کو خیرات دی گئی۔
اس آدمی نے ( یہ سنا تو) کہا: اے میرے اللہ؛ حمد تیرے ہی لئے ہے کہ صدقہ ایک چور کو مل گیا! اب آج رات میں پھر خیرات کروں گا۔
چنانچہ اگلی رات وہ پھر صدقہ دینے کیلئے نکلا، مگر اب کے ایک بدکار عورت کے ہاتھ پر رکھ آیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں میں چرچا ہوا، کہ آج رات ایک بدکار عورت کو خیرات دی گئی۔
اس آدمی نے (یہ سنا تو) کہا: اے میرے اللہ؛ حمد تیرے ہی لئے ہے کہ صدقہ ایک بدکار عورت کو مل گیا! اب آج رات میں پھر خیرات کروں گا۔
(تیسری رات) وہ پھر نکلا، مگر اب کے صدقہ ایک دولت مند شخص کو دے آیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں میں پھر چرچا ہوا کہ آج رات ایک دولت مند شخص کو خیرات دی گئی۔
اس آدمی نے (یہ سنا) تو کہا: اے میرے اللہ ؛ ساری حمد تیری ہی لئے ہے کہ صدقہ کبھی ایک چور کو، کبھی ایک بدکار عورت کو اور کبھی ایک دولت مند کو مل گیا!
اسے خواب میں بتایا گیا: تیرے سارے صدقات قبول ہوگئے۔ ممکن ہے کہ جو صدقہ تو نے چور کو دے دیا وہ اسے چوری سے باز رکھے ، جو تونے بدکار عورت کو دے دیا، وہ اسے بدکاری سے باز رکھے اور جو تونے دولت مند کو دے دیا، اس سے وہ عبرت پکڑے اور جو کچھ اللہ نے اسے دیا ہے اس میں سے خرچ کرے۔ (بخاری، مسلم)
مال دینا، مٹھی بھر بھر کے دینا، صرف اللہ کی رضا پر نظر رکھتے ہوئے دینا اور ایسی جگہ بھی چلا جائے جو دینے والے کے نزدیک مستحق یا صحیح نہ ہو، مگر دیتے رہنا، یہی اللہ کو محبوب ہے۔
نہ یہ کہ جو مانگے اس کے بارے میں مکمل تحقیق کرنے پر تلے رہنا، اور اللہ کیلئے دینے کے بعد معلوم ہو کہ غلط جوآدمی کو چلا گیا تو کف افسوس ملنا، نہ یہ ہے کہ کسی ایسے دینی کام میں نہ دینا جو اپنی مرضی کے مطابق نہ ہو یا اس کے نتائج اپنی پسند کے مطابق نہ نکلیں، تو کہنا کہ میرے پیسے ضائع ہوگئے۔ پھر تو دینا اللہ کیلئے نہ ہوا، اپنی مرضی یا نتائج کیلئے ہوا۔
خلوص اور نیک نیتی اعمالِ صالح کا محور
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS