ہندوستان میں اپنے سامراجی اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے انگریزوں نے انسانی حقوق، مساوات اور دیگر تمام اخلاقی اورقانونی معیارات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے قاعدے قانون وضع کئے تھے اور ہتھکنڈے اپناتے تھے جو ان کے استبداد واقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے لازمی تھے۔ آج ہندستان میں ایسے ہی قوانین قانون ساز اداروں کے ذریعہ استعمال کئے جارہے ہیں جو ایک مہذب سماج میں مناسب نہیں ہے۔ لارڈ میکالے کے ذریعہ بنائے گئے بغاوت قانون کو برقرار رکھنے کے لئے حال ہی میں حکومت کی رائے سامنے آئی ہے جس پر ماہرین قانون سماجی رضاکاراور سیاستدانوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ حکومت نے کچھ ترمیمات کے ساتھ اس قانون کو برقراررکھنے کے لئے وکالت کی ہے۔ لاء کمیشن کے ذریعہ حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ اس قانون کو برقرار رکھنا ضروری ہے اور اگر یہ قانون ختم کیا گیا تو اس سے ملک کی سیکورٹی اور سالمیت کو خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ خیال رہے کہ تقریباً ایک سال قبل سپریم کورٹ نے ایک رولنگ دی تھی جس میں اس قانون کو برقرار نہ رکھنے کی بابت نظرثانی کی بات کہی گئی تھی۔
خیال رہے کہ مرکزی حکومت انگریزوں کے زمانے کے ضابطے اور قوانین کو ختم کرنے اور ان اصولوں کو نئے تناظر میں پرکھنے اور نظرثانی کرنے کی حامی رہی ہے۔ وزیراعظم اکثر سامراجی دور کے قاعدے قانون کو درکنار کرنے کی بات کرتے ہیں مگر اس بارے میں مرکزی حکومت کا موقف اور وہ بھی لاء کمیشن کی سفارش کے طورپر سامنے آنا مایوس کرنے والا ہے۔ جولائی 2021میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے پوچھا تھا کہ برطانیہ کی انتظامیہ نے مہاتماگاندھی اور بال گنگادھرتلک جیسے مجاہدین آزادی کو خاموش کرنے کے لئے بنائے گئے قانون کو ختم کرنے پر غور کیوںنہیں کر رہی۔ آئی پی سی کی دفعہ 124Aکے تحت بغاوت قانون اکثر سیاسی مخالفوں کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مگر گزشتہ دنوں میں اس قانون کا استعمال صحافیوں، رضاکاروںاور اسی طرح کی مخالف آوازوںکو دبانے کے لئے اورحکومت مخالف ردعمل کو کچلنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ لاء کمیشن کی یہ سفارش سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلوں اور آبزرویشن کے باوجود آنا ماہرین قانون کے لئے ناراضگی اورعدم اطمینان کا سبب رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے اس قانون پر مرکز کے حالیہ فیصلے پر ردعمل ظاہرکرتے ہوئے اسے غیرمناسب اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے منافی قرار دیا ہے۔ ہندوستان میں سیکورٹی اور نظم ونسق کو برقراررکھنے کے لئے کئی قوا نین پہلے ہی استعمال ہورہے ہیں ان میں نیشنل سیکورٹی ایکٹ اور غیرقانونی سرگرمیاں (انسداد) یواے پی اے قانون بھی استعمال ہورہا ہے۔ پچھلے دنوں مرکزی سرکار نے یواے پی اے میں کافی ترمیمات کرکے اس قانون کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ سخت بنا دیا تھا۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اتنے سخت قانون ہونے کے باوجود بغاوت کے قانون کو برقرار رکھنا غیرمناسب بات ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے قانون کا استعمال ہندوستان کے جمہوری اقدار کے خلاف ہے اس سے اظہار خیال کی آزادی پر قدغن لگتی ہے اور کسی بھی ملک میں ایک حکومت مخالف اور جمہوری آواز کا برقراررہنا دیرینہ جمہوری اقدار کے لئے لازمی ہے۔ ہندوستا ن میں اس قانون کو سیاسی وجود کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔
نیشنل کرائم بیورو (این سی آر بی) نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2014سے 2021کے درمیان ہندوستان میں بغاوت کا قانون سب سے زیادہ آسام میں استعمال ہوا ہے۔ این سی آر بی کے اعدادوشمار کے مطابق اس مدت میں 475معاملات میں بغاوت کا قانون استعمال ہوا ہے۔ جن میں 69معاملات اکیلے آسام میں درج کئے گئے ہیں۔ یہ ملک بھر میں درج کئے گئے بغاوت کے قانون کے تحت معاملات کی کل تعداد کا 14.50فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا نمبر ہریانہ کا آتا ہے جہاں پر بغاوت کے قانون کے تحت 42 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد جھارکھنڈ میں 40اورکرناٹک میں 38، آندھرا پردیش میں 32ا ورجموں وکشمیر میں 29معاملات درج کئے گئے ہیں۔ مذکورہ بالا 6ریاستوںمیں مجموعی طورپر 250بغاوت قانون کے تحت مقدمات درج ہوئے ہیں جوکہ مجموعی تعداد کا آدھے سے زیادہ حصہ ہے۔ یہ اعداد وشمار گزشتہ 8سال کے ہیں۔ این سی آر بی کے مطابق بغاوت کے قانون کے تحت ملک بھر میں 2021 میں کل رجسٹرڈ معاملات 76تھے جبکہ 2020میں کل رجسٹرڈ معاملات کی تعداد محض 73تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں ایک بھی بغاوت کا کیس درج نہیں ہوا۔ ان میں میگھالیہ، میزورم، انڈومان نیکوبار، چنڈی گرھ، دادر و نگرحویلی اور دمن دیو کے علاوہ پوڈیچری بھی شامل ہے۔
