پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کا دوسراحصہ کل پیرسے شروع ہورہاہے ۔یہ کافی ہنگامہ خیز رہنے کا امکان ہے ، کیونکہ ایک تو کہاجارہاہے کہ اس میں سرکار وقف ترمیمی بل پا س کرانے کی پوری کوشش کرے گی ،جس کا ہوم ورک جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کی صورت میں ہوچکا ہے اورمرکزی کابینہ نے بھی دوبارہ بل کی منظوری دے دی ہے ۔ اس بل کی نہ صرف اپوزیشن پارٹیاں مخالفت کررہی ہیں ، بلکہ مسلمان خصوصاعلما ئے کرام بھی کررہے ہیں ۔مسلم پرسنل لا ء بورڈ نے 13مارچ کو جنتر منتر پربڑے پیمانے پر احتجاج ومظاہرے کا اعلان کررکھاہے ،اس کی حمایت جمعیۃ علماہ ہند نے کی ہے، دیگر ملی تنظیموں کی شرکت متوقع ہے ۔حکومت کو لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل پاس کرانے میں تو کوئی پریشانی نہیں ہوگی ، کیونکہ ایوان میں اسے واضح اکثریت حاصل ہے ، لیکن راجیہ سبھا میںتھوڑی پریشانی ضرورہوگی ۔
اب دیکھنایہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اس بل کو پاس کرانے میں حکومت کو ناکام بناتی ہیں ، یا احتجاج ومخالفت کے نام پر ایوان سے واک آئوٹ کرکے بل پاس کرانے کا کام آسان بنادیتی ہیں ۔سوال صرف وقف بل کا نہیں ہے ، بلکہ منی پور میں تشدد کے تازہ واقعات ،ٹیرف کے معاملہ میں امریکہ کے رویہ اورصدر ڈونالڈٹرمپ کی بیان بازی ، ساتھ ہی ساتھ مغربی بنگال سے اٹھی ووٹرلسٹ میں گڑبڑی کی آوازجیسے ایشوز بھی حکومت کے سامنے مشکلات کھڑے کرسکتے ہیں ۔ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران انہیں پارلیمنٹ میں اٹھانے کی بات مسلسل کررہے ہیں ، حالانکہ ووٹر لسٹ میں دوہرے ایپک نمبر کے تعلق سے الیکشن کمیشن نے وضاحت کردی ہے اوراس نے یہ بھی کہاہے کہ اگلے 3ماہ میں ہر ووٹر کو یونیک ووٹر کارڈ نمبر جاری کیے جائیں گے، جس سے یہ مسئلہ پیداہی نہیں ہوگا ، لیکن فی الحال الیکشن کمیشن کی وضاحت اور قدم سے سیاسی پارٹیاں مطمئن نہیں ہیں۔ جب یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں اٹھے گا ،تو جواب حکومت کو ہی دیناپڑے گا، غرضیکہ بجٹ اجلاس کے دوسرے حصے میں حکومت کیلئے جہاں بہت سے بل پاس کرانے کا چیلنج ہوگا ، وہیں اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے مسائل پر انہیں مطمئن بھی کرنا ہوگا۔
بجٹ اجلاس کا پہلا حصہ بھی ہنگامہ خیز تھا ، بلکہ اب تو ہر اجلاس میں شورشرابہ اورہنگامہ ہونا عام بات ہے ۔کئی کئی دنوں تک ہنگامے ہوتے رہتے ہیں ۔ دونوں ایوانوں کی کارروائی ایک ایک دن میں کئی کئی بار ملتوی کی جاتی ہے اورآخر میں جب ہنگامہ بند نہیں ہوتا، تودن بھر کیلئے کارروائی ملتوی کردی جاتی ہے ۔اس طرح اجلاس کی کارروائی کیلئے مخصوص دوتہائی اوقات کا بھی صحیح سے استعمال نہیں ہوپاتا۔اوقات اورپیسے کے ضیاع کا الزام اپوزیشن حکومت پر اور حکومت اپوزیشن پر لگاتی ہے ۔برسوں سے یہی روایت چلی آرہی ہے اوراس کا کوئی حل نہیں نکل رہا ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ منی پور کا مسئلہ اٹھایا جائے گا ، تو ریاست کئی سال سے جل رہی ہے ۔
وزیراعلی کے استعفیٰ اورصدرراج کے نفاذ کے بعد جب لوگوں نے ہتھیار جمع کرنا شروع کیا تھا ، تو لگ رہاتھاکہ اب امن قائم ہوجائے گا، لیکن وہاں نہ تو حکومت تشکیل دی جاسکی اورنہ ہی امن قائم ہوسکا ۔تشدد کے تازہ واقعات سے یہی پتہ چل رہاہے کہ دونوں متحارب گروپ میتئی اور کوکیوں کے درمیان انتقام کی آگ اب بھی سلگ رہی ہے اوروہ موقع کے انتظار میں ہیں۔ آگے بھی انہیں موقع ملے گا تو وہ تشدد برپا کریں گے ۔رہی بات امریکہ کے ساتھ ٹیرف تنازع کی ، تو امریکی صدر جس طرح بیان بازی کررہے ہیں ، خصوصاًانہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کے سامنے جس طرح کا بیان دیا اور اپوزیشن پارٹیاں پوری صورت حال کوجس پہلو سے دیکھ رہی ہیں ۔حکومت کیلئے اس کی وضاحت کرنااوراپنادامن بچانا آسان نہیں ہوگا ، خاص طورسے اس وقت جب ٹرمپ خود اپنے بیانات سے غلط فہمیاں پیداکررہے ہیں اور حکومت کی پوزیشن کمزور کررہے ہیں ۔اسی بات کو لے کر اپوزیشن پارٹیاں سوالات کھڑی کررہی ہے ۔
الیکشن کے مختلف ایشوز کے تعلق سے الیکشن کمیشن مسلسل سوالات کے گھیرے میں ہے۔اس کی وجہ سے اپوزیشن کو حکومت پر حملے کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔جب باہر اپوزیشن کو اپنے سوالات کا جواب نہیں ملتا، تو وہ اپنے ایشوز اٹھانے کیلئے پارلیمنٹ ہی کو پبلک پلیٹ فارم بنالیتی ہیں ۔بہت سے مسائل پارلیمنٹ کے باہر بھی حل ہوسکتے ہیں ، لیکن انہیں حل نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کی کارروائی ہنگامہ کی نذر ہوتی رہتی ہے ۔اب بھی پارلیمنٹ کے اجلاس سے پہلے کچھ اسی طرح کے ماحول اور حالات ہیں اوران ہی کے سائے میں بجٹ اجلاس کا دوسرا حصہ ہوگا ۔ایسے میں اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اجلاس کیساہوگا؟