محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
گھر، محلہ، ضلع، صوبہ اورملک، ہرجگہ ایک ایسے نظام کی ضرورت پڑتی ہے، جس کی وجہ سے معاملات ٹھیک ٹھاک چل سکیں، اگران جگہوں میں کوئی نظام نہ ہوتومعاملات درہم برہم رہیںگے بلکہ ہرجگہ ’’جنگل راج‘ رہے گا، جس میں ہرایک کی کوشش ہوگی کہ وہ دوسرے کوبھنبھوڑے، بالخصوص طاقتور، کمزورپرچڑھ دوڑنے کی سعی کرے گا، معاملات کوٹھیک رکھنے کے لئے ہی حکومتیں ہوتی ہیں۔اس وقت اگرخریطۂ عالم پرنظرڈالیں تودوطرح کی حکومتیںملکوں کوسنبھالتی نظرآتی ہیں، ایک شاہی، جوعام طورپرسمٹ سمٹا کرگلف میں رہ گئی ہیں، ورنہ زیادہ ترحکومتیں جمہوری (Democracy)ہیں، جس کے تعلق سے علامہ اقبال خوب کہہ گئے ہیں:
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
جمہوریت واقعی ایک طرزحکومت ہے، جسے آسان لفظوں میں ’عوام کی حکومت‘ کہا جاسکتا ہے، یہ آمریت (Dictatorship)کے برخلاف ہوتی ہے، اس میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں، کہاجاتاہے کہ سوبرس قبل مسیح یعنی گوتم بدھ کی پیدائش سے قبل بھی ہندوستان میں جمہوری ریاستیںموجود تھیں، جنھیں ’جن پد‘کہاجاتاتھا، یونان میں بھی جمہوریت رہی ہے لیکن وہاں اس کاتصور محدود تھا۔
اٹھارہویں صدی عیسوی کے بعدجمہوریت نے ایک منضبط شکل اختیارکی، جس کی صورت گری میں والٹیئر، مونٹیسکواورروسو کا بڑا ہاتھ رہا ہے، اسی لئے انھیں موجودہ جمہوریت کابانی بھی کہاجاتا ہے، آج کی جمہوریت میںعوام کوحکومت میں شرکت اورحقوق کے تحفظ کااحساس ہوتا ہے، ہرسطح پرجوابدہی اورآزادی کاتصورپایاجاتا ہے، جمہوریت کا نظام چونکہ لچکدارہوتاہے اسلئے ناپسندیدہ عناصر کو انتخابات کے ذریعہ سے مستردکیاجاسکتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں اس وقت جمہوریت کی جوحالت ہے، اسے ایک ’بے روح نعش‘کہاجاسکتا ہے، جوشاعرکے اس شعرکے مصداق ہے کہ:
جمہوریت کی لاش پہ طاقت ہے خندہ زن
اس برہنہ نظام میں ہرآدمی کی خیر
اس ملک کا وجود ایک جمہوری ملک کے طورپر1947 میں ہواتھااور1949کوتمام بھارتیوں کویہ حلف دلایاگیا تھا کہ’ہم بھارت کے عوام متانت وسنجیدگی سے عزم کرتے ہیںکہ بھارت کوایک مقتدرسماجوادی غیرمذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں گے،اس کوتمام شہریوں کیلئے حاصل کریں گے اور انصاف،سماجی،معاشی،اظہار،عقیدہ،دین اورعبادت، مساوات بہ اعتبار حیثیت اورموقع اوران سب میں ترقی دیںگے، جس سے فرد کی عظمت اورقوم کے اتحاد اورسا لمیت کاتیقن ہو۔یہاں یہ بات بتا دیں کہ اپنی آئین ساز اسمبلی میںجو آئین 26نومبر1949کوبنائی گئی 1950 میںنافذ کیاگیا۔
لیکن افسوس کے ساتھ یہ لکھناپڑرہاہے کہ اس عہد کے 75سال پورے ہونے کے بعد بھی مکمل طور پر اس کا نفاذ نہیں ہوا ہے۔اس طرح کی باتیں ہم اس لیے کررہے ہیں کیونکہ ملک کی سا لمیت اورترقی کیلئے ہم تمام لوگوں نے جو آئین کے تحت عزم کیاتھا اس پر عمل نہیں ہورہا ہے،اتنا ہی نہیںبلکہ اب ہرفردیہ سوچے کہ وہ اپنے اس عزم پرکس حدتک قائم ہے؟ آج اگرایک طبقہ ملک کے کچھ لوگوں پر زیادتی کر رہاہے تودیگرلوگ کیاکررہے ہیں؟اس زیادتی کو برداشت کیوں کررہے ہیں؟ کیااس زیادتی کی وجہ سے ملک کی سا لمیت باقی رہے گی اورکیاملک کی ترقی کرے گا؟ ظاہرہے کہ نہیں، کیونکہ آئین کے تحت یہ حلف لیاگیا تھا کہ کسی کے ساتھ ظلم نہ کیا جا ئے گا اور نہ ہی کسی کے اوپر کوئی ظلم ہونے دیا جائے گا،کیو نکہ اگر اسی طرح ظلم کو روا رکھا گیا تو اس ملک کی خصوصیت گنگا جمنی تہذیب ختم ہو جا ئے گی۔
اس ملک میں آزادی کے بعدجمہوری نظام کے تحت سب سے پہلا انتخاب 1951میں ہوا تھا، جس میں لوک سبھا کی 489سیٹوں کیلئے الیکشن ہوا تھا، اس الیکشن میں 44.87فیصدووٹنگ ہوئی تھی، جس میں کانگریس کو سب سے زیادہ ووٹ ملے تھے، اس طرح اس نے اکثریت ثابت کرکے اقتدارکوسنبھالاتھا، ملک پہلے لوک سبھا سے لے کر آج تک ، بیشتر ادوارمیں کانگریس فاتح بن کرابھری اوراس نے حکومت کی، چارلوک سبھا الیکشن یعنی 1967تک ملک میں ون نیشن ون الیکشن‘کے اصول پر ہوئے، یعنی لوک سبھا اور اسمبلیوں کے الیکشن ایک ساتھ ہوئے، پھرجیسے جیسے جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوتی گئیںاورجمہوریت پھلنے پھولنے لگی، ’بیک وقت الیکشن‘ کانظریہ دم توڑتاگیا، حتی کہ 1967 میں ملک کی کچھ اسمبلیوں کوتحلیل کردیاگیااوراسطرح بیک وقت الیکشن کااصول بکھرگیا۔
یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ ’بیک وقت الیکشن‘کے جس اصول کے تحت ملک کے اندرچارانتخابات ہوئے، اس وقت ملک کی سیاسی گرفت کانگریس کے ہاتھ میں تھی، مرکز کے علاوہ زیادہ ترصوبائی حکومتیںبھی کانگریسی تھیں، جس کی بنیادی وجہ سے جنگ آزادی میں اسکی مضبوط شمولیت تھی اورملک کوآزادی بھی اسی کے زیرسایہ حاصل ہوا تھا، ایسے میںبیک وقت الیکشن کرانابھی آسان تھا، لیکن پھر کانگریس کی گرفت بھی اس کی بعض پالیسیوں کی وجہ سے ڈھیلی ہوتی گئی، ایسے میں لوک سبھا کے ساتھ ساتھ اسمبلیوں میں بھی اس کی پکڑ کمزورہوتی گئی اوراب حالت آپ کے سامنے ہے کہ ’بیک وقت الیکشن‘اتنا آسان بالکل بھی نہیں ہے، جتنابناکرپیش کیا جارہا ہے۔ اسی لئے ماہرین کاکہنا ہے کہ ریاستوں کی تعداد، آبادی میں اضافہ اوردیگرمسائل کی وجہ سے بیک وقت الیکشن کرانا ممکن نہیں ہوسکے گا، پھرسوال یہ پیداہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اس کیلئے کوشاں کیوں ہے؟ اوراس کوپاس کرانے کیلئے ایڑی چوٹی کازورکیوں لگارہی ہے؟اس کوذراگہرائی کے ساتھ دیکھنااور جائزہ لینا ہوگا۔
یہ بات سب کومعلوم ہے کہ بی جے پی دراصل آر ایس ایس کی سیاسی جماعت ہے اورآر ایس ایس وہ تنظیم ہے، جو ملک میں اس دورکوواپس لاناچاہتی ہے، جس میں کچھ لوگ توراجہ بن کررہیں، لیکن کچھ لوگوں کوغلام بن کررہنا ہوگا، اس تعلق سے آر ایس ایس کے دوسرے سرسنگھ چالک گولوالکر نے کیندریہ پرتی ندھی سبھاکے پہلے اجلاس میں کہاتھا کہ ’آئین کواپنا غلام بناناچاہئے، بجائے اس کے ہم خود آئین کے غلام بن جائیں‘(آر ایس ایس کی حقیقت:ایک شکستہ خواب،از:ہیمندرناتھ پنڈت، ص:33)، اگرآپ ’ون نیشن، ون الیکشن‘ پر غور کریں گے تودرپردہ آئین کوغلام بنانے کاہی عمل ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کریہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ اس کے ذریعہ سے آئین ہی کوکالعدم قراردینے کی طرف ایک قدم ہے۔
