گل گلشن
“سنو ایسا کب تک چلےگا۔آپ دن بہ دن مصروف ہوتے جا رہے ہیں۔نہ آپ مجھ پر اور نہ ہی بچوں پر دھیان دیتے ہیں۔ٹھیک ہے مصروفیت ہے لیکن ہمیں بھی تو آپ کی ضرورت ہے۔” راشدہ نے سہیل کو سمجھاتے ہوئے کہا۔لیکن سہیل کو جیسے یہ بات سن کر آگ ہی لگ گئی۔وہ نہایت غصے کے عالم میں چیختا ہوا بولا۔”تو یہ جو تم لوگ بیٹھ کر کھاتے ہو یہ پیسے پیڑ پر اگتے ہیں۔کمانے پڑتے ہیں۔تم کیا کرتے ہو سوائےخرچہ بتانے کے کوئی کام ہے تمہیں ؟ آج کے بعد مجھے سمجھانے کی کوشش مت کرنا۔جیسا چل رہا ہے چلاؤ نہیں تو جاؤ۔”راشدہ سہیل کو دیکھتے رہ گئی۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ایسا اس نے کیا کہہ دیا کہ سہیل کو اتنا غصہ آ گیا۔پھر بھی اس نے خود پر قابو پا کر تحمل سے کہا۔”کیا صرف دو وقت کا کھانا اور چند کپڑے ہی انسان کی ضرورت ہوتے ہیں اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔یہ سب تو بنیادی ضرورتیں ہیں۔یہ تو ہر مرد کا فرض ہے۔لیکن آپ کا وقت بھی اتنا ہی ضروری ہے۔جتنی یہ سب ضروریات اہم ہیں۔آپ کا جو فری وقت ہوتا ہے اس میں یا تو آپ دوستوں کے ساتھ چلے جاتے ہیں یا تو پھر موبائل میں مصروف رہتے ہیں۔ہماری تو جیسے کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔بے شک آپ بھی تھوڑی تفریح چاہتے ہیں۔لیکن ہم بھی تو آپ ہی کا حصّہ ہیں۔” راشدہ کی آنکھ بھر آئی۔اس نے کروٹ بدل کر سہیل کو دیکھا تو وہ سو چکا تھا۔راشدہ کی آنکھ سے آنسوبہہ رہے تھے اور وہ بس یہی سوچ رہی تھی کہ میں کہاں غلط ہوں اگر مرد بچوں کے لئے دن بھر محنت کرتا ہے تو عورت تو 24 گھنٹے اپنے پریوار کے لئے کھڑی رہتی ہے۔نہ اس کی کوئی تفریح ہوتی ہے نہ ہی کوئی آف ملتا ہے۔پھر اگر ایسے میں وہ اپنے مجازی خدا سے جذباتی طور پر سہارا چاہتی ہے تو کیا غلط ہے۔لیکن آج ہر رشتہ صرف نام کے لئے باقی رہ گیا۔بس رشتے نبھانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جہاں آپ سے کوئی غلطی ہو جائے معافی مانگ لیں ۔ پرانے قصے کہانیاں بھول جائیں۔
جو بھی ہوا جس نے جو کیا ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ معافی مانگنا اور معاف کرنا بھی تب ہی بنتا ہے جب آپ کو لگے کہ رشتوں میں گنجائش بچی ہے ۔ بعض اوقات ہم لوگوں کو معاف بھی کردیتے ہیں لیکن ان کا تو موڈ ٹھیک ہوتا ہے ہم سے بلکہ ہم دوبارہ پھر سے خود ہی پچھتا رہے ہوتے ہیں کہ پتا نہیں کیوں میں نے پھر سے رجوع کیا اس کی طرف،ایسے رشتے جو بار بار آپ کو ہرٹ کریں اور جن باتوں سے آپکی عزت نفس مجروح ہو وہی بار بار کی جائیں۔یہ انسان کو اندر سے توڑ دیتی ہیں۔ سن تو سب ہی لیتے ہیں اپنے خلاف کی گئی باتیں اور سننی پڑتی ہیں ۔ پر بار بار خود کو کنویں میں پھینکنا بھی تو جاہلیت ہے۔
یقین کریں خود کو دور کردینا ایسے لوگوں سے بہت سکون کا موجب بنتا ہےاور بعض رشتے ہمارے پاؤں کی زنجیر ہوتے ہیں۔ انھیں توڑا یا ختم نہیں کیا جا سکتااور نہ ہی دوری اختیار کی جا سکتی ہے لیکن جذباتی طور پر ان سے ددوری بنانے سے دلی سکون حاصل ہوتا ہے اور ذہنی سکون بھی روز روز کی ٹینشن سے آپ باہر نکل آتے ہیں ورنہ آپ کی خود کی امیدیں جو آپ نے دوسروں سے لگائی ہوتی ہیں وہ آپ ہی کو توڑ دیتی ہیں۔ ایک دفعہ اگر انسان کو ٹھوکر لگے تو اسے محتاط ہو جانا چاہیے کچھ لوگ بار بار خود لوگوں کو موقع دیتے ہیں اور اپنی عزت نفس مجروح کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور یہ بہت غلط ہے اس سے آپ اپنے ساتھ بہت بڑا ظلم کرتے ہیں۔اس سے انسان خود ہی پریشان ہوتا ہے۔
اگر رہنا ہی ہے ایسے لوگوں کے ساتھ تو ان کو بدلنے کی کوشش نہ کرکے خود پر توجہ دیں اور خود کو بدلیں۔ ان سے کنارہ کشی اختیار کریں اور ان کے بار بار منہ لگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ پھر قصوروار اگلا نہیں آپ خود ہوتے ہیں جو خود آگ کو ہوا دینے کا کام سر انجام دے رہے ہوتے ہیں ۔
فاصلہ بہتر ہوتا ہے بعض اوقات جب حالات اس قدر سنگین ہو جائیں کہ بات چیت کر کہ بھی معاملہ حل نا ہو تو۔
لوگ ایسے تو نہیں دور ہو جاتے نا۔
خود کو وقت دیں ۔ہر چیز کو ایک طرف رکھ کر خود اپنے بارے میں دو منٹ سوچیں۔
کہاں ہم نے خود اپنی ذات کے ساتھ حق تلفی کی ۔کیونکہ ایک جنون میں آیا ہوا شخص تو کبھی پرسکون ہوکر نا تو بات کرے گا اور نا ہی سنے گا۔وہ دوسروں کے متعلق کیا وہ تو خود اپنی ذات کے بارے میں بھی کوئی بہتر فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔سو خود اپنی عزت نفس کی حفاظت کریں ،ایگو کچھ اور ہوتی ہے اور عزت نفس کچھ اور۔ایگو کو ختم کریں اور اپنی عزت نفس پالیں۔راشدہ جیسے خود ہی کسی فیصلے پر پہنچ کر پرسکون ہو گئی۔اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور تہجد کی نماز ادا کرنے کے لئے اٹھ گئی۔
افسانہ : عزت نفس
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS