خواجہ عبدالمنتقم
سبرامنیم سوامی جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور زمرۂ اول کے دانشور و دیگران نے آئین کی تمہید سے سیکولر اور سوشلسٹ اصطلاحات کونکالنے کی بابت سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی جسے سپریم کورٹ نے ٹھکرادیا ہے اور وہ بھی خاص طور پر اس بنیادپر کہ فریق ثانی کی یہ دلیل کہ چونکہ آئین تو 1949میں اپنایا گیا تھا، اس لیے ان الفاظ کو آئین میں شامل ترمیم کو صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا،قبول نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر یہ دلیل مان لی جائے تو پھر تو بعد میں جتنی بھی ترامیم ہوئی ہیں انہیں بھی غیرقانونی قرار دینا ہوگا جس کا کوئی جواز نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ جنوری 1950کو جب ہماراآئین مکمل طور پر نافذ ہوا تھا، اس وقت سیکولر اور سوشلسٹ (سماجوادی) اصطلاحات آئین کی تمہید میں شامل نہیں تھیں۔ یہ اصطلاحات بعد میںآئین(42ویں ترمیم) ایکٹ،1976 کے ذریعہ آئین میں شامل کی گئی تھیں۔ سوامی صاحب اس قانون کے بل میں شامل Statement of objects and reasons کے ایک ایک لفظ سے اچھی طرح واقف ہیں ۔اس SORمیں صاف طور پر یہ بات کہی گئی تھی کہ چونکہ کچھ عوامل اور مفاد پرست لوگ اپنے ذاتی اغراض کی خاطر عام فلاحی اقدامات کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں اور یہ کہ آئین کے تدریجی سفر کو جاری رکھنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے، اس لیے ان اصطلاحات کو تمہید میں شامل کیا جا رہا ہے۔
عرضی گزار کی اس دلیل کو بھی عدالت نے نہیں مانا کہ اگر ان دونوں اصطلاحات کو، خاص کر لفظ سوشلسٹ یعنی سماجوادی کو، آئین کی تمہید میں سے نکال دیا جائے تو ڈاکٹر امبیڈکر خوش ہوں گے(یعنی ان کی آتما کو شانتی ملے گی)۔
جہاں تک آئین میںلفظ سوشلسٹ یعنی سماجوادی شامل کرنے کی بات ہے، اس اصطلاح کو اس نیت سے آئین میں شامل کیا گیاتھا کہ سب کو سماجی انصاف ملے۔ خود معمار دستور ڈاکٹر امبیڈکر نے 25نومبر،1949 کو یعنی آئین ساز اسمبلی کے ذریعہ آئین کے adopt کرنے سے صرف ایک دن قبل آئین کے مسودہ پر بحث کے اختتام کے بعد آئین ساز اسمبلی میں اپنی آخری تقریر میں یہ صحیح ہی کہا تھا کہ سیاسی جمہوریت کو بغیر سماجی جمہوریت کے( یعنی ایسی جمہوریت جس کی social base نہ ہو) کو کبھی استحکام نصیب نہیں ہو سکتا۔ خود ہمارا سپریم کورٹ بپن چندرا جے دیوان بنام ریاست گجر ات والے معاملے(1996 (3)گجرات لا رپورٹر 92 (ایس سی) میںیہ بات کہہ چکا ہے کہ سماجی انصاف کا قطعی مفہوم کچھ بھی ہو مگر اس میں کمز ور طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو انسان سمجھتے ہوئے ان کی ضروریات کا اعتراف و قدر شناسی یقینی طور پر شامل ہے۔جہاں تک لفظ سیکولراز م کی بات ہے اس میں تو خود ’سرودھرم سنبھاؤ‘ کا تصور پنہاں ہے بشرطیکہ اس کی تعبیر میں فراخدلی سے کام لیا جائے اور معبر کی نیت مرد آہن سردار پٹیل کے اس قول کو عملی جامہ پہنانے کی ہو۔ انہوں نے آزادی کے بعد لکھنؤ میں منعقد اجلاس میں کہا تھا :
’ہندوستان ہم سب کا ملک ہے۔ ہم اس میں ایک ساتھ تیریں گے اور ایک ساتھ ڈوبیںگے یعنی ساتھ جئیںگے اور ساتھ مریںگے۔‘
اب ضرورت ہے کہ ہم ان دونوںاصطلاحات کو آئین سے نکالنے کے بجائے اس بات پر غور کریںکہ سیکولرازم کے اس تصور کو مکمل طور پر کس طرح عملی جامہ پہنایا جائے اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب جسے ہم نے آئین کی دفعہ51الف میں ’ملی جلی ثقافت‘ کا نام دیا ہے اور جو ہزارہا سال گزر جانے کے باوجود تاہنوز بقید حیات ہے، اسے کس طرح زندہ رکھا جائے۔ اس کے بغیر ’ ایک بھارت اور شریشٹھ بھارت‘ کا سپنا کبھی ساکار نہیںہوسکتا۔ یہ سپنا ہربھارتی کا ہے۔ یہی سپنا ہمارے مجاہدین آزادی کا بھی تھا۔
ہندوستانی پس منظر میںسیکولرازم کی بنیادد و اصولوں پر ہے۔ ایک تو یہ کہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے یا مختلف عقائد میں یقین رکھنے والے افراد قانون کی نظر میں برابر ہیں اور ان سب کے ساتھ برابر کا برتاؤ کیا جانا چاہیے اور کسی بھی طرح کا امتیاز نہیں برتا جانا چاہیے۔ ہماری عدلیہ خصوصاً سپریم کورٹ کے روبرو سیکولرازم کے سلسلے میں دائر کیے گئے مقدمات کی ایک طویل فہرست ہے جو سردار طاہرالدین سیدنا صاحب بنام ریاست بمبئی (اے آئی آر 1962 ایس سی853) سے شروع ہوکرتاہنوز جاری ہے۔کیشوآنند بھارتی بنام ریاست کیرالہ (اے آئی آر 1973ایس سی1461)، اندرا گاندھی بنام راج نرائن (اے آئی آر 1975ایس سی 2299)، منروا ملز لمیٹڈ بنام یونین آف انڈیا (اے آئی آر 1980ایس سی1789)، ایس آر بمّئی بنام یونین آف انڈیا (اے آئی آر1994ایس سی1918) ودیگر معاملوں میں سپریم کورٹ اس بات کی وضاحت کر چکا ہے کہ سیکولرازم آئین کے بنیادی ڈھانچے کا جزء لاینفک ہے اور اس بنیادی ڈھانچے کو نہیں بدلا جاسکتا۔ دیگر معاملات میں بھی جن میں سیکولرازم کی اصطلاح آئین میں واضح نہ ہونے کی بات کہی گئی ہے، ان میں بھی آئین میں سیکولرازم کے تصور کو نکارا نہیں گیا ہے۔یہ بات دوسری ہے کہ ان میں ہندو طرز زندگی یا ’سرودھرم سنبھاؤ‘ اور ’دھرم‘ جیسے تصورات کا حوالہ ضرور دیا گیا ہے۔
اگرچہ 1976سے قبل سیکولرازم کا تصور تحریری طور پر آئین کا حصہ نہیں تھا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آئین میں اس سے قبل سیکولرازم کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ ہمیں اس بات کا اشارہ مارچ 1931میں کراچی میں منعقدہ انڈین نیشنل کانگریس کے 45ویں اجلاس میں ’بنیادی حقوق اور اقتصادی پروگرام‘ عنوان کے تحت منظور کی گئی اس تجویز کی مد2 بعنوان ’حکومت کی جانب سے مذہبی غیر جانبداری‘ (Religious Neutrality)سے ملتا ہے۔ یاد رہے کہ اس تجویز کی بنیاد پر ہی 13دسمبر 1946کو پنڈت جواہر لعل نہرو نے آئین ساز اسمبلی میں ایک تجویز جسے تجویز اغراض(Objectives Resolution) کہا جاتا ہے، پیش کی تھی۔ اس تجویز کو اتفاق رائے سے آئین ساز اسمبلی نے 22جنوری 1947کو دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتے ہوئے منظور کرلیا تھا کہ آئین وضع کرتے وقت متذکرہ بالا دونوں تجاویز میں شامل باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔
اب رہی بات سپریم کورٹ کو ان دفعات کوہٹانے کی۔ اگرچہ آئین نے سپریم کورٹ کے ججوں پر کوئی بھی ایسی پابندی نہیں لگائی ہے کہ وہ پرانے فیصلوں پر نظر ثانی نہ کر سکیں یا یہ کہ پرانے فیصلوں میں متعلقہ امور کی بابت ایسے فیصلے لیے گئے ہوں جن سے عام شہریوں کے بنیادی حقوق پر منفی اثر پڑتا ہو تو انہیں نہ بدل سکے لیکن سپریم کورٹ کتنے ہی معاملوں میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ فیصلوں پر قائم رہنے کے اصول(Stare Decisis)کے مطابق عدالتوں کو اپنے فیصلوں پر قائم رہنا چاہیے اور انہیں منسوخ کرنے یا بدلنے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اس اصول کے بغیر قانون عامہ بر قرار نہیں رہ سکتا( ملاحظہ فرمائیے سجن سنگھ بنام ریاست راجستھان (AIR1965SC) و ریاست پنجاب بنام بلد یو سنگھ والے معاملے ((1999)6SCC172۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]