شاہنواز احمد صدیقی: ملیشیا میں اسلام پسندوں کی سبقت؟

0

شاہنواز احمد صدیقی

ملیشیا میں اس مرتبہ کے الیکشن میں انور ابراہیم کی قیادت والا محاذ برسراقتدار آیا ہے۔ مگراس الیکشن کی سب سے قابل ذکربات یہ ہے کہ اسلام پسندوں کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس الیکشن میں زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام اور اس کی تعلیمات کو اہمیت دینے والے مکتب فکر کو عوامی حمایت ملی ہے۔ اگرچہ طویل عرصہ تک قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنے والے انور ابراہیم بادشاہ کی مداخلت اورخصوصی معافی کے بعد وزیراعظم بنے ہیں۔ انور ابراہیم 18ماہ سے چلے آرہے اقتصادی اورسیاسی بحران کے بعد وسط مدتی انتخابات میں وزیراعظم مقرر کیے گئے۔ دراصل ان انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو مکمل اکثریت نہیں ملی اس لیے مختلف ہم خیال پارٹیوں نے ایک ایجنڈے کے تحت اتحاد کرکے مخلوط حکومت بنائی ہے۔
53ملین آبادی والے ملیشیا کا شمالی جنوبی ایشیا کی اہم معیشتوں میں شمار ہوتاہے۔ ملیشیا میں ہندوستان کی بڑی آبادی مقیم ہے۔ آبادی میں دوسرا بڑاحصہ چینی نژاد کاہے۔ اپنی شعلہ بیان تقریروں اور دور اندیشی کے لیے مشہور انورابراہیم کو اپنی ایمانداری کا خمیازہ بھگتناپڑا۔ وہ 1990کی دہائی میں دومرتبہ نائب وزیراعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے ملک کے وزیرخزانہ رہے۔ ایک زمانے میں مأثر محمدکے قریبی سمجھے جانے والے انور ابراہیم کو 1998کے اقتصادی بحران میں ملک کو صحیح سمت نہ دیے جانے کا الزام لگاکر برخاست کردیاگیاتھا۔ کچھ حلقوں میں مأثر محمد اور ابراہیم کے درمیان اختلاف رائے کو اہمیت دی گئی ۔الزام ہے کہ انور ابراہیم کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ان کے خلاف الزام اورکرپشن کے معاملات بناکر جیل بھجوادیاگیاتھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان کی قید کی ’ضمیر کا قیدی‘ قرار دیاتھا۔ مگر ملیشیا کی سپریم کورٹ نے ان کو الزام سے بری کردیا تھا۔
بہرحال انورابراہیم کے سامنے بڑا چیلنج معیشت کوپٹری پرلانے کے علاوہ اندرون ملک سیاسی سمت کو بھی کنٹرول کرنا ہے۔ جو پہلو اکثر سیاسی مبصرین کی نگاہ سے اوجھل ہوگیا ہے، وہ ہے اسلام پسند پارٹیوں کو حاصل سیاسی حمایت اورووٹ۔ 2022کے الیکشن میں اسلام پسند بی اے ایس سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے۔
مبصرین اس صورت حال کو انورابراہیم کا سب سے بڑا چیلنج قرار دے رہے ہیں۔ زندگی کے ہرشعبہ میں اسلام پسندوں کے بڑھتے اثرورسوخ کی وجہ سے سیاسی سطح پر اسلام پسند ممبران پارلیمنٹ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مبصرین کاکہنا ہے نوجوانوں میں ان پارٹیوں کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور سیاسی پارٹیاںچاہتی ہیں کہ نوجوانوں میں آرہی بیداری فوج اورسیاست پربھی اثرانداز ہو۔
مختلف مذاہب، تہذیبوں اورنسل کے لوگوں کی ملی جلی آبادی والے جنوبی ایشیائی ملک ملیشیا میں حالیہ عام انتخابات میں چونکانے والے نتائج آئے ہیں اورایسا لگ رہاہے کہ ویسٹ منسٹر نظام پارلیمنٹ (West Minister form of Parliament Systemاسلام پسند پارٹی کی زد میں آرہاہے۔ 13ریاستوں میں مرکزی سرکار کے زیر انتظام خطوں Federal Territoriesوالے ملک کو مسلم اکثریتی کہا جاتا ہے۔ مگر وہاں مقامی مسلم مالے کی آبادی 70فیصد ہے اور دوسرے نمبر کی سب سے بڑی آبادی چینی نسل کی ہے اور تقریباً 7فیصد ہندوستانی النسل کے لوگ رہتے ہیں۔ مجموعی طورپر سیاسی نظام سیکولر ہے مگر اس الیکشن میں اسلام پسندوں نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے مستقبل میں بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کیاہے۔
ملیشیائی پارلیمنٹ میں پارٹی اسلام ملیشیا نے 222اراکین والے ایوان میں سب سے زیادہ 49سیٹیں جیتنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ جبکہ دوسری بڑی جماعت ڈیموکریٹک ایکشن پارٹی کو 40سیٹیں ملیں۔ اول الذکر پی آئی ایم چاہتی ہے کہ ملیشیا میں مکمل اسلامی نظام قائم ہوجائے اور یہ ملک اسلام پرست ملک بن جائے۔ برطانوی نظام پارلیمنٹ جسے ویسٹ منسٹر طرز کی پارلیمنٹ کہتے ہیں، ختم کردیاجائے۔ اس جماعت کا کہنا ہے کہ ملیشیا میں بسے ہوئے غیرملکوں کو سیاسی حقوق نہیں ملنے چاہئیں۔ یہ لوگ ملیشیا میں محض Dhimmi(ادھورے شہری) بن کر رہیں۔ ڈیموکریٹک ایکشن پارٹی پی آئی ایم کے نظریات سے متفق نہیں ہے اور چاہتی ہے کہ ملیشیا ایک آزاد،سیکولر ملک بنارہے ، جہاں تمام شہریوں کو یکساں سیاسی حقوق حاصل ہوں۔ انور ابراہیم کی ڈیموکریٹک ایکشن پارٹی کو ملیشیا کی غیرمالے نسل کی تقریباً90فیصد حمایت ملتی ہے۔
انور ابراہیم کی قیادت والے محاذ میں40سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ چینی اور ہندوستانی ہیں۔ 75سال کے انور ابراہیم 1998میں نائب وزیراعظم بنے تھے اور لگاتار گزشتہ 24سال سے اپنے خلاف مقدمات، سیاسی دباؤ کا مقابلہ کررہے ہیں۔ ان کے خلاف جنسی بدسلوکی اور کرپشن کے سنگین الزامات تھے اوران کے ساتھ پولیس افسران نے بھی بدسلوکی کی تھی ان کو زدوکوب کیاگیاتھا۔ بعد میں ملیشیا کے شاہی خاندان نے ان کو معافی دے دی تھی۔ ملیشیا کے سیاسی حلقوں میں انور ابراہیم کو ایک روشن خیال جمہوریت پسند لیڈر قرار دیاجاتا ہے۔ بادشاہ انور ابراہیم کی قیادت والے سیاسی محاذ جسے امیدکا اتحاد Pakatan Harpanکہتے ہیں،کواس اتحاد کا سربراہ اور وزیراعظم مقرر کیا گیا ہے۔ اس طرح اب ملیشیا میں دوسیاسی محاذ امید کا اتحاد اور اپوزیشن قومی اتحاد Parikatan Nationalمذہبی خطوط پرمبنی قوم پرستی پر مبنی ہے۔حکمراں اتحاد میں نیشنل فرنٹ (بی این) سراواک پارٹیز الائنس(Sarawak Parties Allince(جی پی ایس) صباح پیوپلزا الائنس(Sabah People’s Alliance(جی آر ایس) ہیرٹیج پارٹی(Heritage Party)، ڈبلیو اے آرآئی ایس اے این)، ملیشیائی پیوپلز پارٹی (Malaysian People’s Party(پی بی ایم) سوشل ڈیموکریٹک ہارمینی پارٹی(Social Democratic Harmony Party Independents) (کے ڈی ایم اور انڈپنڈنٹس) شامل ہیں۔ اپوزیشن اسلام پسندوں کا اتحاد (Parikatan National)کی قیادت محی الدین یاسین کررہے ہیں اوران کے اتحاد کو 74ممبران پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS