ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
اس وقت دنیا کے کئی ملکوں میں جنگ اور تصادم کا ماحول قائم ہے لیکن بنیادی طور پر دو بڑی جنگیں جاری ہیں۔ ایک جنگ روس اور یوکرین کے درمیان چل رہی ہے جو دراصل سرد جنگ کے دوران امریکہ و سوویت یونین کے مابین تقریبا چالیس برسوں تک چلنے والی کشمکش کا ہی توسیعی باب ہے۔ دوسری جنگ کا تعلق فلسطین و لبنان پر گزشتہ ایک برس سے چل رہی تباہ کن اسرائیلی جارحیت سے ہے۔ صرف فلسطین میں ہی اب تک 42 ہزار سے زیادہ جانیں قربان کی جا چکی ہیں۔ ایک لاکھ سے بھی متجاوز تعداد زخمی ہیں جن کے علاج کے لئے نہ تو اسپتال کو اسرائیل نے باقی رکھ چھوڑا ہے اور نہ ہی مناسب دوائیاں اور دیگر طبی آلات و وسائل کو ان تک پہنچنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ لاکھوں لوگ بھوک اور قلت غذا کی وجہ سے مختلف قسم کے امراض میں مبتلا ہیں۔ شیر خوار بچوں تک کو اپنے ماؤں کے سینوں میں دودھ نہیں مل پاتا کیونکہ زمین میں پانی کے سوتوں کو جس طرح بم سے نیست و نابود کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح غذا کی عدم فراہمی کی وجہ سے ماؤں کے جسم بھی سوکھ گئے ہیں اور دودھ کا ایک قطرہ بھی تیار نہیں ہوتا ہے کہ مائیں اپنے معصوم بچوں کے حلق میں اسے ٹپکا کر زندگی سے انہیں قریب کر سکیں۔ اسرائیل کی اس تباہ کن جنگ اور اس کی اخلاق سوز پالیسیوں کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج کی صدائیں بلند ہوئیں اور آج تک مسلسل آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن اس کا کوئی اثر اسرائیل پر نہیں پڑا۔
جنگ کا دائرہ سمٹنے کے بجائے پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ غزہ سے لبنان اور یمن سے شام تک اس کی لہریں پہنچ چکی ہیں اور اس کا پورا امکان ہے کہ عنقریب ہی ایران پر اسرائیلی و امریکی حملے ہوں گے جس کے نتیجہ میں پورا مشرق وسطی جنگ کی بے رحم آگ میں جھلسنے لگے گا۔ آج کی گلوبلائزڈ ورلڈ میں اس کی توقع بالکل نہیں کی جا سکتی کہ ایسی کسی جنگ کے اثرات صرف ایک خاص خطہ اور علاقہ تک ہی محدود رہیں گے۔ اس کے برعکس اس بات کا پورا امکان ہے کہ ساری دنیا اس جنگ میں کسی نہ کسی طرح سے شامل رہے گی۔ مشرق وسطی تو بطور خاص نہایت اہم خطہ ہے جہاں سے دنیا کی توانائی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بحیرۂ احمر اور سویس چینل بھی اسی خطہ میں ہیں جن سے عالمی تجارت کی منڈی کی سانسیں وابستہ ہیں۔ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور فلسطینی مزاحمت کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے صرف بحیرۂ احمر میں یمن کے حوثیوں کے حملے کی وجہ سے عالمی تجارت جس طرح متاثر ہوئی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب اس محدود اقدام کا اثر اتنا گہرا ہے تو پھر اس صورت میں کیا ہوگا، جب پورا خطہ ہی جنگ کی چپیٹ میں آ جائے گا۔ نہ صرف یہ کہ اس نہایت اہم خطہ میں فضائی پروازیں متاثر ہوں گی بلکہ جس ایندھن سے جہازیں، پروازیں، مشینیں یہاں تک کہ روز مرہ کی ضروریات کی تکمیل میں معاون ہونے والے وسائل استعمال ہوتے ہیں ساری چیزیں زد میں آجائیں گی اور نرخ اشیاء آسمان تک پہنچ جائے گا جس سے کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائے گا، کیونکہ دنیا کا ہر حصہ ایک دوسرے پر آج جس حد تک منحصر ہے ماضی کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔
روس نے جب یوکرین پر اپنی جارحیت کا آغاز کیا تھا تو اس کی وجہ سے غذائی اجناس کی درآمدگی و برآمدگی پر بہت برا اثر پڑا تھا کیونکہ ان دونوں ممالک کا دنیا کی غذائی ضرورتوں کی تکمیل میں خاصہ حصہ ہے۔ ایشیا و افریقہ کے کئی ممالک میں اس کا خدشہ ظاہر کیا جانے لگا تھا کہ روس و یوکرین جنگ کی وجہ سے جو غذائی قلت پیدا ہو رہی ہے اس کی وجہ سے بھوک مری کے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ اس بحران کو ترکی کی وساطت سے ختم کیا گیا تھا اور گیہوں و دیگر اجناس کو متاثرہ ممالک تک بھیجنے کا انتظام کیا گیا۔ ایسی سنگین صورت حال میں حالات کا تقاضہ ہے کہ جنگ کی ہولناکی سے دنیا کی قوموں کو بچایا جائے اور اس کے دائرہ کو مزید وسیع ہونے سے روکا جائے۔ غالبا ناروے کی نوبل کمیٹی نے اسی مقصد کو دھیان میں رکھتے ہوئے 2024 کا نوبل انعام برائے امن جاپان کی اس تنظیم کو دیا ہے جس کا نام نیہون ہیدان کیو ( Nihon Hidankyo) ہے۔ جاپان کی اس تنظیم کی تاسیس 1956 میں عمل میں آئی تھی اور اپنی تاسیس کے روز اول سے ہی یہ ان لوگوں کی یادوں، قصوں اور تکلیف دہ تجربات کو ریکارڈ کرنے اور انہیں محفوظ رکھنے کا کام کرتی ہے جو ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں میں زندہ بچ گئے تھے۔ یہ ایٹمی حملے دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان پر امریکہ کے ذریعہ ہوئے تھے جو اب تک انسانی تاریخ کا پہلا ایٹمی حملہ تھا لیکن اس کا امکان بہت کم ہے کہ یہ آخری حملہ ہو کیونکہ اس وقت نیوکلیائی ہتھیاروں سے کئی ممالک لیس ہیں اور اسرائیل ان میں سے ایک ہے گرچہ صہیونی ریاست نے کبھی باضابطہ اس کا اعتراف نہیں کیا ہے، لیکن حالیہ غزہ جنگ کے دوران جب ایک اسرائیلی وزیر نے یہ بیان دیا کہ غزہ پر نیوکلیائی حملہ کرکے وہاں موجود فلسطینیوں کو ختم کر دیا جائے تو دنیا کے کان کھڑے ہوگئے کہ اسرائیل جیسے غیر ذمہ دار اور تمام تر اخلاق و قوانین سے عاری ملک کے ہاتھ میں نیوکلیائی بم کے ہونے سے کتنا بڑا خطرہ عالمی برادری کو ہوسکتا ہے۔ لیکن افسوس کا پہلو یہ ہے کہ اس بیان کو بنیاد بناکر بھی اسرائیل کو جنگ بندی کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے بلکہ ’یوم غفران‘ کے موقع پر اسرائیل نے اس جنگ کی شدت میں مزید اضافہ ہی کر دیا ہے اور شہدائے فلسطین کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل کو یہ جرأت عالمی برادری کی خاموشی سے ہوتی ہے۔ البتہ نوبل کمیٹی نے بہر حال یہ کوشش کی ہے کہ عالمی برادری کو یہ یاد رہے کہ نیوکلیائی بموں سے بھری اس دنیا میں جنگ کی شدت کہاں تک پہنچ سکتی ہے اس کا اندازہ کسی کو نہیں ہے۔ اسی لئے بہتر یہ ہوگا کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کو یاد کیا جائے اور جنگ کو ختم کرکے ایک پرامن عالمی نظام کی تشکیل کو یقینی بنایا جائے۔ خود Nihon Hidankyo اس میدان میں بہت کوشاں ہے اور جاپان کی یہ تنظیم اس بات کی وکالت کرتی ہے کہ نیوکلیائی ہتھیاروں کی دوڑ کو روکا جائے اور نیوکلیائی ہتھیاروں پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ جب جاپان پر نیوکلیائی حملہ امریکہ نے کیا تھا اس وقت کی دنیا میں معلومات و مشاہدات کا دائرہ بہت محدود تھا اس لئے اس حملہ کو دیکھنے والوں اور اس کی تباہ کاریوں کو یاد رکھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی، لیکن آج پوری دنیا کے سامنے جنگ کی سنگینی ہر لمحہ ظاہر ہوتی ہے۔
فلسطین و لبنان ہو یا اس سے قبل افغانستان و عراق و شام ہر جگہ انسانی زندگیوں کی پامالی کا نظارہ دنیا نے دیکھا ہے۔ کیا اب بھی اس کا وقت نہیں آیا ہے کہ ان یادوں اور مشاہدات کو انسانی اخلاقیات کی مضبوط بنیاد بناکر اس بے رحم جنگ کا سلسلہ روکا جائے؟ نوبل کمیٹی جہاں ایک طرف جاپان کے متاثرین کے یادوں کو اعزاز سے نواز رہی ہے تو وہیں دوسری جانب دوسرے حصے کے لوگ جنگ کے ذریعہ پیدا کئے گئے ان مسائل سے نبرد آزما ہو رہے ہیں جن کے اثرات کئی نسلوں تک محسوس کئے جائیں گے کیونکہ جو شہید ہو رہے ہیں ان میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ مظالم وہ قوم ڈھا رہی ہے جو ہولوکوسٹ جیسے انسانیت سوز مظالم سے دوچار ہوئی تھی۔ اس درد و کرب کا تقاضہ تھا کہ یہ قوم امن کا پیامبر ہوتی لیکن اس نے ظلم و بربریت کو ہی اپنا ہتھیار بنالیا۔ اس برس کے نوبل انعام برائے امن میں اسرائیل کے لئے عبرت کا سامان بطور خاص پوشیدہ ہے۔ اس کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس کے رموز پر غور کرے اور قتل و خون کی سیاست سے توبہ کرکے ایک پرامن نظام عالم کے قیام میں اپنا مثبت کردار ادا کرے ورنہ اس کا پورا امکان ہے کہ مستقبل میں اسرائیل خود اپنے گناہوں کے بوجھ تلے ہی دب جائے گا اور دنیا کی باقی قومیں بھی اس کی پالیسیوں کے منفی نتائج سے بچ نہیں پائیں گی۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں