اودھیش کمار
سیمارِند کے ہندوستان آنے کے بعد پاکستان میں ہندوؤں کے اغوااور مندروں پر حملے کے واقعات نے وہاں کی اقلیتوں میں نئے سرے سے خوف پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے ہندوستان کے لوگوں میں غم وغصہ ہے۔مذکورہ معا ملے میںپاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی کہا ہے کہ ہندو فرقہ کے 30لوگوں کو یرغمال بنایا گیا ہے اور ہندو مندروں میں توڑپھوڑ و حملہ کے واقعات بھی ہورہے ہیں۔ یہ سب سندھ کے ڈاکوؤں نے سیما کی واپسی کے مطالبہ پرکیا تھا۔ کہا جارہا ہے کہ ان ڈاکوؤں نے سندھ کے دو اضلاع کاشمور اور گھوٹکی سے 30ہندوؤں کو اغوا کیا تھا جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ سندھ کے ڈاکو عمرشاہ نے مندر کو نشان زد کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ بکشاپور کاشمور کے حصوں میں بھی مندروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اسی کے بعد سے ہندوؤں نے مندر جانا بند کردیا تھا۔
دیکھ لیجیے، کراچی شہر کے سولجربازار علاقہ میں 150سال پرانے ماری ماتا مندر کو بلڈوزر چلاکر توڑ ڈالا گیا۔جس پر کراچی کے شری پنچ مکھی ہنومان مندر کے مہاراج رام ناتھ مشرانے اپناردعمل ظاہرکر تے ہوئے پورے حقائق کو سامنے رکھا تھا۔ان کا بیان آج بھی پاکستانی میڈیا میں ہے کہ ماری ماتا مندر شہر کی پرائم لوکیشن یعنی اہم مقام پر تھا۔ اس لیے زمین مافیا نے زمین پرقبضہ کرنے کے لیے پولیس سے سازباز کرکے سیما کے ہندوستان جانے کے معاملہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مندر توڑ دیا۔ اس کے ایک دن بعد صوبہ سندھ کے کاشمور میں واقع مندر پر راکٹ لانچر سے حملہ کیا گیا۔ اتفاق سے راکٹ لانچر پھٹ نہیں پایا اور وہاں لوگ محفوظ رہے۔ مندر کے آس پاس رہ رہے ہندو فرقہ کے لوگوں کے گھروں پر تابڑتوڑ فائرنگ بھی کی گئی۔ آپ کو بتادیںیہ مندر باگڑی برادری کا ہے۔
واضح رہے کہ دھمکی دینے والوں کا ارادہ پہلے سے واضح تھا۔ عام نتیجہ یہی اخذ ہوگا کہ اگر سیما بھاگ کر ہندوستان نہیں آتی تو اس طرح کے واقعات نہیں ہوتے، لیکن پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہورہے سلوک کو بنیاد بنائیں تو یہ نتیجہ بالکل غلط لگے گا۔ سچ یہ ہے کہ ہندوؤں اور مندروں پر حملہ کے لیے سیما حیدر کو بہانہ بنایا گیا ہے۔ عام طور پر وہاں کے ہندو اسے شدت پسندوں کی کارروائی سمجھتے ہیں جو کسی بھی مسلم خاتون کے ہندو بننے یا ہندو لڑکے سے شادی کرنے کو اسلام مخالف رویہ مانتے ہیں، لیکن ایسے واقعات کا وہاں عوامی احتجاج نہیں ہوتا تو کہنا ہوگا کہ یہ پاکستان کی قومی پالیسی ہے۔ کیا جب سیما رِند ہندوستان نہیں آئی تھی تو وہاں ہندو لڑکیاں بچیں اور مندر محفوظ تھے؟
کیا پاکستانی انتظامیہ کو معلوم نہیں کہ گھوٹکی اور کاشمور نابالغ ہندو لڑکیوں کے جبراً تبدیلیٔ مذہب کے لیے بدنام ہیں؟ بھرچنڈی شرائن کا عبدالحق عرف میاں مٹھو ہندو لڑکیوں کا اغوا کرکے انہیں مسلم بنانے اور نکاح کرانے کی مہم چلاتا رہتا ہے۔ برطانوی حکومت نے 2022میں اسے ممنوعہ افراد کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ پاکستان میں 40لاکھ ہندو ہیں جن میں سے 80فیصد سندھ میں رہتے ہیں۔ ظاہر ہے دھمکیوں کو دیکھتے ہوئے ان کے تحفظ کا انتظام کیا جانا چاہیے تھا۔ پاکستانی میڈیا میں بھی ایسی کوئی خبر نہیں جس میں ہندو مقامات اور ہندوؤں کے تحفظ کا خصوصی انتظام کیا گیا ہو۔
اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ 2019میں آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ نے ایک سروے رپورٹ پیش کی تھی۔ اس کے مطابق تقسیم کے وقت پاکستان میں تقریباً 428مندروں کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی تھی۔ آہستہ آہستہ ان مندروں کو قبضہ میں لے کر توڑ کر دکان، ریستوراں، ہوٹل، دفاتر، سرکاری اسکول اور مدارس وغیرہ کھول دیے گئے۔ کچھ مندروں کی بلڈنگ توڑکر بیت الخلا میں بدل دیا گیا۔ حقیقتاً تقسیم کے بعد حکومت پاکستان نے ای وی کیو ای پراپرٹی ٹرسٹ بورڈ کا قیام کیا تھا۔ ان میں سے غیر مسلم اقلیتوں کو پوجاکر نے کے لیے مختلف مقامات پر تقریباً 1.35لاکھ ایکڑ زمین پٹّے پر دی گئی تھی۔ اس ٹرسٹ نے آہستہ آہستہ سارے مندروں کی زمین پر قبضہ کرلیا۔ سروے رپورٹ کے بعد عمران خان حکومت نے 400مندروں کو کھولنے کا اعلان کیاتھا۔ یہی نہیں جن مندورں کی حالت بہت خراب تھی یا جو استعمال کے لائق نہیں تھے ان کی سرکاری فنڈ سے مرمت کرنے کا بھی اعلان کیا گیاتھا۔ تب سیالکوٹ میں 1000سال سے بھی زیادہ پرانہ شیوالہ تیج مندر کھولا گیا تھا۔ اسلام آباد میں ایک مندر بنانے کا اعلان ہوا اور اس کی شروعات بھی ہوئی،مگر اس کی بھی سخت مخالفت ہونے لگی۔ حقیقت میں عمران حکومت کا اعلان آگے نہیں بڑھ سکا اور بڑھ بھی نہیں سکتا تھا۔ عمران کے اس اعلان کی پورے پاکستان کے بڑے گروپ نے مخالفت کرنی شروع کردی تھی۔اتنا ہی نہیں بلکہ دہشت گرد گروپوں نے بھی حکومت کو انتباہ دیاتھا۔ ویسے بھی کئی مقامات پر مندر کے باقیات تک تباہ کردیے گئے۔ ہوٹل، دکان، مدارس، مال کے ساتھ ساتھ کئی مقامات پر تو بیت الخلا کی تعمیر بھی ایسی جگہ کی گئی ہے کہ اس کے اردگردمندر ہو اور آسانی سے مندر کا پتا لگانا مشکل ہو۔ پاکستان کا عام ماحول یہی ہے کہ اسلام کے علاوہ وہاں دیگر مذاہب کے لوگوں اور مذہبی مقامات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
گزشتہ وقت سے ہم مندروں پر حملہ کی خبریں سن رہے ہیں۔ ہر سال ہندوؤں کے مذہب تبدیل کرنے کے متعدد معاملے سامنے آتے ہیں جسے پاکستان کا حقوق انسانی کمیشن بھی وقت وقت پر قبول کرتا ہے۔ حقیقت میں پاکستان میں غیرمسلم یعنی ہندو-عیسائی لڑکیوں کے اغوا، تبدیلیٔ مذہب اور اس کے بعد اس کے مسلمان سے نکاح اب ایسے واقعات نہیں ہوتے جس سے وہاں بڑی خبر بناکر میڈیا پیش کرے یعنی اسے عام واقعہ سمجھ لیاجاتا ہے۔یونائٹیڈاسٹیٹس کمیشن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار سے زیادہ لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ تقسیم کے بعدسے آج کے پاکستان یا مغربی پاکستان میں ہندوؤں کی تعداد 15فیصد تھی جو اس وقت 1.6فیصد کے آس پاس ہے۔ کہا گئے سارے ہندو؟ سیما رِند کے کراچی میں واقع کرایہ کے گھر تک کی تصویریں گلیوں سے لے کر اس کے شناختی کارڈ کو میڈیا نے سامنے لادیا ہے۔ شوہر بھی دبئی سے سامنے آگیا ہے۔ اس لیے اس کے پاکستانی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اترپردیش انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے جانچ شروع کی ہے اور مرکزی ایجنسیوں کا تعاون مل رہا ہے تو امید کرنی چاہیے کہ سچ سامنے آجائے گا۔ اس سے بڑا ایشو پاکستان میں سیما رِند کے ہندوستان آنے کو بنیاد بناکر ہندوؤں کے اغوا، مندروں پر حملے اور دیگر پرتشدد کارروائیاں ہیں۔ اس لیے پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے خلاف کارروائی کرے۔ واقعات بتارہے ہیں کہ کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ جب کہ یہ بھی خبر ہے کہ پولیس کے تعاون سے مذکورہ مندر کو بلڈوزر سے توڑا گیا ہے تو وہاں امید کس سے کی جاسکتی ہے؟ پاکستان کی یہ تصویر پہلے سے ہی ہے۔ واضح ہے کہ پوری دنیا کو ہندوؤں کے خلاف تشدد، مذہبی مقامات کو توڑنے، جبراً مذہب تبدیل کرنے کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔
rvr