کیا ہے بغاوت کاقانون
بغاوت کا قانون سب سے پہلے برطانیہ میں 17ویں صدی میں بنایا گیا تھا۔ اس وقت کے قانون بنانے والوں کا نظریہ تھا کہ صرف اچھی بات یہ ہے کہ حکومت وقت (شاہی خاندان) کو ہرحال میں برقرار رہناچاہئے
بنیادی طورپر یہ قانون 1837 میں سیاستداں اور تاریخ داں ٹامس میکالے نے وضع کیا تھا۔
ہندوستان میں 1860 میں جب تعزیرات ہند کی دفعہ وضع کی گئی تھی اس قانون کو رد کردیا گیا تھا مگربغاوت کا قانون بعد میں 1870 میں جیمس اسٹیفن نے دفعہ124A کوآئی پی سی میں شامل کردیا تھا۔
بغاوت قانون کو دفعہ 124Aکے تحت شامل کرلیا گیا۔
آج کا سڈیشن قانون (Sedetion Law)کیا ہے۔
اس قانون کے تحت بغاوت قانون کی تشریح کچھ اس طرح کی گئی ہے۔ بغاوت وہ جرم ہے جب کوئی شخص الفاظ، بول کریا لکھ کر اشاروں سے ظاہری انداز سے یا کسی دوسرے طریقہ سے قانون کے ذریعہ معرض وجود میں آئی حکومت کے خلاف بے اطمینانی ظاہرکرتا ہے۔ بے اطمینانی کو بھڑکاتا ہے، نفرت پیدا کرتا ہے، مذ مت کرتا ہے۔
بے اطمینانی میں نافرمانی اور ہرقسم کی دشمنی کے جذبات شامل ہیں۔ مگر وہ تبصرے جن میں جذبات نہ ہو، جذبات برانگیختہ کرنے کی کوشش نہ ہو، مذمت اور بے اطمینانی کو بغاوت قانون میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
بغاوت قانون کی سزا
بغاوت قانون ایک ناقابل سزاجرم ہے۔ آئی پی سی کی دفعہ124A کے تحت مجرم کو تین سال سے لے کر عمرقید تک کی سزا ہوسکتی ہے۔ سزا کے ساتھ جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔
اس قانون کے تحت قرارپانے والے مجرم کو سرکاری ملازمت نہیں دی جائے گی۔ مجرم کو بغیرپاسپورٹ رہنا ہوگا (تاکہ ملزم غیرملک میں فرار نہ ہوسکے) اور جب بھی ضروری ہوگا عدالت کے سامنے پیش ہونا ہوگا۔
سپریم کورٹ میں بغاوت قانون کے خلاف عرضی داخل کرنے والے میجر جرنل ریٹائرڈ ایس جی اومبیتکرے اور ایڈیٹرگلڈس آف انڈیا نے کہا تھا کہ اس قانون کا استعمال جس طریقے سے ہورہا ہے اس سے اظہار خیال کی آزادی متاثر ہورہی ہے۔ انہوںنے کہا تھا کہ یہ ہندوستانی کی آئینی بنیادی حقوق ہیں۔ مرکز نے جولائی 2021میں اس بابت نوٹس جاری کیا تھا اور مرکزی حکومت سے پوچھا تھا کہ آئی پی سی کی دفعہ 124Aکے تحت قانون کے متعلق اس کی کیا رائے ہے۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے اپریل 2022 کو فیصلہ کی سماعت 5؍مئی کو کرنے کا فیصلہ دیا تھا اتنی طویل تاریخ دینے کا مقصد ہی اس حساس قانونی التزام پر مرکز کو سوچ سمجھ کر موقف ظاہر کرنے کا موقع دینا تھا۔ بہرکیف 5؍مئی کی سماعت کے دوران لاء کمیشن نے سفارش کی کہ بغاوتی قانون جوکہ 130سال پرانا ہے اور جس میں بغاوت کی کھل کرتشریح کی گئی ہے بغاوت کے معاملے میں سزا کا التزام اس میں رکھا گیا ہے۔ اس کو نہ صرف یہ کہ برقراررکھنا چاہئے بلکہ اس میں سزا کواور بڑھاکر اس قانون کو اور سخت بنایا جانا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ اس قانون کو بالکل ختم کئے جانے کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی اور اس دوران حکومت کے اس موقف کے سامنے آنے سے کئی حلقوںمیں شدیدتعجب کا اظہارکیا گیا۔ لاء کمیشن کی رپورٹ میں جوکہ 88صفحات پر مشتمل ہے کہا ہے کہ اظہارخیال کی آزادی (Freedom of Expression) پر معقول پابندیاں ضروری ہیں اوراس قانون کا برقرار رہنا ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لئے ضروری ہے۔ اس سلسلے میں لاء کمیشن نے مائووادی انتہاپسندی، دہشت گردی، علیحدگی پسندی کی تحریکیں اورشمال مشرقی علاقوں میں نسل پرستانہ تشدد کو کنٹرول کرنے کے لئے لازمی قرار دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاء کمیشن نے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کو بھی نقل کرتے ہوئے ان کا یہ بیان نقل کیا ہے جس میں انہوں نے نہ دکھائی دینے والا دشمن اورایسی سول سوسائٹی جوکہ قوم کے مفادات، تحفظ اور استحکام کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے،کو کنٹرول کرنے کے لئے یہ قانون لازمی ہے۔ اس سفارش میں جس طریقے سے سول سوسائٹی کو ملک (ریاست) کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تھی اس سے کئی سنگین سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ ٭٭