فرقہ وارانہ تشدد بلا امتیاز ملک دشمن اقدام ہے

0

عبدالسلام عاصم

قوم پرستی کو فرقہ پرستی کے خطوط پر فروغ نہیں دیا جاسکتا۔ قوم پرستی ایک ایسا جذبہ ہے جس کیلئے وطن دوستی اولین شرط ہے اور اس شرط کی تکمیل کسی بھی طرح کے دشمنی کے جذبے سے ہرگز ممکن نہیں۔اس تمہید کی روشنی میں درونِ ملک فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں مسلسل خلل کے واقعات کا جائزہ لیتے وقت یہ دیکھ کر سخت افسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں بین فرقہ منافرت سے منافع کشید کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ جاری انتخابی مہم اور پولنگ کے دوران کوئی کسی کو عظمت رفتہ کی بازیافت کے خواب دکھا رہا ہے تو کوئی کسی کا خوف بھنا رہا ہے۔ سارا کھیل محدود مفادات کا ہے جس میں خواص کے ہاتھوں عوام کی درگت بن رہی ہے اور ملک کی جامع ثقافت والی تہذیب کو ایسا نقصان پہنچ رہا ہے جس کی آئندہ برسوں میں تلافی نہیں کی گئی تو گزرنے والی دہائیوں کے ساتھ’’داخلی محاذ‘‘ پر اتنا کچھ ختم ہوجائے گا کہ اس کے آگے 1947 کی ’’خارجی تقسیم ‘‘کا قد بونا نظر آنے لگے گا۔
تو کیا ہم معکوس رخ پر اس قدر ایڈوینچر پسند ہوگئے ہیں کہ اپنی تہذیب کا اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹنے سے بھی باز نہیں آ رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہمارے ماضی کی داستان صرف غاروں تک محدود ہے۔ امکانات اور جستجو کے سفر میں ہم جن ادوار سے گزرے ہیں، ان کے دستاویزات میں ماضی کی ایسی مثالیں بھی ہیں جن سے استفادہ کر کے ہم آج بھی اگلے ہی کسی موڑ پرسنبھل سکتے ہیں۔ماضی سے اتنی ہی دلچسپی ہے تو تاریخ کو دہرانے یا درست کرنے کی بے ہنگم سوچ اور کوشش میں رائیگاں جانے کے بجائے ایک طالب علم کے طور پر اس کا بے لاگ مطالعہ کیوں نہ کیا جائے! اس مطالعے میںعجب نہیں کہ یوروپی نشأۃ ثانیہ ہمیں بھی اپنی طرف اس طرح متوجہ کرے کہ ہم اس سے اپنے حق میں آزمانے پر اتر آئیں۔ یوروپ میں عقائد پر علم کو ترجیح دینے کی فکر نے ایک مرحلے پر اہل مذاہب کو اس درجہ متاثر کیا تھاکہ وہ تجدید ایمان کے جذبے کے ساتھ متبادل مقاصد تلاش کرنے لگے تھے۔
ایسا نہیں کہ اس انقلاب نے وہاں مذاہب کے روایتی خط و خال کا سرے سے خاتمہ کر دیا، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ عام مذہبی حلقہ عملی فلسفے اور مثبت سائنسی فکر سے ہم آہنگ ہونے سے نہیں بچ سکا۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اب وہاں کلٹ ازم کا دائرہ عام زندگی میں سڑکوں اور گلیوں تک وسیع نہیں رہا۔ اب وہاں اکثریت یومیہ زندگی میں مذاہب کی نمائشی پیروی نہیں کرتی۔ہمارے یہاںمعاملہ برعکس ہے۔ یہاں ہر طرف مذاہب کی بس نمائشی پیروی کی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ سماجی ناہمواری منظرنامے کا اٹوٹ اور سب سے نمایاں حصہ بنی ہوئی ہے۔ یوروپ میں جہاں مذاہب کے صرف بنیادی عملی تقاضے زندگی کا حصہ ہیں اور رسمیں اٹھا کر طاق پر رکھ دی گئی ہیں، وہیں ہمارے یہاں مذاہب کے بنیادی عملی تقاضے کتابوںاور رسمی عبادت تک محدود ہیں جیسے خیرات، زکوٰۃ، فطرات، بھینٹ اور دان وغیرہ۔ ورنہ کیا وجہ ہے ان حوالوں سے خیرات بانٹنے اور وصول کرنے والے نسل در نسل اور خاندان در خاندان ایک ہی سلسلے کی کڑیاں بنے ہوئے ہیں۔ کہیں کوئی فرق پڑتا نظر ہی نہیں آتا۔البتہ دونوں طرف کے کچھ لوگوں نے تو اس کو دھندہ بھی بنا لیا ہے۔ بظاہر یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ زندگی کی خوش جہتی ہمارے معاشرے کا عملی نہیں صرف تذکرے کا حصہ ہے۔
تاریخی دستاویز بتاتے ہیں کہ عقیدے سے علم کی طرف یوروپ کا سفر آسان ہرگز نہیں تھا اور ویسے بھی کوئی راستہ تعمیر کے حتمی مرحلے سے گزرنے سے پہلے انتہائی ناہموار کیفیات سے ہی گزرتا ہے۔حالیہ دہائی میں بہرحال زمانے کی رفتار جتنی تیز ہو ئی ہے، اُسے دیکھتے ہوئے کبھی کبھی امکان کے رُخ پر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے یہاں اگر ایسا ہوا تو کایا پلٹ تبدیلی کی راہ بڑی تیزی سے ہمارے قدموں کو چومنے کیلئے دور تک بچھ سکتی ہے۔ شرط بس یہ ہے کہ ہم اپنے حال پر ماضی کے حوالے سے نظر ڈالنے کے بعد یہ فیصلہ کرلیں کہ آنے والے کل کیلئے ہم اب اور اپنا ’’آج‘‘ اُن زخموں کو ہرا رکھ کر رائیگاں نہیں جانے دیں گے جن کو بھرنے میں باہمی اشتراک ہی اصل فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا نقیب بن سکتا ہے۔
وطن عزیز کی ذات پات میں بٹی بڑی اکثریت اور انتہائی فروعی مسلکی اختلاف رکھنے والی نمایاں اقلیت، دونوں کی سیاسی، سماجی اور مذہبی کمان موجودہ انتخابی موڑ پر ایسے لوگوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر سنبھال رکھی ہے جو بظاہرافہام و تفہیم کے رخ پر بات کرنے کے مخالف نہیں ہیں لیکن جب وہ بات شروع کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ بباطن بس اپنے اپنے فرقوں کی وکالت کر رہے ہیں۔ متحارب فرقوں کے نام پر وکالت کرنے والے وکیلوں سے یہ توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسا کوئی حل پیش کریں گے کہ فریقین یہ محسوس کرنے لگیں کہ ہم نے لڑائی جیتنے کے بجائے ایک دوسرے کو جیت لیا ہے۔ ایسی انسان دوست کوشش صرف وہ رہنما کر سکتے ہیں جن کا اپنا کوئی محدود مفاد یا ایجنڈا نہ ہو۔ بدقسمتی یا کسی اور سبب سے دونوں فرقوں میں ایسی فکر کے حامل لوگوں کی غالب اکثریت موجود ضرور ہے لیکن وہ عافیت پسند ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ لوگ حالات سے بیزار ضرورہیں لیکن اپنی بیزاری کو وہ بیداری کی مہم کی شکل دینے سے محض اس لیے گریزاں ہیں کہ وہ اُن مشکلات سے گزرنا نہیں چاہتے جو بہر حال محنت طلب ہیں۔
واقعہ ہے کہ نہ تو اسلام کی مبینہ انتہاپسندانہ شکل کو عام ہندوستانی مسلمانوں کی تائید و حمایت حاصل ہے نہ ہی ہندوتوکے نام پر خوف کا کاروبار کرنے والوں کی عام ہندو تائید و سرپرستی کرتے ہیں۔اس وضاحت سے بہرحال وہ بات پوری طرح نہیں بنتی جو دہائیوں سے نام نہاد سیکولر حکمرانوں کی کھوکھلی قیادت میںبگڑتی چلی آئی ہے۔کیا آج بھی اس پر مغزماری کی ضرورت ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے شدت پسندانہ افکار کا کاروبار کون لوگ کر رہے ہیں! اس کے جواب میں ڈھیر ساری باتیں کی جا سکتی ہیں اوردوٹوک جواب بھی دیا جا سکتا ہے۔ دونوں سے لیکن کچھ حاصل نہیں ہوگا۔اگر ڈھیر ساری باتوں کا سہارا لیا گیا توماخذ، بیانیہ، ذرائع، مفہوم یہاں تک کہ حاشئے تک سے اختلاف میں لوگ الجھ کر رہ جائیں گے۔ دوٹوک جواب سامنے لایا گیا تو اُسے بھی ایک حلقہ کھڑے کھڑے مسترد کر سکتا ہے۔ایسا نہیں کہ قوم کو بیماری کا علم نہیں اور ڈاکٹر سب کو گمراہ کر رہے ہیں۔ایک حلقہ پوری طرح بیدار ہے اور اسے سب پتہ ہے لیکن اس کے پاس وہ چھو منتر نہیں جس کا استحصال جہل کا کاروبار کرنے والے نہ صرف آسانی بلکہ دھڑلے سے کرتے ہیں۔اس حلقے کو بس ہمت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اسے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اُس کی عافیت پسندی اسے بچا لے گی۔
حالات کو دونوں فرقوں کے لیے موافق بنانے کی ایک امکانی صورت یہ ہے کہ فرقہ وارانہ نفرت اور تشدد کے تسلسل کو روکنے کیلئے سب سے پہلے اقلیتی اور اکثریتی فرقہ پرستی کے درمیان جو ایک غلط مساوات ہے، اُس کو ختم کیا جائے۔ وہ غلط مساوات یہ ہے کہ نسل کشی کی حد تک ہلاکتوں کا خطرہ دونوںفرقوں کو لاحق نہیں۔ یہ خطرہ صرف ایک کے ساتھ ہی پیش آ سکتا ہے جس کا نہ ماضی میں نوٹس لیا گیا ہے اور نہ آئندہ ایسے کسی اندیشے کو عملاً ٹالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔کوئی چالیس سال قبل نیلی قتل عام معاملے میں اب تک ایک بھی شخص کو کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ نیلی قتل عام اب عام یاد داشت کا حصہ بھی نہیں رہا۔ اس کے باوجود اگر ملک 1984 اور 2002 کے سانحات سے گزر چکا ہے تو یہ ایک المناک ستم ظریفی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اکثریت اور سب سے نمایاں اقلیت دونوں کے یہاں قتل اور غارتگری پر یقین رکھنے والے مٹھی بھر ہیں لیکن اُن مٹھی بھر عناصر کی وجہ سے یہ تاثر ضرور عام ہوجاتا ہے کہ اکثریتی مذہبی طبقہ کسی بھی اجتماعی تشدد کا ارتکاب کرسکتا ہے اور اقلیت کا ردعمل انتقام کے راستے سے گزر کر بھی اس کیلئے زبردست نقصان کی ہی فہرست مرتب کرے گا۔ اس اندیشے سے نجات کی واحد صورت یہ ہے کہ حکومتِ وقت از خود قوم پر یہ واضح کرے کہ اجتماعی تشدد خواہ اکثریت کی طرف سے ہو یا اقلیت کی طرف سے اسے یکساں طور پر ملک دشمن اقدام تصور کیا جائے گا۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS