آئین کی تمہید میں شامل سیکولرازم اور سوشلزم پر پھر سوال اٹھا : ڈاکٹر سیّد احمد قادری

0

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہمارے ملک کا آئین ملک کے اتحاد ، یکجہتی اور سا لمیت کی بنیاد پر قائم ہے ۔ اس لئے آئین ہند کے دیباچہ سے سیکولرازم اور سوشلزم جیسے اہم اور مؤثر الفاظ کو خارج کئے جانے کا مطالبہ کرنے والوں کی ذہنیت اور منشا پر سوال اٹھنا لازم ہے ۔ملک کے آئین کی تمہید میں شامل سیکولرازم اور سوشلسٹ جیسے ان دو الفاظ کو متعصب ذہنیت اور فرقہ پرستوں کے ذریعہ خارج کئے جانے کا اکثر مطالبہ ہوتا رہتا ہے ۔ آر ایس ایس کے دتاتریہ ہوسبولے نے ایک بار پھر اس بحث کو چھیڑ تے ہوئے دستور ہند کی تمہید میں شامل ان دونوں اہم الفاظ کو سناتن کی روح کی توہین کہتے ہوئے ان کی شمولیت پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے ۔اس مطالبہ کے سامنے آتے ہی مرکزی وزیر زراعت شیو راج چوہان ، آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما وغیرہ نے آوا زمیں آواز ملانا ضروری سمجھا۔ ان لیڈران اور آر ایس ایس کے لیڈر دتاتریہ ہوسبولے کی ذہنیت کا انداہ تو ہوتا ہے۔لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ملک کا نائب صدر جمہور یہ ہند شری جگدیپ دھن کھڑ ، جن کی بنیادی ذمّہ داری آئین کی حفاظت ہے ، وہی دستور ہند میں شامل ان دوالفاظ کو ناسور قرار دے رہے ہیں ۔ جب کہ انھیں اس بات کا علم بھی ضرور ہوگا کہ عدالت عظمیٰ آئین کی 42 ویں ترمیم کو من وعن تسلیم کر چکی ہے ۔ جسے پارلیمنٹ کی بھی منظوری حاصل ہے ۔

افسوس ہوتا ہے جب ملک کی سا لمیت اور یکجہتی ، اتحاد و اتفاق پر آئے دن حملے ہوتے ہیں ۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا ملک صدیوں سے سیکولر ملک رہا ہے۔ ملک میں جب بادشاہت کا دور تھا ، یعنی مسلمانوں کی اولین حکومت محمد بن قاسم سے لے کر مغلوں کی حکومت اور پھر کمپنی بہادر اور برٹش حکومت تک نے کبھی بھی ا پنے مذہب کو اپنی حکومت کی بنیاد نہیں بنایا ۔ اس لئے کہ صدیوں سے یہ تصور رہا ہے کہ جن ممالک میں بھی مخلوط آبادی ہو، مختلف مذاہب کے ماننے والے ہوں ،وہاں اگر کامیاب حکمرانی کرنی ہے تو حکومت کو مذہب سے نہیں جوڑا جائے ۔ بھارت کے مسلم حکمرانوں کا تعلق اسلام مذہب سے ضرور رہا ، لیکن حکومت کی پالیسی ہمیشہ سیکولر رہی اور صدیوں تک برسر اقتدار رہنے والے مسلم حکمرانوں نے کبھی بھی اپنے مذہب اسلام کی ،حکومت پر تبلیغ کا زور نہیں دیا ۔ مسلمانوں سے حکومت چھیننے اور قبضہ جمانے والے انگریزوں نے بھی اپنے عیسائی مذہب کو اس ملک پر مسلط کرنے کی دانستہ کوشش نہیںکی۔ ہاں چند ر گپت موریہ نے ضرور اپنے دور حکومت میں اپنے جین مذہب کو حکومت کا مذہب قرار دیا تھا اور دوسرے راجہ اشوک کا نام آتا ہے کہ اس نے بودھ مذہب کو حکومت کا مذہب نہ صرف تسلیم کیا تھا، بلکہ اپنے بھائی مہندر کو پورے ملک میں حکومت کے خرچے پربودھ مذہب کی تبلیغ کے لئے مامور کیا تھا ۔ان دو مثالوں کے علاوہ تیسری کوئی مثال اس ملک میں ایسی نہیں ملتی ہے ۔

