شاہد زبیری
یوپی کے لکھیم پور کھیری ضلع کے نگھاسن میں حال ہی میں اسکول میں زیر تعلیم دلت فرقے کی دو نابالغ سگی بہنوں کی اجتماعی عصمت دری اور ان کے بہیمانہ قتل کی جتنی مذمت کی جا ئے کم ہے۔ اس دل دہلا دینے والی واردات نے ایک مرتبہ پھر ہمارے سماج کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ یہ مسئلہ نہ فرقہ وارانہ نوعیت کا ہے اور نہ سیا سی نو عیت کا، در حقیقت یہ ایک سماجی مسئلہ ہے جس کا تعلق لاء اینڈآرڈر سے بھی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، یہ بہیمانہ واردات یوپی میں لاء اینڈآڈر کے بہتر ہونے کے سرکاری دعوؤں پر بھی سوال کھڑے کرتی ہے لیکن حسب معمول ہندو فرقہ پرست تنظیمیں اس مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس کو لو جہاد کا نتیجہ ثابت کرنے میں لگ گئی ہیں۔ 18 ستمبر کے ایک ہندی روزنامے کی خبر کے مطابق سہارنپور کے حقیقت نگر علاقے میں ہندوجاگرن منچ نے لو جہاد کا پتلا نذر آتش کیا اور اس بابت ایک میمو رنڈم بھی وزیراعلیٰ کے نام سٹی مجسٹریٹ کو سونپا ہے۔ خبر کے مطابق ہندو جاگرن منچ کے مقامی صدر اور جنرل سکریٹری نے اس بہیمانہ واردات کو ہندو لڑکیوں کو پریم جال میں پھنسا کر عصمت دری کرنے اور پھر قتل کیے جانے کا معاملہ قرار دیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ ہندو جاگرن منچ اس مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتا ہے۔ صرف اس لیے کہ ملزمان کا تعلق ایک خاص فرقے سے ہے۔ ملزم کوئی بھی ہو، ملزم ملزم ہوتا ہے، اس کا مذہب اور ذات برادری نہیں دیکھی جاتی۔ بلاشبہ یہ واردات دل دہلا دینے والی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ملزمان گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو ملزمان کو قرار واقعی سزا ملنی ہی چاہیے لیکن ہمارا پولیس سسٹم اور قانونی نظام اتنا ڈھیلا ڈھالا ہے کہ اکثر ملز م ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر چھوٹ جا تے ہیں اور پولیس عدالت میں جرم ثابت نہیں کر پاتی۔ نر بھیا کیس کے بعد بنا ئے گئے قانون کے باوجود اس طرح کی شرمناک اور سماج کو دہلادینے والی واردتیں کم نہیں ہو رہی ہیں۔ ہم اس کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتے لیکن یوپی کے لوگ بدایوں، انّائو اور ہاتھرس کی عصمت دری اور قتل کی وارداتوں کو ابھی بھولے نہیں ہیں۔ ان وارداتوں کا تعلق بھی دلت فرقے کی لڑکیوں اور خواتین سے تھا اور اس تازہ واردات کا تعلق بھی دلت طبقے سے ہے۔ ظاہر ہے کہ دلت طبقہ سماجی اور معاشی لحاظ سے آج بھی کمزور مانا جاتا ہے، خاص طور سے دیہی علا قوں میں اس فرقے کی خواتین کے ساتھ ہونے والی اور ہمارے سماج کو شرمسار کرنے اور روح کو جھنجھوڑنے والی کی وارداتوں میں کمی نہیں آرہی ہے۔ حتیٰ کہ سرکار میں وزیر رہتے ہوئے ہوس پرست نے خاتون کی عزت لوٹ لی تھی۔ اس معاملے میں یوپی پولیس کی سنگدلی بھی سامنے آچکی ہے۔ ہاتھرس کی واردات میں پولیس نے جو کردار ادا کیاتھا، وہ لوگوں کی یادداشت میں ابھی محفوظ ہے۔ لوگ بھو لے نہیں ہیں۔ اس پر پولیس کی چو طرفہ مذمت ہو ئی تھی اور یوگی سرکار کی بھی کرکری ہوئی تھی۔ پولیس نے عصمت دری کی شکار خاتون کی لاش وارثان کے سپرد کرنے کی بجائے رات کی تاریکی میں پٹرول ڈال کر جلا دی تھی اور بدنصیب کے گھر والوں کو ہی پھانسنے کے الزام لگے تھے۔ ہاتھرس معاملے کی گونج پورے ملک میں سنائی دی تھی جس کے بعد کیرالہ کے ایک صحافی صدیق کپّن کو رپورٹنگ کے لیے ہاتھرس جا نے سے پہلے ہی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا جنہیں خدا خدا کرکے حال ہی میں سپریم کورٹ سے ضمانت ملی ہے۔
اس تازہ واردات کی بابت بھی لکھیم پور پولیس پر لیپاپوتی کے الزام لگ رہے ہیں۔ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے مبینہ طور پر دونوں بہنوں کی ہلاکت کو خودکشی بتا یا تھا، کیونکہ لاشیں درخت پر جھولتی ہو ئی پائی گئی تھیں جبکہ ستم رسیدہ خاندان چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ دونوں بہنوں کو ملزمان گھر والوں کے سامنے موٹر سائیکل پر زبردستی کھینچ کر لے گئے تھے لیکن پولیس کی اپنی کہا نی تھی، وہ اجتماعی عصمت دری اور قتل کی بہیمانہ واردات کو خود کشی بتا رہی تھی۔ بعد میں پوسٹ مارٹم رپورٹ نے پولیس کی کہانی کو جھٹلا دیا۔ خبروں کے مطابق رپورٹ میں موت کا سبب گلا گھونٹنا بتایا گیا ہے۔ اس کے بعد ہی پولیس نے اس واردات کے نصف درجن ملزمان کو گرفتار کیا۔ گرفتار کیے گئے ملزمان اپنے ناموں سے مسلمان ہیں۔ اسی بنیاد پر ہندو جاگرن منچ نے اس سماجی اور قانونی مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے لو جہاد د سے اس کے تا رجوڑ دیے جبکہ یہ مسئلہ جہاں ہمارے سماج کے اخلاقی زوال کا آئینہ دار ہے وہیں سماج میںخواتین کی حیثیت اور خاص طور پر سماج کے کمزور طبقات کی خواتین کے تحفظ سے تعلق رکھتا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی ’ناری کے سمّان‘ کے انتخابی وعدے کو بھول گئی ہے اور سب سے زیادہ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ ورادات اس وقت انجام دی گئی جب ملک آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہا ہے اور اس موقع پروزیراعظم نریندر مودی کے اس بیان کی گونج ختم نہیں ہوئی ہے جس میں وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر خواتین کے اِمپاور منٹ کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن یوپی میں بی جے پی کی یوگی سرکارخواتین کو تحفظ دینے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ یو گی سرکار کے دونوں ٹرم میں ان چاروں اضلاع میں عصمت دری کی جو وارداتیں سامنے آئی ہیں، اتفاق سے ان سب کا تعلق سماج کے کمزور طبقے، دلت طبقے سے ہے لیکن ضروری نہیں کہ سماج کے دوسرے فرقوں اور طبقات کی خواتین اور معصوم لڑکیا ں آبادیوں میں رہنے والے درندوں سے محفوظ ہوں، کب کس کے ساتھ کیا ہو جائے، کون جانتا ہے۔ یہ مسئلہ انتہائی سنگین ہے، یہ ہمارے سماجی تانے بانے اور ہمارے سماج کی خلاقی حیثیت پر تو سوال کھڑا کرتا ہی ہے، اس کا راست تعلق یو پی کے لاء اینڈ آرڈر سے بھی ہے۔ اس سوال پر اپوزیشن پارٹیاں خاموش ہیں سوائے لوکدل کے جس نے 16 ستمبر کو ریاست گیرسطح پر اس کے خلاف مظاہرے کیے اور لاء اینڈ آرڈر پر بھی سوال کھڑے کیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایسے سماجی مسئلوں کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھا جا ئے، ان پر سیاسی روٹیاں نہ سینکی جا ئیں لیکن اس سوال کو اگر سیاسی پارٹیاں نہیں اٹھا ئیں گی تو اٹھائے گا کون۔ اس سوال کا تعلق ہمارے سماج کی بے حسی اور بزدلی سے بھی ہے۔ آخر جب د رندے دونوں بہنوں کو گھر والوں کے سامنے اٹھا کر لے جا رہے تھے اور وہ چیخ رہے تھے جیسا کہ گھر والوں کا دعویٰ ہے تو اس وقت آس پڑوس سے کوئی مدد کے لیے کیوں نہیں دوڑا ؟ آخر سماج اتنا بے حس اور بزدل کیوں بن گیا کہ مائیں ، بہنیں، بیٹیاں گھروں میں ہی غیر محفوظ ہو جائیں اور بدمعاش گھروں میں گھس کر ان کو اٹھا کر لے جائیں۔ ان کی عزت وآبرو لوٹیں اور ان کی جان تک لے لیں۔ حیرت ہے کہ نربھیا کیس سمیت دیگر ایسے کیس بھی ہیں جن میں عدالتیں مجرموں کوسخت سزائیں دے چکی ہیں لیکن یہ سزائیں اور قانون بھی ایسے درندوں میں خوف کا باعث نہیں بن پا رہے ہیں اور یوگی سرکار کی بدمعاشوں کو ’ٹھوکو‘ جیسی سخت کارروائی بھی خوفزدہ نہیں کر رہی ہے۔ آخر یو پی میںبد معاشوں کے حوصلے اتنے بلند کیسے ہو گئے کہ وہ گھروں سے لڑکیاں اٹھا کر لے جا ئیں، ان کی آبرو ریزی کریں اور ان کو قتل کر ڈالیں۔ آخر ہمارا سماج جا کس طرف رہا ہے؟ یہ سوال بھی غور طلب ہے صرف سرکار اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہے۔
[email protected]