سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
اب جبکہ مرکزی سرکار نے کووِڈ 19-کے جاری رہنے کے باوجود لاک ڈاون یا تالہ بندی میں نرمی لانے کا اشارہ دیا ہے ،جموں کشمیر کی سرکار اوائل جون سے اسکول کھولنے کی تیاری کر رہی ہے۔ حالانکہ اس بارے میں ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا جاسکا ہے تاہم سرکاری انتظامیہ کا کہنا ہے کہ طلاب کا مزید وقت ضائع نہیں ہونے دیا جا سکتا ہے۔
وادیٔ کشمیر میں محکمۂ تعلیم میں ذرائع کا کہنا ہے کہ اسکولوں کی ضروری مرمت اور دیگر متعلقہ کام مکمل کرنے کی ہدایت دی جاچکی ہے اور سرکار جلد سے جلد اسکول بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ محکمہ کے پرنسپل سکریٹری ڈاکٹر اصغر سامون نے اس منصوبے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ طلاب کا پہلے ہی بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہے وہ چاہتے ہیں کہ اسکول جلد از جلد بحال ہوں اور طلاب اسکولوں میں لوٹ آئیں۔ انہوں نے کہا ’’ہم چاہتے ہیں کہ جون کے پہلے ہفتے سے اسکول کھولے جائیں تاکہ طلاب کی پڑھائی کا مزید نقصان نہ ہونے پائے‘‘۔ انکا کہنا ہے کہ سرکار نے کووِڈ 19-کے دوران ریڈیو ،ٹی وی اور دیگر متبادل ذرائع سے بچوں کی پڑھائی جاری رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے جو اسکولوں کے بضابطہ طور بحال ہونے تک جاری رہے گی لیکن اسکولوں کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر سامون نے ماتحت افسروں اور متعلقین کیلئے جاری کردہ ایک حکم نامہ میں اسکولوں کی ضروری مرمت،رنگ و روغن اور اس طرح کی تیاری کی ہدایت دی ہے۔حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ اسکولی عمارتوں کو تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کیلئے تیار حالت میں رکھا جانا چاہیئے تاکہ ان سرگرمیوں کی بحالی میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ یا دقعت پیش نہ آئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نجی اسکولوں کے زعماٗ کے ساتھ ایک میٹنگ میں محکمہ تعلیم کے اسفروں نے انہیں بھی تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کیلئے تیار رہنے کی ہدایت دی ہے۔
نجی اسکولوں کی انجمن جموں کشمیر پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر غلام نبی وار نے کہا کہ انہوں نے سرکاری انتظامیہ کے ساتھ میٹنگ میں کئی تجاویز پیش کی ہیں اور اپنی طرفسے سرکار کو ہر ممکن تعاون دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ انہوں نے کہا ’’کووِڈ19-کا چلینج ابھی باقی ہے لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہمارے یہاں تیز رفتار انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے آن لائن کلاسز ممکن نہیں ہیں لہٰذا ہمیں اسکول کھولنا ہی ہونگے البتہ یہ سب کووِڈ 19-سے پہلے کی طرح نہیں ہوگا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اسکولوں کی بحالی مرحلہ وار بنیادوں پر ہوگی اور سوشل ڈسٹینسنگ کی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ’’شفٹ وائز کلاسز‘‘ لی جائیں گی۔
جموں کشمیر میں کووِڈ 19-کے ڈر سے سرکار نے 7 مارچ کو پہلے پرائیمری اور پھر سبھی تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ لیا تھا اور تب ہی سے یہ سبھی ادارے بند ہیں ۔ وادیٔ کشمیر کے طلاب گذشتہ سال بھی دفعہ370 کی تنسیخ سے پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے کئی ماہ تک اسکول سے دور رہے تھے۔ اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے طلاب اور انکے والدین بھی جلد از جلد اسکولوں کی بحالی تو چاہتے ہیں لیکن کئی والدین کا کہنا ہے کہ انکے لئے بچوں کی تعلیم سے زیادہ انکی زندگی زیادہ اہم ہے۔ جیسا کہ سرینگر کے ایک انجینئر نے ،جنکی دس سالہ بچی شہر کے ایک نجی اسکول کی طالبہ ہے ،بتایا۔ وہ کہتے ہیں ’’اسکولوں کا کھولا جانا ضروری ہے لیکن میں نہیں سمجھتا ہوں کہ والدین کووِڈ 19-کے جاری رہتے ہوئے بچوں کو اسکول بھیجنے پر آمادہ نہیں ہونگے۔ انکا کہنا ہے ’’تعلیم کی ضرورت سے انکار تو نہیں ہو سکتا ہے لیکن ہر ضروری چیز زندگی کے بعد آتی ہے،میرے خیال میں فی الحال اسکول کھولنے کی بجائے بچوں کو گھر بیٹھے پڑھانے کا منظم طریقہ ڈھونڈ لیا جانا چاہیئے،اسکولوں میں آپ کتنی ہی احتیاط کیوں نہ کریں لیکن آپ بچوں کے کووِڈ 19- سے محفوظ رہنے کی ضمانت نہیں دے سکتے ہیں‘‘۔