ترکی میں کرد بغاوت کے خاتمے کے آثار

0

اسد مرزا

نصف صدی سے، کرد عسکریت پسند ترکی کے جنوب مشرق میںکرد آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں، جس نے اب تک 40,000 سے زیادہ جانیں لے لی ہیں اور ترکی کی سرحدوں سے آگے ایران، عراق اور شام تک پھیل چکی ہے۔لیکن گزشتہ جمعرات (27 فروری) کو کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے جیل میں بند رہنما عبداللہ اوکلان نے اپنے اراکین سے ہتھیار ڈالنے اور گروپ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا۔جس نے اس بات کی امید قائم کی ہے کہ شاید مشرقِ وسطیٰ کی سب سے پرانی شورش خاتمے کے قریب ہے۔تاہم، اس اپیل کی کامیابی اب اس میں شامل مختلف جماعتوں کے درمیان پائیدار تعاون پر منحصر ہے، لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کو اس بات پر یقین نہیں ہے کہ شمالی عراق کے پہاڑی علاقے میں واقع PKK کے عسکریت پسند، اوکلان کی اپیل پر توجہ دیں گے، جو ایک چوتھائی صدی سے استنبول کے قریب ایک جزیرے کی جیل میں قید ہیں۔
ترک صدر رجب طیب اردگان نے اوکلان کے پیغام کو امن کی کوششوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا ہے، حالانکہ ان کی حکومت نے عوامی طور پر ان تجاویز کو مسترد کر دیا ہے کہ اوکلان کی اپیل کے بعد امن مذاکرات دوبارہ شروع کیے جا سکتے ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الوقت، 71 سالہ اردگان خاص طور پر ملکی سیاست توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، کیونکہ وہ اپنی دو دہائیوں کی حکمرانی کو 2028 سے آگے تک بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی صدارت کی مدت ختم ہو رہی ہے۔اور اگر وہ واقعی میں کرد سورش کا خاتمہ کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ ان کی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔

اس اعلان نے پورے مشرق وسطیٰ میں ہلچل پیدا کر دی ہے اور یہ اپیل دیگر چھوٹے کرد باغی گروپوں کی مختلف جماعتوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے جن کے PKK سے طویل عرصے سے تعلقات ہیں۔ PKK کو ترکی، امریکہ اور برطانیہ میں دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے،اور اس پس منظر میں اوکلان کے اعلان کو مشرق وسطیٰ کے لیے “ایک نئے تاریخی عمل” کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

PKK کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے اوکلان کو جیل سے فوری طور پر رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔ تاکہ وہ کسی بھی اگلے قدم کے لیے ذاتی طورپر PKKکی سرگرمیوں کی رہنمائی کرسکیں اور گروپ کے مختلف دھڑوں کو اپنے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرسکیں۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق، PKK نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں ترک ریاست کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی تھی، جو کہ دراصل کردوں کی آزادی کی تحریک ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ترکی کی آبادی کا تقریباً 15 فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔ابتدائی طور پر شورش مشرقی اور جنوبی ترکی کے پہاڑوں سے شروع ہوئی، PKK کے جنگجوؤں نے ترک فوجی اڈوں اور پولیس اسٹیشنوں پر حملہ کیا، جس سے حکومت کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ بعد میں، تنازعہ ملک کے دیگر حصوں میں پھیل گیا، ترکی کے شہروں میں PKK کے تباہ کن بم دھماکوں میںکئی سو شہری مارے گئے۔ جس سے کہ ترکی میںکرد مخالف جذبات کو ہوا ملی۔
1999 میں، ترکی نے اوکلان کو گرفتارکر لیا اور اسے ایک مسلح دہشت گرد گروہ کی قیادت کرنے کا مجرم ٹھہرایا۔ اسے موت کی سزا سنائی گئی جسے بعد میں عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ اپنی قید کے بعد سے، اوکلان نے اپنے نظریہ کو علیحدگی سے ہٹا کر ترکی کے اندر کرد حقوق کو شامل کیے جانے کی جانب منتقل کر دیا ہے۔
کرد تقریباً 40 ملین افراد کا ایک نسلی گروہ ہے جو ایران، عراق، شام اور ترکی میں مرکوز ہیں۔ زیادہ تر کرد سنی مسلمان ہیں۔ کردوں سے پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں کی طرف سے ان کے اپنے ملک کو قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ آنے والی نسلوں میں مختلف ممالک میں کرد بغاوتیں ہوئیں، اور کردوں کو اپنی زبان اور ثقافت کے خلاف ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔

1991 کی خلیجی جنگ کے بعد سے عراق کا زیادہ تر کرد شمالی علاقہ نیم خودمختار رہا ہے۔ Türkiye-PKK تنازعہ کو منجمد کرنے یا ختم کرنے کی متعدد کوششیں کی گئی ہیں، جن کا آغاز 1993 میں جنگ بندی سے ہوا اور 2009-11 اور 2013-15کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے ، لیکن وہ سب ناکام رہے۔

اس تناظر میں، مصر کی طنطہ یونیورسٹی میں ایرانی اور ایشین اسٹڈیز کے پروفیسر اور فارابی سینٹر فار پولیٹیکل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر مدحت حماد نے ترکی کے ہور نیوز کو بتایا کہ عبداللہ اوکلان کا یہ اعلان انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک سیاسی، نظریاتی اور یہاں تک کہ قومی طرز عمل کے بعد خود کو ایک نئی سوچ کا حامل قرار دنے کی کوشش کررہے ہیں، جو کہ پورے عالمی اور علاقائی منظرنامے کی تبدیلیوں کا احاطہ بھی کرتی ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ ترک سیاسی ذہنیت میں ایک حقیقت پسندانہ جائزہ لیا گیا ہے جو ایک طرف ترک ریاست کے معاملات کو بہتر طور پر چلانے اور دوسری جانب بالعموم کردوں اور بالخصوص اوکلان کے ساتھ بات چیت کو کس طرح شروع کیا جائے اس پر روشنی ڈالتا ہے۔ لہٰذا، ڈاکٹر حماد نے کہاکہ اوکلان نے یہ بیان اس وقت تک جاری نہیں کیا ہوگا ،جب تک کہ ان کے پاس ترک یقین دہانیاں، وعدے اور بات چیت کو دوبارہ شروع کرنے کے علاوہ اور کردوں کو ایک مستحکم جمہوری زندگی فراہم کرنے کے عملی وعدوں کے ثبوت نہ دئے گئے ہوں۔ یعنی کہ وہ سب جو وہ ہتھیاروں کے ذریعے حاصل نہیں کر سکتے تھے۔

ڈاکٹر حماد نے وضاحت کی کہ PKK کے رہنما اوکلان نے ایک طرف کردوں کے مسئلے کے مستقبل کے بارے میں اور دوسری جانب مغربی منصوبوں، خاص طور پر امریکی منصوبے، جس کے ذریعے شام میں بہت کچھ کیا گیا، ان سب کا تجزیہ کیا ہے۔ اور ان کا ماننا ہے کہ یہی ذہنیت یا منصوبے آنے والے سالوں میں مل کر کردوں اور ترکوں دونوں کے اسٹریٹجک اور اہم مفادات پر حملہ کر سکتے ہیں،یعنی کہ امریکی منصوبے ان دونوںکے خلاف کافی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر حماد نے کہا کہ اوکلان کو علاقائی اور بین الاقوامی منظر نامے کی حقیقت پسندانہ سمجھ ہے۔ انہوں نے کہاکہ عبداللہ اوکلان شاید کرد کاز کے مستقبل کو بچانا چاہتے ہیں، کچھ دوسری سیاسی علاقائی تنظیموں کے برعکس، اور انھوں نے موجودہ منظر کو اچھی طرح سمجھا اور وہ اگلے سو سال کے لیے کرد کاز کے وجود اور جوہر کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔

دریں اثنا، ترکی کی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی جو کہ اردگان کی دائیں بازو کی اتحادی بھی ہے،نے اس امن اپیل کا خیر مقدم کیا ہے اوردرحقیقتMHP کے رہنما ڈیولٹ باہیلی نے اکتوبر 2024 میں اوکلان سے رابطہ قائم کرکے اس سورش کو ختم کرنے کے امکانات پر اور اوکلان کی حمایت کیے لیے تبادلہ خیال شروع کیے تھے، جو کہ کامیاب رہے۔

اس کے باوجود، امن کی بحالی شاید اتنا آسان نہ ہو، واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے ترک تحقیقی پروگرام کے ڈائریکٹر سونر کاگپتے نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ شمالی عراق کے قندیل پہاڑوں میں چھپے PKK کے رہنما انقرہ کے ارادوں پر شدید مشکوک ہیں۔انہوں نے کہاکہ بزرگ کمانڈر PKK کو مکمل طور پر یا فوری طور پر اس کے کسی بھی اصل اہداف کو حاصل کیے بغیر ختم کرنے پر اعتراض کر سکتے ہیں ۔ ‘‘Cagaptay نے کہا کہ Ocalan کے اعلان کی تفصیلات ’’مقصدانہ طور پر اسرار میں ڈوبی ہوئی تھیں، کیونکہ PKK کے ساتھ انقرہ کے دو سابقہ مکالمے بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔‘‘

درحقیقت، اگر اوکلان کے پیروکار نئی اپیل پر دھیان دیتے ہیں، تو یہ ترکی کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔ اور ساتھ ہی مشرقِ وسطیٰ کے لیے اس کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ اردگان شام میں ہونے والی بغاوت اور شمالی عراق میں مقیم PKK کے جنگجوؤں کے خلاف فوجی کامیابیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ترکی میں مکمل امن قائم کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے، جس سے کہ ان کو ملکی سطح پر فوائد حاصل ہوسکتے ہیں اور ساتھ ہی وہ تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی صورت حال پر ترکی کو ایک بااثر ملک کے طو ر پر شامل کراسکتے ہیں۔جس سے کہ علاقائی سطح پر ترکی کی اہمیت اور اثرورسوخ اور زیادہ بڑھ سکتا ہے۔

(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS
Previous articleعدلیہ کی معصومیت یا جانبداری؟
Hi, I am a wordsmith, a foodie and a pakka Purani Dilliwala. As a journalist, I have been associated with AIR, Khaleej Times-Dubai, BBC World Service and as a Senior Media Advisor with the British High Commission in New Delhi. I am also a Google certified Data Analyst and as a Media Educator, conduct both Online and Offline courses on Data and Fact Checking for Journalists, Media Students and Researchers. I am also involved actively in Interfaith activities, and have penned two books on the subject; Interfaith Dialogue: An Indian Perspective and The Abrahamic Religions. More details on my interfaith work could be found on www.milapindia.org, the website of Minorities Association for Learning, Advancement and Partnership.