آرایس ایس کاایک خواب یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں ’تیسری مراہٹہ سلطنت‘قائم ہو، مرہٹوں کی پہلی سلطنت کی بنیادشیواجی نے ڈالی تھی اوردوسری کابانی باجی راؤ اول تھا، (آر ایس ایس کی حقیقت: ایک شکستہ خواب، از: ہیمندر ناتھ پنڈت، ص:29)، اس ’ون نیشن، ون الیکشن‘کے فارمولے سے اس نظریہ کوبھی تقویت ملتی ہے کہ اس کے بغیراس طرح کی سلطنت کی بنیادنہیں رکھی جاسکتی۔
اسی کے ساتھ کچھ بل ایسے ہیں، جن میں اب تک عمل درآمدگی نہیں ہوپائی ہے، اس کے ذریعہ سے عمل آوری کے راستہ کوہموارکرناہے، مثلاً: جب ون نیشن، ون الیکشن ہوگا تومردم شماری ہوگی کہ اس کے بغیر ووٹروں کاپتہ چل پانامشکل ہے اور یہ مردم شماری اس این آرپی اوراین آری سی کاپیش خیمہ بنے گی، جس پرملک میں اب تک عمل نہیں کیا جاسکا ہے، نیزاسکے نتیجہ میں رفتہ رتہ ریاستی پارٹیوں کوکالعدم قراردے دیاجائے گا، پھردستورہندکے کئی دفعات (مثلاً: 172,356,83 وغیرہ) کوبھی ناکارہ قرادیاجائے گا۔
آزادی کے بعدسے ہی آرایس ایس اس کوشش میں جٹ گئی تھی کہ اسے سیاسی طورپراقتدارحاصل ہوجائے؛ حالانکہ ابتدائی دورمیں اس تنظیم نے سیاسی گلیاروں سے دور رہ کر ہندواحیائیت کاراستہ اپنایاتھا، لہٰذا جومخلص کارکنان تھے، ان کے دل میں یہ سوال پیداہونافطری تھا کہ جس تنظیم کاتعلق سیاست سے نہیںہے، اسے سیاست میں قدم رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ تاہم اس سوال کاجواب کسی کونہیںدیاجاتاتھا، بالآخرایک اہم سوئم سیوک نے اس وقت کے مشرقی خطہ کے ناظم کے نام ایک خط تحریرکرتے ہوئے لکھاتھا کہ ’سنگھ کے حلقوں کے ساتھ معمولی سی واقفیت بھی ظاہرکردیتی ہے کہ دیگرباتوں کے علاوہ سنگھ کاایک مقصد یہ بھی ہے کہ ملک میں سیاسی اقتداراس کے ہاتھوں میں آجائے، لیکن سنگھ کبھی یہ نہیں بتاتاکہ آخر اس قوت کوحاصل کرکے سنگھ اسے کس طرح استعمال کرناچاہتا ہے؟ اس کی صرف دووجوہات ہوسکتی ہیں، پہلی تویہ کہ سنگھ نے کوئی منصوبہ بنایاہی نہیںکہ اگروہ برسراقتدار آگیاتوکیاراہ عمل اختیارکرے گا؟ ظاہرہے کہ اگریہی بات ہے تویہ بے انتہا خطرناک صورت حال ہے، دوسری یہ کہ اس کے ارادے اصل میں اتنے برے ہیں کہ سنگھ ان کوخود اپنے ممبران کوبتانے کی ہمت نہیں کرتا‘(آر ایس ایس کی حقیقت: ایک شکستہ خواب، از: ہیمندرناتھ پنڈت، ص:73)، یہ آخری وجہ ہی اصل حقیقت تھی، جو اب کھل کرسامنے آرہی ہے، لیکن اب لوگ ایسے ہیںہی نہیں، جوسنگھ سے سوال وجواب کرسکیں، بیک وقت الیکشن کے ذریعہ سے اس حقیقت میں بھی رنگ بھرائی کاکام انجام دینا چاہتے ہیں۔
جہاںتک اخراجات کی کمی کی ہے تویہ ان لوگوںکے منھ سے اچھی نہیںلگتی، جولاکھوں کاپن رکھتے ہیں، ایک دن کے کھانے میں ہزاروں ہی نہیں بلکہ لاکھوں خرچ کردیتے ہیں؛ بل کہ تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ جو4.31کروڑ کالباس زیب تن کرتے ہیں وہ خرچ کم کر نے کی بات کرتے ہیں۔