ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
غزہ کو اسرائیل نے جس حد تک تباہ کر دیا ہے اور شدید انسانی بحران وہاں پیدا کر دیا ہے اس کی شدت ایسی ہے کہ کوئی انسانی دماغ اس کا تصور نہیں کر سکتا۔ بلند و بالا پہاڑ کی ہمت بھی جواب دے جائے چہ جائے کہ انسانی صبر اس کا تحمل کر سکے۔ صہیونی بربریت نے غزہ میں سنگ دلی اور حیوانیت کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ ایک ایسی بدترین مثال جس کا ذکر مستقبل میں جب بھی مورخ کے قلم سے ہوگا تو اس کے مقابلہ میں ہولوکاسٹ کی ہولناکی ماند پڑ جائے گی۔ اکثر بھوکے بچے اور عورتیں تو اسرائیلی بمباری میں چشم زدن میں ہی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ لیکن جن میں زندگی کی رمق باقی ہے وہ بھی شدتِ بھوک و پیاس سے اس قدر نڈھال ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کی سکت تک نہیں رکھتے۔ ایسے میں جب ان میں کہیں سے خورد و نوش کی اشیاملنے کی امید پیدا ہوتی ہے اور وہ وہاں پہنچ کر لقمہ حیات کے انتظار میں صف میں کھڑے ہوتے ہیں تو ان پر صہیونی فوج کے اخلاق سے عاری عناصر گولیاں چلا کر انہیں ختم کر دیتے ہیں۔ نہ بچوں کی معصومیت کا لحاظ کیا جاتا ہے اور نہ ہی عورتوں کی اس ممتا پر رحم کیا جاتا ہے جو اپنے شیر خوار بچے کے سوکھتے حلق میں زندگی کی بوند ڈالنے کیلئے جتن کر رہی ہوتی ہے۔کیا پوری انسانی تاریخ میں یہودیوں سے زیادہ بدتر کوئی ایسی قوم پائی گئی ہے جس نے انسانیت کو اس قدر شرمسار کیا ہو؟ عام طور پر درندوں کو لعن و طعن کیا جاتا ہے کیونکہ ان میں رحم کے ذرات نہیں پائے جاتے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہودیوں کی درندگی کے سامنے اب جنگل کے خونخوار درندوں کی درندگی بھی ماند پڑ گئی ہے۔ اسرائیل نے حیوانیت کا ایسا مظاہرہ غزہ میں کیا ہے کہ آج کی تاریخ میں بہت سے وہ عیسائی صہیونی بھی دنگ رہ گئے ہیں جو ارض فلسطین پر غاصبانہ قبضہ میں ان کے ساتھ برابر کے شریک و ساجھی رہے ہیں اور جنہوں نے ارض مقدس کی آبرو ریزی اور وہاں کے مکینوں کو ہجرت پر مجبور کرنے میں یہودیوں کا ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔ اسرائیل کی حیوانیت سے حیرت زدہ ہوکر بعض یہودی بھی اب تل ابیب کی سڑکوں پر اپنی سرکار کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کیونکہ انہیں یقین نہیں آ رہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اسرائیل نے فلسطینی بچوں اور ماؤں کو شہید کر دیا ہے اور آب و دانہ سے اس حد تک انہیں محروم کر رکھا ہے کہ بچے بھوک سے تڑپ کر موت کی آغوش میں پہنچ رہے ہیں۔ یہودیوں کے یہ مظاہرے دراصل فلسطینیوں کے انسانی حقوق کے دفاع میں نہیں ہو رہے ہیں بلکہ انہیں ان کے اپنے جرائم کی ہولناکی سے ہی ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں ان کا دنیا کے ملکوں میں نکلنا محال نہ ہوجائے۔ صہیونیوں کی اس سنگ دلی سے مصر کے بعض رحم دلوں کو اس قدر اہل غزہ پر ترس آیا ہے کہ وہ پلاسٹک کی بوتلوں میں چاول، آٹا اور دال بند کرکے سمندر کی لہروں کے حوالہ اس امید میں کر رہے ہیں کہ جہاں انسان بے بس ہوگئے ہوں وہاں شاید سمندر وہی کرشمہ دکھائے جو کبھی فرعون کے مقابلہ میں موسی کی یاوری سے ہوئی تھی۔ غزہ کی حالت صہیونی ظالموں نے ایسی بنادی ہے کہ الفاظ میں اتنی قوت باقی نہیں رہ گئی ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کے ناگفتہ بہ حالات کی تصویر کشی کر سکے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حماس پر جو ان متنوع اقسام کے دباؤ کا استعمال ہو رہا ہے اور فلسطینیوں کو توڑنے اور انہیں مایوس کرنے کے لئے بدترین طریقوں کے حربے صہیونی عناصر اپنا رہے ہیں ایسی حالت میں کیا حماس کو غزہ سے دستبردار ہوکر اپنا ہتھیار ڈال دینا چاہئے؟ کیا نیویارک میں جو کانفرنس کی گئی ہے اور جس کو عالمی برادری کے ارادہ سے تعبیر کیا جا رہا ہے اس کے سامنے حماس خود کو ڈال دے؟ اگر حماس ایسا کر دے تو پھر مسئلہ فلسطین کا کیا ہوگا؟ کیا مغربی ملکوں کی جانب سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کا جو خواب دکھایا جا رہا ہے وہ پورا ہوگا؟ کیا آخر اب تک یہی مغربی ممالک اسرائیل کو ہر قسم کی امدادات پہنچانے کے لئے ذمہ دار نہیں رہے ہیں؟ جن ہتھیاروں سے معصوم بچوں اور عورتوں کو روزانہ شہید کیا جا رہا ہے کیا یہ تمام ہتھیار فرانس، جرمنی، آسٹریلیا اور کناڈا جیسے ہی ممالک سے اب تک نہیں آ رہے ہیں جنہوں نے فلسطین کو بطور ریاست قبول کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ یہ محض اشارہ ہی ہے اور کچھ نہیں۔ فلسطین کو بطور ریاست قبول کر لینے کے بعد بھی زمینی حقیقت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوگی کیونکہ ان کی نیت کا کھوٹ صاف ظاہر ہے۔ یہ کیسی عالمی برادری ہے جو امریکہ اور اس کے حلیف مغربی ممالک کے سامنے اس وقت خاموش رہ جاتی ہے جب وہ ہتھیار اور مال و زر سے غاصب اسرائیل کی مدد کرتے ہیں اور فیصلہ کن مرحلوں پر اپنے حلیف اسرائیل کے دفاع میں ویٹو کے استعمال سے امریکہ تن تنہا جنگ بندی کی تمام امیدوں کو ختم کر دیتا ہے؟ یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ یہی عالمی برادری ان فلسطینی مزاحمت کاروں سے پوری شدت کے ساتھ مطالبہ کرتی رہتی ہے کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دے لیکن اسرائیل پر پابندیاں عائد نہیں کرتی۔ اسرائیل روزانہ بلکہ ہر ساعت فلسطینیوں کی زمین و زندگی کو پامال کرتا ہے اس کے باوجود یہ عالمی برادری اسرائیل کے بجائے آزادی کے ان مجاہدین کو ہی مورد الزام ٹھہراتی ہے جن کا واحد مقصد اپنی زمین کو صہیونیوں کے غاصبانہ قبضہ سے آزاد کروانا اور اپنی قوم کو عزت و وقار کی زندگی عطا کرنا ہے۔ یہ عالمی برادری دراصل عدل و حق پسندی کے عنصر سے عاری ہوچکی ہے۔ اس میں ظلم و بربریت اور عدل و انصاف کا فرق سمجھنے کا معیار بدل گیا ہے۔ کہاں کا عدل اور کہاں کی انسانیت؟ آج کی دنیا میں بس قوت و جبروت کی دہلیز پر جبیں سائی باقی رہ گئی ہے۔ اس کو عالمی نظام بھلا کیوں کر کہا جا سکتا ہے؟ اگر اس کو عالمی نظام کہیں گے تو انارکی کو کیا نام دیا جائے گا؟ اور ایسے عالمی نظام سے بھلا اس دنیا میں کونسا مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟ اس نام نہاد عالمی برادری کا اصل مقصد مسئلہ فلسطین کا عادلانہ حل تلاش کرنا بالکل نہیں ہے۔ اب تو یہ بات پورے طور پر آشکارہ ہوچکی ہے کہ اس عالمی برادری کا بنیادی ہدف مزاحمت کاروں کو ذلیل کرنا اور انہیں گھٹنوں پر لانا ہے تاکہ صدیوں تک کوئی آزاد فلسطین کا خواب تک نہ دیکھ پائے تو کیا حماس اور ان کی مساعد مزاحمت کار جماعتیں اس ذلت و سپر اندازی کے لئے تیار ہو جائے گی؟ صاف ظاہر ہے کہ مزاحمت کاروں کا قافلہ اس دباؤ کو قبول کرنے کے لئے قطعا راضی نہیں ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سپر اندازی کی صورت میں اسرائیل کے بڑے صہیونی پروجیکٹ کے لئے راستہ صاف ہوجائے گا۔ اگر اسرائیل کی بربریت کا مقابلہ کرنا ہے تو طوفان ہی واحد حل ہے۔ یہ مزاحمت کی پالیسی ہی ہے جس نے اب تک اسرائیل کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں ورنہ امن کی کوششیں کرنے والوں کو خوب معلوم ہے کہ ان کو اب تک صہیونی خیمہ سے ذلت کے سوا کچھ نہیں ملا ہے۔ جو لوگ ارباب مزاحمت کو جھکانا چاہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ جو حماس کے فیصلوں پر شک کرتے ہیں ان کو حالات کا پورا علم نہیں ہے۔ ارباب مزاحمت اپنے طویل تجربوں کی بنیاد پر جانتے ہیں کہ انہیں کس قسم کے دشمن سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔ ایک ایسا دشمن جو صرف قوت کی زبان سمجھتا ہے۔ وہ اپنے تجربات سے صہیونی دشمن کی ہر چال کے پیچھے کی اصل منشا کا ٹھیک ٹھیک اندازہ رکھتے ہیں اور اسی لئے صرف ان کو ہی یہ حق ہونا چاہئے کہ وہ کس مرحلہ میں کونسا فیصلہ لینا مناسب سمجھیں۔ فلسطین میں جاری جنگ دنیا کی باقی جنگوں اور معرکوں سے اس اعتبار سے مختلف ہے کہ وہاں ارض مقدس پر ایک ایسی غاصب قوم قابض ہے جس کو وہاں ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔اس صہیونی قوت نے مقدسات کو پامال کیا ہے۔ تاریخ کو مسخ کیا ہے اور صحیح و غلط کے معیار کو بدل دیا ہے۔ اس لئے مسئلہ فلسطین کو باقی معرکوں کے معیار کی بنیاد پر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ یہ جنگ حق و باطل کی جنگ ہے۔ یہ ان معان حیات اور ان معیاروں کو زندہ کرنے کی جنگ ہے جن سے انسانی معاشرہ کو ایک صالح اور معتدل نظام حیات قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ آج ان اعلی مفاہیم حیات کو صرف ارباب مزاحمت زندہ کر رہے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ جنگی محاذ پر مزاحمت کاروں کو شکست ہو بھی جاتی ہے اور غزہ کو فنا بھی کر دیا جاتا ہے تب بھی حماس اور دیگر مزاحمت کار جماعتوں کی فتح سمجھی جائے گی کیونکہ انہوں نے زندگی کی آخری سانس تک ثبات قدمی اور بے خوفی کا ثبوت دیا ہے۔ ان کی تاریخ پڑھ کر آئندہ نسلوں کو اعلی مقاصد کے لئے جانفشانی کا سبق ملے گا۔ خوف اور وہن کی دیواریں ٹوٹیں گی اور مستقبل میں بڑی فتح کا راستہ ہموار ہوگا۔ معصوم اور قیمتی زندگیوں کی شہادتیں آج بھی رائیگاں نہیں گئی ہیں۔دنیا بھر کے مسلمانوں اور حق پسندوں کے دلوں میں مسئلہ فلسطین کے مبنی بر انصاف ہونے کا احساس پیدا ہوا ہے۔ صہیونی بربریت نے اسرائیل کو عالمی سطح پر اچھوت اور بے حیثیت بنا دیا ہے۔ فلسطینی مزاحمت نے عالمی نظام کے کھوکھلے پن کو اجاگر کیا ہے اور امریکہ و مغرب کے اس جھوٹ کا پردہ چاک کیا ہے کہ ان کو انسانی حقوق یا حقوق اطفال سے کوئی ادنیٰ سا لگاؤ بھی ہے۔ اقوام متحدہ کی بے بسی و ناکامی صاف نظر آنے لگی ہے۔ انٹر نیشنل کریمنل کورٹ کا بے معنی ہونا جگ ظاہر ہوچکا ہے۔ اقوام عالم کے ضمیر پر اہل فلسطین کی مظلومیت نے ایسا کاری ضرب لگایا ہے کہ دنیا کا چپہ چپہ فلسطین کی آزادی کی صدائے باز گشت سے گونج رہا ہے۔ اس لئے پورے وثوق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہادتیں ضائع نہیں ہوتی ہیں۔ جو لوگ حماس سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس کو اپنا ہتھیار ڈال دینا چاہئے وہ دراصل اس غلط فہمی میں جی رہے ہیں کہ حماس کے خاتمہ کے بعد ایک پر امن مشرق وسطی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس اور ان کی رفیق کار جماعتیں وہ آخری دیوار ہیں جس نے مشرق وسطی میں گریٹر اسرائیل کے صہیونی منصوبہ کو روک رکھا ہے۔ جس دن حماس ختم ہوجائے گی اس دن کے بعد نہ تو سینا مصر محفوظ رہے گا اور نہ نیل و فرات کے کنارے آزاد رہیں گے۔ لبنان و شام میں جاری اسرائیلی جارحیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صہیونی منصوبہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اگر اس کو ناکام بنانا ہے تو حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرنے کے بجائے اس کے ہاتھ کو مضبوط کیا جانا چاہئے۔ خطہ کے تمام عرب ممالک کے حق میں یہی پالیسی مفید ہوسکتی ہے باقی کچھ نہیں!
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)