شاہنواز احمد صدیقی
اس وقت امریکہ غزہ میں جنگ اوراسرائیل کی جارحیت کے معاملہ کسی بھی دوسرے مغربی ملک کے مقابلے زیادہ پریشان ہے۔ امریکی افسران اعلیٰ ترین قیادت اورسفارت کار اپنی تمام تر توجہ اس مسئلہ کے پرامن حل کی طرف مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ اندرونی اوربیرونی دباؤ اور امریکہ کے صدارتی انتخابات کے موقع پر وہاں کی موجودہ قیادت چاہتی ہے کہ آئندہ دس ماہ کے اندر اندرصدارتی انتخابات سے پہلے اس تنازع کا کوئی حل نکل آئے اور انتظامیہ پر حالیہ دباؤ کو ختم کرایا جائے۔امریکی وزیرخارجہ گزشتہ چار ماہ میں زیادہ تر وقت اسرائیل اور مغربی ایشیا کے ملکوں کا دورہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔گزشتہ تقریباً3ماہ میں امریکی وزیر خارجہ کا یہ چھٹادورہ ہے۔امریکہ کو اندازہ ہوگیا ہے کہ دو ریاستی فارمولے پرعمل درآمد کرائے بغیر مغربی ایشیا میں قیام امن ناممکن ہے۔ اس لیے تازہ ترین تجویز ایک آزاد فلسطین کا قیام ہے جو غیرمسلح ہوگی اور اس کی کوئی وزارت دفاع نہیں ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ یہ مجوزہ ریاست اسرائیل کی جارحیت سے کیسے نمٹے گی؟امریکی انتظامیہ کا کہناہے کہ آج کے حالات میں اسرائیل کی سیکورٹی کے لیے یہ کام ضروری ہوگیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے میتھوملیر نے انتظامیہ کی حکمت عملی کو پہلی مرتبہ واضح کیا ہے اور باقاعدہ اعلان کیا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سیکورٹی کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے اس مقصدکے حصول کے لیے وسیع تر متبادلوں کی بات کہی ہے۔
حکومت امریکہ اس بابت تمام فریقوں سے تبادلہ خیال کررہی ہے۔ مغربی ایشیا کی سرگرمیوں اور سیاسی اور عسکری مفادات کے تحفظ میں مصروف برطانیہ نے بھی چند روز قبل اسی طرح کے کچھ اشارے دیے تھے۔ خیال رہے کہ برطانیہ کے وزیرخارجہ ڈیوڈکیمرون کا لہجہ ایک مشاق سفارت کار کا رہاہے۔ وہ کوئی بھی بات بالکل فیصلہ کن انداز میں نہیں کہہ رہے ہیں، مختلف متبادل کھلے رکھے ہیں۔جبکہ وزیراعظم رشی سونک آگے بڑھ کر اسرائیل کی اندھی حمایت میں بیانات دے رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سعودی عرب کے ولی عہد محمدبن سلمان کے ساتھ بات چیت میں کیمرون اسی طرح کے موقف کا اظہار کیا تھا جس سے لگ رہاتھا کہ برطانیہ میں بھی اس کے روایتی موقف میں تبدیلی آئی ہے۔خیال رہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے معاملے میں اپنے رخ سے مغربی ممالک میں امید اور مایوسی دونوں کے احساسات پیدا کررہاہے۔ محمد بن سلمان چالاک لومڑی کی طرح پالیسی لے کر چل رہے ہیں وہ امریکہ اوردیگر ممالک اسرائیل پر زورڈالتے رہے ہیں کہ اسرائیل کے تئیں نرمی اور نرم خوئی پیدا ہو۔ امریکہ مغربی ایشیا کے تمام ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات استوار کرانے میں اسرائیل سے زیادہ دلچسپی لے رہاہے۔ کیونکہ 7اکتوبر کے واقعات کے بعد پوری دنیا مسئلہ فلسطین پر دوسرے نظریہ سے توجہ دے رہی ہے اور اسرائیل کی بربریت اور فلسطینیوں کی زمین پر غاصبانہ فیصلہ پربھی انصاف پسندوں کی آواز اٹھنے لگی ہے۔
ہیگ کی عالمی عدالت انصاف کے فیصلہ کے بعد اسرائیل اوراسرائیل نوازوں کے خلاف رائے عامہ ہوئی ہے اور پوری دنیا کے وہ لوگ جو مسئلہ فلسطین کو انتہائی پیچیدہ مسئلہ سمجھتے تھے۔ ان کی سمجھ میں آنے لگاہے کہ فساد کی جڑکیا ہے اور کہاں؟ دراصل اسرائیل کے سامنے موجودہ چیلنج کو سر کرنے کے علاوہ ایک اورچیلنج انتظار کررہاہے وہ بھی شاید ہیگ کی عالمی عدالت انصاف سے آئے گا۔ دراصل عالمی عدالت کے سامنے فلسطینی علاقوںپرغاصبانہ قبضہ کے بھی ایشو پر سماعت ہے جو کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس قرار داد کے پاس ہونے کے بعد آیا ہے جس میں عالمی عدالت (آئی جے سی) سے قانونی صلاح دینے کی بات کہی گئی تھی۔ خیال رہے کہ 1967کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے اردن، شام، لبنان، مصر کے علاقوں پر فیصلہ کرلیا تھا اور مصر کے علاوہ اس نے آج تک بھی عرب ملک کی زمین کو نہیں چھوڑا ہے۔ ان تمام ملکوں کے ساتھ اسرائیل کاتنازع ہے اور وہ سب پڑوسی ملکوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ اسرائیل 1992-95کے اوسلو سمجھوتے کے بعد بھی اسرائیل اپنے فرائض کو ادا نہیں کرپا رہاہے اوریہی وجہ ہے کہ آج مسئلہ فلسطین مزید سنگین اور پیچیدہ ہوگیا ہے۔ حدیہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اس بحران کی وجہ سے اپنے پرانے اور ’دیرینہ حریف‘ ایران اور اس کی حمایت والے گروپوں اورجنگجوؤں سے بھی عالمی طاقتوں کو لاحق خطروں کی طرف توجہ مبذول نہیں کراپارہے ہیں۔ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ،یمن، شام اور عراق کے ساتھ ساتھ لبنان میں اپنے بچھائے ہوئے جال میں پھنستادکھائی دے رہا ہے اور اسرائیل کی جنگ خود لڑ رہا ہے۔
مغربی ایشیا کاپورا خطہ اپنی معدنی اورقدرتی ذخائر کی وجہ سے پوری دنیا کی توجہ کامرکز بناہوا ہے۔ اس خطہ سے برآمد ہونے والی پیٹرولیم مصنوعات کی ایکسپورٹ عالمی تجارت معیشت اور اس حوالے سے سیاست کی سمت اور رفتار طے کرتی ہے۔ روس کے ذریعہ یوکرین پرحملہ کے بعد جس طرح، امریکہ کی ہدایات کااتباع کرنے سے سعودی عرب اور دیگر حلیفوں نے انکار کیاہے اس سے اسرائیل نوازوں کی پیشانی پرشکن محسوس کی جاسکتی ہے۔ عالمی طاقتوں کوان ممالک میں امن وامان میں کم ہی دلچسپی ہے۔ یہ ممالک صرف اپنے مفادات کی خاطر اس پورے خطے کو افواج کاگڑھ بنانے ہوئے ہیں۔ بحراحمر میں اورکس حد تک تحفظ فراہم کرپائیں گے، یہ ظاہرہوتاجارہاہے۔ایران کے حمایت یافتہ گروپوں نے کووڈ19کے بعدسے اب تک کے بحران کے شدید ترین اندیشے کولاکھڑا کیاہے۔ ان حالات میں امریکہ کی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کی کوششیں کس حد تک کامیاب ہوگی اس کا اندازہ لگانا قبل ازوقت ہوگا۔ کیونکہ امریکہ کا منصوبہ ایک ایسے فلسطینی ملک کی تجویز کے گرد گھوم رہاہے، جس کی کوئی فوج نہیں ہوگی یعنی فلسطینی ریاست Demilitarisedہوگی۔ مگر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ایک بغیرفوج کی ریاست کا حشر وہی نہیں ہوگا جو اس وقت مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر کام کررہی فلسطینی اتھارٹی کا ہورہاہے۔ سوال یہ ہے کہ اس مجوزہ فلسطینی آزاد اور خود مختار ریاست اسرائیل کی فوج کی زیرنگرانی ہوگی یا اور کوئی التزام کی تجویزآئے گی۔n