شاہد زبیری
راہل گاندھی کی کنیا کماری سے کشمیر تک ’بھارت جوڑو یاترا‘ کو تو 30 جنوری کو اپنی طے شدہ منزل مل گئی لیکن کانگریس کی یاترا کی ابھی منزل نہیں آئی ہے۔ اس کیلئے ہنوز دلّی دور است نظرآرہی ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ بھارت جوڑو یاترا کے بعد کانگریس کو ہاتھ سے ہا تھ جوڑو کی اپنی سیاسی یاترا کے سہارے اقتدار تک پہنچنا ابھی آسان نہیں ہوگا۔ بیرونی سطح پر بھی اور داخلی سطح پر بھی اس کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ بھارت جوڑو یاترا نے ملک کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تانے بانے کو مضبوط کرنے کی جو کوشش کی ہے اس کوشش کو جاری رکھنا بھی کانگریس کی ذمّہ داری ہے۔ اس لئے کہ ملک میںسیاسی مقاصد کے حصول کیلئے سنگھ اور بی جے پی اور ان کے گماشتوں نے نفرت کی جو کاشت کی ہے اس پر محبت کے پھول اتنی جلدی کھلنے والے نہیں اس کیلئے ایک بھارت جوڑو یاترا کافی نہیں ہوسکتی۔ یہ مسلسل کیے جانے والا عمل تھا جو نہ آزادی سے پہلے کیا گیا اور نہ آزادی کے بعد اور نہ اس کیلئے کانگریس سمیت سیکولرزم کا دعویٰ کرنے والی دیگر جماعتیں آج کوئی سنجیدہ کوشش کرتی دکھا ئی دے رہی ہیں۔ ملک میں نفرت کی زہریلی فضا کا اندازہ سپریم کورٹ کی بے بسی اور لاچاری سے لگا یا جا سکتا ہے، حال ہی میں سپریم کورٹ نے 2فروری کو اس بات پر افسوس جتا یا تھا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے با وجود نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ سکل ہندو سماج کی طرف سے 5 فروری کو ممبئی میں نکالے جا نے والی ہندو جن آکروش ریلی کے خلاف عرضی کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو کہنا پڑا اگر اس طرح کے بیانات یعنی نفرت انگیز بیانات پر روک لگانے اور ہدایات جاری کرنے کو کہا جائے تو اس کو(سپریم کورٹ کو) بار بار شرمندہ ہو نا پڑے گا ۔
آنے والے دن کانگریس کیلئے ہی نہیںملک کیلئے بھی سخت آزمائش کے دن ہیں، اڈانی کے فراڈ کی پردہ پوشی کرنے کیلئے ابھی سنگھ اور بی جے پی خود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سمیت حکومت نے چپّی سادھ رکھی ہے، پارلیمنٹ میں مودی حکومت کو کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں جس طرح گھیر رہی ہیں اس پر سنگھ پریوار اور بی جے پی اور ان کے بغل بچّے خاموش بیٹھنے والے نہیں، رام کے مجسمہ کیلئے نیپال سے لایا گیا ایک دیو ہیکل پتھر کی یاترا بھی ان دنوں یوپی میں نکالی جارہی ہے ا س پتھر کو ایودھیا لے جا یا جارہا ہے جن شہروں سے یہ ہوکر گزر رہا ہے اس کے درشن کرنے والوں کا ہجوم ہے۔ سنگھ اور بی جے پی اس کے ذریعہ بھی اپنے حق میں فضا کو سازگار بنائے رکھنے کی کوشش کررہی ہے اور اس کوشش میں وہ کامیاب ہیں، ممبئی میں سکل ہندو سماج کی ہندو جن آکروش ریلی یہ سب 2024کے انتخابات کا پیش خیمہ ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جا ئے تو 2024 تک کے انتخابات کے آتے آتے ملک کی ہوائوں میں فرقہ واریت کا زہر گھلنے اور فضا میں گھٹن بڑھنے کے آثار ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ بی جے پی آنے والے صوبائی انتخابات اور پارلیمانی انتخابات پہلے سے طے شدہ ایجنڈہ کے مطابق ہی لڑے گی، اس کا صاف اشارہ وزیر داخلہ امت شاہ پہلے ہی دے چکے ہیں، تریپورہ کے انتخابی جلسہ میں وزیر داخلہ امت شاہ نے یکم جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کے دوار کھولے جانے کا جو مژدہ سنایا ہے وہ اس بات کا مظہر ہے۔ یہ مژدہ رام مندر ٹرسٹ کو سنانا تھا لیکن سنایا وزیر داخلہ نے۔ اب ٹرسٹ نے رام مندر کے افتتاح کی تاریخ 14جنوری بتائی ہے ، رام مندر، لو جہاد، حجاب، مذہب کی تبدیلی، مسلم فرقہ کی بڑھتی آبادی کا من گھڑت پرو پیگنڈہ یہ سارے آز مودہ ہتھیار بی جے پی انتخابات میں پھر استعمال کرے گی۔ رام چرت مانس پر اعتراضات کو اسی لئے ہندو مذہب پر حملہ قرار دیا جارہا ہے۔ ہر چند کہ راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے دوران یا اس سے پہلے ان ایشوز پر براہِ راست کچھ نہیں کہا لیکن وہ سنگھ پریوار اور بی جے پی پر نام لیکر مسلسل حملہ آور ہورہے ہیں اور ان کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کا پردہ فاش کررہے ہیں ان کے علاوہ کانگریس کے کسی دوسرے لیڈر نے ابھی تک یہ جرأت نہیں دکھائی ہے۔ مانا یہ ہمّت کسی اور دوسری سیکولر جماعت نے بھی نہیں دکھا ئی لیکن کانگریس کادعویٰ ہے کہ وہ ہی سنگھ اور بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کر سکتی ہے تو دیگر جماعتوں سے زیادہ یہ ذمّہ داری بھی کانگریس کی ہی بنتی ہے کہ وہ سنگھ اور بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کا پردہ فاش کرے جس شدّت کے ساتھ سنگھ اور بی جے پی و ا ن کے گماشتے فرقہ وارانہ سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں کانگریس اس شدّت کے ساتھ اس کا جواب نہیں دے پارہی ہے آگے بھی نہیں لگتا کہ کانگریس فرقہ وارانہ ایشوز پر کچھ کھل کرکہہ پائیگی یا مسلما نوں کے دفاع میں آگے آئے گی ایسی صورت میں مسلمان کانگریس کی طرف لوٹ پائیں گے یہ کہنا مشکل ہے، کانگریس کانرم ہندتو کا کارڈ بھی گزشتہ انتخابات میں فیل ہو چکا ہے۔
کانگریس کو بیرونی سطح پر در پیش چیلنجزمیں ایک بڑا چیلنج غیر بی جے پی پارٹیوں سے بھی ہے، دہلی میں کجریوال کی عام آدمی پارٹی، بنگال میں ممتا کی ٹی ایم سی، تلنگانہ میںچندر شیکھر کی بی آر ایس،بہار میں نتیش کمار اور تیجسوی کی جنتا دل یو نائٹیڈ اور راشٹریہ جنتا دل،یوپی میں مایا وتی کی بی ایس پی اور اکھلیش سنگھ یادو کی سماجوادی پارٹی جیسی پارٹیا ں اور ان کے لیڈر۔ قابل ذکر ہے کہ بہار، جھار کھنڈ اور یوپی جیسی 3 ریاستوں میں 134پارلیمانی سیٹیں ہیں جن میں سے 2019کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کو صرف 3سیٹیں ہاتھ لگی تھیں باقی سیٹوں پر این ڈی اے نے ہاتھ صاف کرلیا تھا۔
راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کی اختتامی تقریب میں شرکت کیلئے جن اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کو مکتوبات لکھ کر مدعو کیا تھا ان میں تمل ناڈو کے اسٹالن اور کشمیر کے فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے علاوہ کسی اپوزیشن لیڈر نے شرکت نہیں کی تھی جس سے صاف ظاہر ہے کہ ان پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کو کانگریس کے ساتھ آنے میں کچھ تحفظات ہیں ان میں ممتا بنرجی اور اروند کجریوال اور مایا وتی جیسے 3 بڑے لیڈر خود کو وزیر اعظم کا دعویدار سمجھتے ہیںایسے میں کانگریس کی دال کیسے گل سکتی ہے۔
کانگریس کو داخلی طور پر بھی کچھ کم چیلنج نہیں ہیں مانا کہ کانگریس میں جی- 23کا روگ ختم ہو گیا ہے لیکن ملک کی ہر ریاست میں گروپ بندی کا مرض پایا جاتا ہے حتیٰ کہ ہماچل جیسی ریاست میں جہاں کانگریس کو جمعہ جمعہ 8 دن نہیں ہوئے اقتدار میں آئے وہاں بھی گروپ بندی صاف دکھائی دے رہی ہے،راجستھان میں تو یہ مرض کانگریس کو روزِ اوّل سے ہے۔ وزیر اعلیٰ گہلوت اور سچن پائلٹ میں تلواریں کھنچی ہوئی ہیں۔ بھارت جوڑو یاترا کے دوران کچھ وقت کیلئے صلح ہوئی تھی لیکن جیسے ہی یاترا نے راجستھان سے کوچ کیا اختلافات سامنے آگئے۔ چھتیس گڑھ میں جہاں کانگریس کافی مضبوط بتائی جاتی ہے وہاں بھی دھڑے بندی ہے۔ مدھیہ پر دیش میں دگ وجے سنگھ اور کمل ناتھ کے اپنے اپنے خیمے ہیں ان خیموں نے دوسرے لیڈروں کو ابھر نے ہی نہیں دیا۔ ایسے ماحول میں کانگریس کی راہ آسان نہیں ہے،بھارت جوڑو یاترا نے اس کے راستے سے کچھ کانٹے ہٹائے تو ہیں لیکن سیاسی طور پر اس کیلئے راہ ابھی پُرخار بھی ہے اور پُر خطر بھی۔ صرف ایک بھارت جوڑو یاترا کافی نہیں، اڈانی فیکٹر کا بھی کوئی بڑا فائدہ کانگریس سمیت اپوزیشن جماعتوں کو ہوتا دکھائی نہیں پڑتا جب تک اپوزیشن جماعتیں اس اتحاد کا مظاہرہ نہیں کرتیں جیسا کہ ابھی اڈانی کے فراڈ پر پارلیمنٹ کے اندر دیکھنے کو ملا ہے اس کے بغیر بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کیے جا نے کے آثار ابھی معدوم ہیں، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس کیلئے ابھی دلّی دور ہے۔
[email protected]