یہی وجہ رہی ہے کہ ہمارے ملک بھارت کا صدیوں سے سیکولر مزاج رہا ہے ۔ ہمارے ملک کو جب انگریزوں کی غلامی سے آزادی ملی ، تب بھی آئین سازوں نے اس ملک کو کسی بھی حکومت کا مذہب نہیں بنایا ، بلکہ آئین میں لفظ سیکولر یا سیکولرازم کی شمولیت کو بھی ضروری نہیں سمجھا گیا اور آئین کے شق 15.1 میں بہت ہی واضح طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ ’’ The state shall not discriminate against any citizen on grounds only of religion, race, cast, sex, place of birth or any of them ” ـ ۔ آئین کے اس رو سے ملک کے اندر مذہب ، ذات، صنف(سیکس)، جائے پیدائش کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی تفریق نہیں کی جائے گی ۔ برسہا برس تک آئین کے اس رو پر عمل بھی کیا جاتا رہا۔ لیکن آزادی کے کچھ عرصہ بعد یہ محسوس کیا جانے لگا کہ ملک کے اندر فرقہ پرست عناصر سر ابھار رہے ہیں اور ملک کے سیکولر کردار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ، ایسے حالات میں یہ ضروری سمجھا گیا کہ ملک کے آئین میں لفط سیکولر کی شمولیت ہو۔ چنانچہ 1976 میں وزیر اعظم وقت اندرا گاندھی کی سربراہی میں آئین کی تمہید میں 42ویں ’’سیکولرازم کے تحت لفظ شامل کیا گیا۔
دراصل سیکولرازم اور سیکولر کو مذہبی رواداری کی حد تک محدود نہیں کیا جانا چاہئے ۔ بلکہ سیکولرزم کو آپسی خیرسگالی ، دوستی، محبت، اخوت ،آپسی اتحاد و اتفاق اور قومی یکجہتی کے معنوں میں بھی استعمال کیا جانا چاہئے کہ موجودہ وقت میں ، جس طرح سے سیکولر اور سیکولرزم سے نفرت بڑھ رہی ہے اور غیر اعلان شدہ پابندی عائد کی جا رہی ہے ،بلکہ انتہا تو یہ دیکھنے کو مل رہی ہے کہ سیکولر اور سیکولرزم کی جگہ راشٹر واد کو فروغ دینے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ اس کے پیچھے منشا یہ ہے کہ کسی خاص طبقہ اور مذہب کے لوگوں کو حب الوطنی کے نام پر زد و کوب کیا جائے ، انھیں خوف و دہشت میں رکھا جائے ۔

یہ ایسے لوگ ہیں جو آئین میں شامل الفاظ سیکولر اور سیکولرازم کے معنیٰ اور مطلب کو سمجھنا بھی نہیں چاہتے ہیں ۔انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ سیکولر ہونے یا سیکولرازم کی تائید کرنے کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ وہ لا مذہب یعنی کسی بھی مذہب کا ماننے والا نہیں، بلکہ سیکولر ہونے والا اور سیکولرازم پر یقین رکھنے والا اپنے پسندیدہ مذہب کا پابند اور عقیدت مند رہنے کے ساتھ ساتھ دوسرے تمام مذاہب کو حقارت اور نفرت سے نہ دیکھے ، بلکہ عزت و احترام کرے ۔ ملک کے 42 ویں ترمیم میں اس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ انڈیا ایک سیکولر ملک ہے۔یعنی اس ملک کے آئین کے مطابق یہ ملک بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور اس ملک کی حکومت اور مذہب کے درمیان کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مضبوط اور ترقی یافتہ ممالک کے آئین اور قوانین میں اس بات کا اعتراف بہت ہی واضح طور پر ہوتاہے کہ ملک کی حکومت کا مذہب سے کسی طرح کا تعلق نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام جمہوری ممالک میں ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب ماننے اور اپنے طور پر فروغ دینے کی آزادی ہے۔ملک کی حکومت کومذہب سے جوڑنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی ۔ امریکہ جیسے اتنے بڑے جمہوری ملک کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اس ملک میں مختلف مذاہب،ذات، سماج، رنگ و نسل، رواج و رسوم کے لوگ بستے ہیں ، جنھیں ایک میلٹنگ پوڈ میں بدل دیا گیا ہے ۔ بلا تفریق رنگ و نسل ہر شہری پہلے اپنے ملک کی ترقی، فلاح و بہبود کو فوقیت اور اولیت دیتا ہے ۔ اگر کوئی سیاست داں ان راہوں سے بھٹک کر الگ راہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہے ، تو اس کے خلاف زبردست احتجاج اور مظاہرے ہوتے ہیں ۔

امریکہ کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن (1801-109)نے امریکہ کو آزادی دلانے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا تھا کہ ملک کی ترقی اس بات میں مضمر ہے کہ ملک کی حکومت کو مذہب سے الگ رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر ایسے ممالک بشمول بھارت کسی بھی مندر، مسجد، چرچ، گرودوارہ،بودھ مٹھ وغیرہ میں ان مذاہب کے عقیدت مندوں کی جانب سے دیئے گئے عطیات اور دیگر آمدنی کو ٹیکس کے زمرے میں نہیں رکھا جاتا ہے ۔ لیکن ان دنوں جس طرح ملک کے آئین کو بدلنے اور خاص طور پر سیکولر کردار کو ختم کرنے کی دانستہ کوششیں ہو رہی ہیں ، وہ بہت ہی افسوسناک اور تشویشناک ہے۔ ملک کے اقتدار پر قابض رہنے اور اپنے ایجنڈہ ہندوتوا کے نفاذ کے لئے جس منظم اور منصوبہ بندطریقے سے فرقہ واریت اور مذہبی جنون کو بڑھاوا دیتے ہوئے ذمّہ دار منصب اور عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی اس مہم کو حمایت مل رہی ہے۔ اس سے تشویش میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ کاش کہ یہ لوگ ماضی کی تاریخ کو سامنے رکھتے اور ان کا مطالعہ کرتے تو انھیں اندازہ ہوگا کہ وہ حکومت کا مذہب سے بے جا تعلق پیدا کرنا ، دوسر ے مذاہب اور اس کے ماننے والوں کو آئے دن زد و کوب کر، منافرت بھرے نعرے لگا کر ، ان مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کو طرح طرح کی دھمکیاں دے کر ، نوجوانوں کو قتل کرکے ملک کی یکجہتی ، بھائی چارگی اور محبت کو ختم کر ملک کے لئے کوئی اہم کارنامہ انجام نہیں دے رہے ہیں۔

افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اب آئے دن ملک کے سیکولر اور سیکولراز م کی بحث چھیڑی جا رہی ہے۔ ایک سابق وزیر اننت کمار ہیگڑے نے تو یہاں تک کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی کہ سیکولرزم کی بات کرنے والے کی ولدیت مشکوک ہے ۔ اسی طرح ہمارے ملک کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو بھی آئین کی تمہید میں 1976 میں 42 ویں ترمیم کے ذریعہ ’’سیکولر‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ جیسے الفاظ کا شامل کیا جانا بھی کافی بوجھ محسوس ہوا اور انہوں نے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی کہ ان الفاظ کا سیاست میں غلط استعمال ہو رہا ہے کیونکہ اس سے سماجی ہم آہنگی برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ان کے اس بیان پر حزب مخالف نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔ دراصل راج ناتھ سنگھ لفظ ’’سیکولر‘‘ کے معنٰی سے زیادہ اس لفظ کے جو جذبات اور روح ہیں ، ان سے بہت پریشان ہیں ۔ اگر ’’ سیکولر‘‘ اور’’سوشلسٹ‘‘جیسے الفاظ بے معنیٰ ، بے مطلب اور بے وقعت ہوتے ، تو اوّل تو انھیں 1976 میں آئین میں شامل نہیں کیا جاتا اور اگرشامل ہو ہی گیا تھا تو پھر 1977 میں جنتا پارٹی کی جو مرارجی ڈیسائی کی سربراہی میں حکومت برسراقتدار آئی تھی ، جس میں اٹل بہاری باجپئی اور لال کرشن اڈوانی جیسے دور اندیش اور ان ہی کے نظریہ کے حامی رہنما بھی شامل تھے ۔ ان لوگوں نے ان دونوں الفاظ کو آئین سے کیوں نہیں حذف کرا دیا تھا ۔ در حقیقت ہمارے راج ناتھ سنگھ کی پریشانی یہ ہے کہ ان کی نظروں کے سامنے کھلم کھلا لفظ ’’سیکولر‘‘ کو معنوی اور جذباتی دونوں لحاظ سے لہو لہان کیا جا رہا ہے ، لیکن یہ کچھ کر نہیں پا رہے ہیں ۔ مشکل یہ ہے آج جو قوت ملک میں بد امنی پھیلا رہی ہے اور منافرت کو ہوا دے رہی ہے ، وہ اپنے ملک کی سنہری تاریخ سے واقف نہیں ہے اور نہ ہی واقف ہونا چاہتی ہے۔ میں مسلم مؤرخوں کی بیان کردہ تاریخ کی بجائے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے سیکولر ہندو تاریخ دانوں کے خاص طور پر حوالے دینا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ بپن چندرا،رومیلا تھاپڑ،تارا چرن،ہربنس مکھیا،راج کشور، بی این پانڈے،رام چندر گوہا،پی سیتا رمیا وغیرہ کی لکھی تاریخ کا مطالعہ کریں ، تو آنکھیں کھل جائیں گی ۔لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو ملک کی سا لمیت سے مسلسل کھلواڑ کر رہے ہیں اور انتہا یہ ہے کہ جو کوئی ہندوبھی سیکولر اور سیکولرزم کی باتیں کرتا ہے ، وہ سیدھے دیش دروہ قرار دیا جاتا ہے بلکہ اب تو ان الفاظ کو نائب صدر جمہوریہ ہند ہی ناسور اور سناتن دھرم کی روح سے غدّاری بتا رہے ہیں۔

( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS