خاموش ہوتی آوازیں

0

اترپردیش میں ایک نوعمر صحافی شوبھم شکلا اور چھتیس گڑھ میں صحافی مکیش چندراکر کی افسوسناک موت کے واقعات نے ہمیں اس حقیقت کا دوبارہ ادراک کرایا ہے کہ ہندوستان میں صحافت کا مقام اب وہ نہیں رہا جو ماضی میں تھا۔ ان دونوں صحافیوں کی اموات کی کہانی صرف ان دونوں کی زندگیوں کے خاتمے تک محدود نہیں،بلکہ ایک ایسے زوال کی عکاسی کرتی ہیں جس میں نہ صرف صحافیوں کی آوازیں دبی جا رہی ہیں بلکہ عوام کی آزادی اور انصاف کے نظام کی بنیاد بھی لرز رہی ہے۔ جب طاقتوروں کے خلاف اٹھنے والی سچائی کو خاموش کر دیا جاتا ہے تو یہ سماج کے ضمیر کی موت ہوتی ہے۔ ان واقعات نے ہمیں گہرائی سے سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیںاور صحافت کے آزادانہ کردار کو دبانے کی کوششیں ایک دردناک حقیقت کا حصہ بن چکی ہیں،جو ہمیں انصاف کے نظام پر مایوس اور ہمارے معاشرتی اصولوں کو متزلزل کرتی ہیں۔ صحافی کا قتل، دراصل ایک پورے معاشرتی ضمیر کا قتل ہے۔

24سال کے شوبھم شکلا،جو اترپردیش کے انائو ضلع کے رہائشی تھے،اپنے گھر کے قریب 6 جنوری 2025 کو مردہ پائے گئے۔ پولیس نے ان کی موت کو خودکشی قرار دیا،مگر ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ یہ قتل تھا،جس کی پشت پر بی جے پی کے کونسلر کے قریبی افراد کا ہاتھ تھا۔ ان کی موت سے چند ماہ قبل ان کے چھوٹے بھائی کو ایک جھگڑے میں شدید زخمی کیا گیا تھا،لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی،جس سے عوام کا انصاف کے نظام پر اعتماد مزید متزلزل ہوا۔ یہ صرف ایک نوجوان کی موت نہیں بلکہ ایک ایسے خواب کی موت تھی جو اس نے سچ کیلئے دیکھا تھا۔ شوبھم کی داستان،ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو اپنے قلم کی طاقت سے ظلم کے خلاف لڑنا چاہتا تھا لیکن اس کی آواز کو بے رحمی سے خاموش کر دیا گیا۔ اس کے اہل خانہ کی آنکھوں میں آنسو اور دل میں کرب وہ داستان سناتے ہیں جو ہر حساس دل کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے۔

اسی طرح،مکیش چندراکر کا کیس بھی ایک سنگین حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ چھتیس گڑھ کے بیجاپور سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی گمشدگی کی اطلاع ان کے بڑے بھائی نے یکم جنوری 2025 کو دی تھی۔ مکیش نے اپنے یوٹیوب چینل پر ایک بڑی سڑک کی تعمیر میں بدعنوانی کو بے نقاب کیا تھا،جو ان کے قتل کی ممکنہ وجہ بن سکتی تھی۔ ان کا جسم دو دن بعد سریش چندراکر کے سیپٹک ٹینک سے ملا،جسے تازہ طور پر سیمنٹ سے بند کر دیا گیا تھا۔ یہ منظر تصور میں لاتے ہی دل دہل جاتا ہے کہ ایک شخص،جو عوامی مفاد کے لیے لڑ رہا تھا،کس طرح بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ مکیش کا خاندان،انصاف کی امید میں حکومتی دفاتر کے چکر کاٹ رہا ہے،ان کی آنکھوں میں سوال ہیں اور دل میں وہ غم ہے جو شاید کبھی ختم نہ ہو۔

ان دونوں واقعات کا پس منظر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ صحافت کا مقصد صرف خبر دینا نہیں بلکہ سماج میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا اور عوام کی آواز بننا ہے۔ جب ایک صحافی اپنی جان ہار جاتا ہے تو یہ ایک شخص کی موت نہیں ہوتی بلکہ اس نظام کی ناکامی کا ثبوت ہوتی ہے جو سچائی کو دبانے میں مصروف ہے۔ شوبھم اور مکیش کی قربانیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ سچ کے راستے پر چلنا کتنا مشکل ہے اور یہ کہ جب صحافت پر پہرے لگتے ہیں تو پورا سماج اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔

حکومت کی جانب سے مکیش چندراکر کے معاملے میں ایس آئی ٹی کی تشکیل اور صحافیوں کے تحفظ کے قانون کی یقین دہانی ایک مثبت قدم ہے،لیکن یہ اقدامات اس سنگین مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ جب تک ایسے جرائم میں ملوث افراد کو سخت سزائیں نہیں ملتیں اور صحافیوں کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم نہیں کیا جاتا،تب تک یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ صحافیوں کی قربانیاں صرف ان کی ذاتی جدوجہد نہیں بلکہ پورے سماج کیلئے ہیں۔

ہم صرف اس وقت آزاد صحافت کی قدر کر سکیں گے جب ہر صحافی کو اس کے کام کرنے کی آزادی حاصل ہو اور وہ بغیر کسی خوف کے سچ کو عوام تک پہنچا سکے۔ صحافت کی آزادی کا تحفظ کرنا صرف حکومت کا نہیں،بلکہ ہر شہری کا فرض ہے۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم ایک ایسا ماحول پیدا کریں جہاں صحافیوں کو اپنے کام کرنے کیلئے کسی قسم کے خوف کا سامنا نہ ہو۔ ہر وہ قطرۂ خون جو شوبھم اور مکیش جیسے صحافیوں کے وجود سے بہتا ہے،ہم سے ایک سوال کرتا ہے کہ کیا ہم ان کے خوابوں کا احترام کرتے ہیں؟

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS