شـاہـد زبـیـری
ملک میں ان دنوں ایک کے بعد ایک ایشو منظرِ عام پر آرہے ہیں۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا اپنے آخری پڑائو پر پہنچ چکی ہے اور کانگریس کی ہاتھ سے ہاتھ جوڑو تحریک کا شور سنائی دینے لگا ہے ،ہندو سناتن دھرم کو قومی دھرم قرار دئے جانے کی گھنٹیاں بھی بجنے لگی ہیں اور اب ذات پر مبنی مردم شماری کی سیاست کی گونج بھی تیز ہورہی ہے۔
ذات پر مبنی مردم شماری کا مسئلہ آج کا نہیں ہے۔ آزادی کے فوراً بعد 1951کی پہلی مردم شماری کے وقت سے چلا آرہا ہے کا کا کالیکر کمیشن اور منڈل کمیشن نے بھی اسی کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔اس مسئلہ کو گزشتہ سال بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور راشٹریہ جنتا دل کے قائد تیجسوی یادو نے پھر سے ہوا دی ہے اور اب یوپی میں بھی اس کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔سماجوادی پارٹی کے قائد اور سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے گزشتہ روز بی جے پی کے سابق وزیر کابینہ اور اب سماجوادی پارٹی کے لیڈر سوامی پرساد موریہ کو اس کی کمان سونپی ہے۔ سوامی پرساد موریہ ان دنوں تلسی کی لکھی رام چرت مانس پر دئے گئے متنازع بیان کولے کر سرخیوں میں ہیں۔ ہر چند کہ سوامی پرساد موریہ کے بیان سے سماجوادی پارٹی کے لیڈر پلّہ جھاڑ چکے ہیں ایسے میں سوامی پرساد موریہ کو اکھلیش یادو کی طرف سے ذات پر مبنی مر دم شماری کے ایشو پر بی جے پی کی گھیرا بندی کا ذمہ سونپنا ہے۔ اسی درمیان گومتی ندی کے کنارے ہو نے والے 108کنڈئے مہا یگیہ میں اکھلیش یادو کوبی جے پی اور دوسری ہندو تنظیموں کی طرف سے شرکت سے روکے جا نے سے یہ مسئلہ مزید گرما گیا ہے ۔ اکھلیش یا دو نے اس پر اپنے شدید ردِّ عمل کا اظہار کیا اورکہا کہ بی جے پی پسماندہ طبقات اور دلتوں کو شودرمانتی ہے اور ہم سب کو شودر سمجھتی ہے ،ہم مذہبی مقامات تک جاتے ہیں اور سادھو سنتوں سے ملتے ہیں تو بی جے پی کے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
اکھلیش یادوکی طرف سے ذات پر مبنی مردم شماری کے مسئلہ کو پھر سے چھیڑنے اور بی جے پی پر پسماندہ طبقات اور دلتوں کو شو در ماننے کا الزام اس لحاظ سے بھی سیاسی طور پر کافی اہمیت رکھتا ہے کہ یومِ جمہوریہ پر مودی سرکار نے سماجوادی پارٹی کے بانی اور سابق وزیرِ اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کو پسِ از مرگ’ پدم وبھوشن ‘کے اعزاز سے نوازا ہے ۔اکھلیش یادو اس کے پیچھے کی سیاست کو خوب سمجھتے ہیں۔ ان کو اندیشہ ہے کہ پسماندہ طبقات خاص طور یادو برادری کے ووٹ بینک میں سندھ ماری کیلئے بی جے پی نے یہ چال چلی ہے، بی جے پی جو ملائم سنگھ یادو پر مسلمانوں کی خوشنودی اور چاپلوسی کا الزام لگاتی رہی ہے اور ملّا ملائم کے خطاب سے نواز چکی ہے ،رام مندر پر چڑھائی کرنے والے رام بھگتوں اور کارسیوکوں پر گولی چلوانے والے ملائم سنگھ یادو پر بی جے پی کی یہ نوازش اکھلیش یادو کے ہی نہیں کسی کے بھی گلے نہیں اترتی ۔کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ اس سے لگتا ہے کہ ذات پات کی سیاست کے ہتھیارکو آزمانے کیلئے بی جے پی بھی پر تول رہی ہے۔ بظاہر وہ ابھی تک ذات پر مبنی مردم شماری کرانے سے گریز کرتی رہی ہے اور اعلیٰ ذاتوں کے ساتھ منڈل کے مقابلہ کمنڈل کی سیاست اس کی پہچان رہی ہے لیکن پسِ پردہ بی جے پی ذات پات کا سیاسی کھیل کھیلتی رہی ہے ۔مودی کابینہ کی توسیع میں پسماندہ طبقات کی نمائندگی میں اضافہ ہو یا پسماندہ طبقات کو ایک دوسرے سے ٹکرانے کی حکمت عملی کے تحت بی جے پی یادو کے خلاف غیر یادو پسماندہ برادریوںکو اکساتی رہی ہے اوربی ایس پی کے ووٹ بینک جاٹو برادری کے خلاف غیر جاٹو برادیوں کا لام بند کرنا بی جے پی کا سیاسی مشغلہ رہا ہے۔ مرکزی حکومت سے لے کر صوبائی حکومتوں میں بھی اس نے پسماندہ برادیوں میں شامل طبقات کو جگہ دی ہے۔ نشاد برادری میں اس کی خاص پکڑ مانی جاتی رہی ہے ۔ یوپی کے علاوہ ملک کے دیگر صوبوں کی پسماندہ برادریوں میں بھی بی جے پی کی پہنچ ہے اور اب تو وہ مسلم پسماندہ برادریوں پر بھی ڈورے ڈال رہی ہے اور اشراف اجلاف کی کھائی کو گہرا کرنا چاہتی ہے ، ملائم سنگھ یادو کو’ پدم وبھوشن ‘کے اعزاز سے سرفراز کر نا بھی اس کی سیاسی حکمتِ عملی کا ہی حصّہ ہے وہ اپنی اس چال سے یو پی میں سماجوادی پارٹی کا قافیہ تنگ کرنا چاہتی ہے اور اس کیلئے پریشانی کھڑا کرنا اس کا مقصد ہے جس کو اکھلیش یادو بھی بخو بی سمجھتے ہیں اسلئے انہوں نے ذات پر مبنی مردم شماری کے کارڈ کو کھیلنے کیلئے سوامی پرساد موریہ کو آگے کیا ہے۔
جہاں تلک ذات پر مبنی مردم شماری کرائے جانے کا سوال ہے یہ سوال کوئی نیا نہیں ہے۔ ہندوستان میں ذات پر مبنی مردم شماری کی تاریخ بتاتی ہے کہ 1872میں پہلی مردم شماری ایسی تھی جو ذات پر مبنی تھی آخری مرتبہ ذات پر مبنی مردم شماری 1931میں کرائی گئی تھی اگلی مردم شماری 1941کو ہو نا تھی لیکن عالمی جنگ چھڑ جا نے کی وجہ سے مردم شماری ہی نہیں کرائی جا سکی تھی۔ 1951میں آزادی کے بعد جب یہ مسئلہ سامنے آیا تو 1953میں پہلا او بی سی کمیشن تشکیل دیا گیا اور کاکا کالیکر کو اس کا چیئرمین بنا یا گیا۔کمیشن نے 1955میںاپنی رپورٹ پیش کی رپورٹ میں 2,399 پسماندہ طبقات کو شامل کیا جن میں 837کو انتہائی پسماندہ مانا گیا ۔ پسماندگی کا سبب ذات پات کے نظام کو بتا یا گیا تھا اور سماجی اور تعلیمی پسماندگی کی زمرہ بندی کی گئی لیکن اس وقت کی کانگریس سرکار نے اس رپورٹ کو خارج کردیا تھااور اس وقت کی قیادت نے جس میں سیکولر کہی جانے والی برہمن لابی کے ساتھ ہندو مہاسبھا نے بھی اس کی شدت سے مخالفت کی تھی اور سنگھ پریوار بھی اس کے حق میں نہیں تھا وجہ صاف تھی کہ اس سے ہندوسماج کا تانا بانا کمزور ہونے کا ڈر تھا اور اقتدار میں حصّہ داری کا سوال اٹھنے کا خوف بھی اور وسائل کے ‘کیک ‘ میں شراکت کا ڈر بھی، ا سی لئے ماضی میں کانگریس اور جن سنگھ اور اب بی جے پی دونوں اس سوال سے گریز کرتی رہی ہیں اس معاملہ میں دونوں کا یکساں رویہ رہا ہے۔ 1977میں جب جنتا دل کی سرکار مرکز میں قائم ہوئی تو وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی نے 1979میں منڈل کمیشن بنا یاجس کے چیئر مین بنیشوری پرساد منڈل کو بنا یا گیا اورکمیشن کا نام ہی منڈل کمیشن پڑ گیا ۔اس کو SEBC)) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اس کا مقصد سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ سماجی طبقات کی شناخت کرنے کے علاوہ اس کی ترقی اورقومی وسائل میں حصہ داری کے سوال کو حل کر نا تھا 1980میں منڈل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقات کی آبادی 52فیصد بتا ئی ہے ان طبقات کی ترقی کیلئے منڈل کمیشن نے سرکاری ملازمتوں میں 27 فیصدریزرویشن دئے جانے کی سفارش کی تھی لیکن اس وقت کی سرکار نے اس رپورٹ کو سرد بستہ میں ڈال دیا تھا۔ وی پی سنگھ کی سرکار بنی تو اس نے 1990میں ان سفارشات کو نافذ کیا تو اعلیٰ ذاتیں اور ہندتوکے نظریہ پر یقین رکھنے والے سڑکوں پر اتر آئے اور ملک بھر میں جو کچھ وبال ہوا وہ سب کو معلوم ہے ۔
سچ یہ ہے کہ ہندوستان کے سماجی نظام میں ذات پات کی جڑیں بہت گہری اور اندر تک ہیں ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد بھی یہ مسئلہ ختم نہیں ہوا بلکہ اسلام کو ماننے والے بھی ذات پات کے نظام سے چھٹکارہ نہیں پا سکے۔ ہر چند کے اسلامی تعلیمات اس کی نفی کرتی ہیں لیکن مسلم معاشرہ میں اس کی جڑیں اتنی ہی گہری ہیں جتنی ہندو سماج میں ہیںاس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ،ہندو سماج میں ذات پات کے نظام پر تو ہندو دھرم کی مہر بھی ثبت ہے۔ اسی لئے ذات برادری کو لے کر اس ملک میں سیاست ہوتی رہی ہے ، پسماندہ سماج ا ور دلت سماج کی اقتدار میں حصّہ داری اورسرکاری ملازمتوں اور قومی وسائل کی شراکت کا سوال اہم رہا ہے۔ اسی کے ساتھ دھرم اور مذہب کے نام پر پسماندہ ،انتہائی پسماندہ طبقات اور دلتوں کا استحصال بھی ایک مسئلہ ہے اس تناظر میں اگر دیکھیں تو ذات پر مبنی مردم شماری کا ایشو کافی اہم ہے۔ اب اس ایشو کو 2024کے انتخابات میں کون کتنا بھنا پاتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔
qqq