محمد حنیف خان
تعلیم کے بغیر زندگی کا تصور بہت بھیانک ہے،ایسے افراد جو تعلیم کے زیور سے لیس نہ ہوں وہ زندگی تو گزار سکتے ہیں مگر انسانوں کی نہیں۔اکیسویں صدی میں جینے والا شخص اگر غیر تعلیم یافتہ ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کو کس قدر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔اس دشواری کو اگر 25 برس آگے کے تناظر میں دیکھا جا ئے تو کس قدر بڑھی ہوگی۔ ڈیجیٹل انڈیا کی بنیاد رکھی جا چکی ہے جوبہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ آئندہ 20-25برسوں میں ہوسکتا ہے ہندوستان کی بنیاد ہی ڈیجیٹل ہوجائے اس وقت غیرتعلیم یافتہ افراد کی زندگی کیسی ہوگی، اسے چشم تصور میں لایا جا سکتا ہے۔ہندوستان میںتعلیم 14برس تک کے بچوں کا بنیادی حق ہے۔اس کے باوجود آج بھی ایک کثیر تعداد ہے جو اسکولوں سے دور ہے۔جو بچے اسکول پہنچ بھی جاتے ہیں ان کا اسکول ڈراپ آؤٹ فیصد دیکھ کر ڈرلگنے لگتا ہے کہ ہندوستان کو کس طرف جانا چاہیے تھا اور آج وہ کس طرف جا رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے بچوں کا اسکول نہ پہنچنا ایک مسئلہ تھا ،جس کے لیے ہماری حکومتوں نے اسکیمیں تیار کیں، خاکے بنائے اور بچوں کو اسکول پہنچانے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے۔جب تعلیم کو ہر بچے کا بنیادی حق قرار دیاگیا اور ان کی صحت کی جانب توجہ دی گئی تو ان کے لیے ’مڈ ڈے میل ‘ کا بھی انتظام کیا گیا۔یہ انتظام صرف صحت کو ذہن میں رکھ کر نہیں کیا گیا تھا، اس میں ایک نفسیاتی گرہ بھی لگی ہوئی تھی کہ دیہی علاقوں کے بچے کم از کم مڈ ڈے میل کے لیے ہی اسکول پہنچیں گے۔یہ حقیقت ہے کہ بڑی تعداد میں بچوں کو اسکول پہنچانے میں اس مڈ ڈے میل نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔گزشتہ برس کووڈ 19کی وجہ سے اسکول بند کر دیے گئے تھے جو اب یکم جولائی سے دوبارہ شروع ہوئے ہیں۔یہ ایک طویل وقت گزرا جب بچے اسکول سے دور رہے۔شہری علاقوں میں بچے انٹرنیٹ کے ذریعہ آن لائن طریقہ تعلیم سے جڑے رہے لیکن دیہی علاقوں میں اور خصوصاً سرکاری اسکول کے بچے اس مدت میں کلی طور پر تعلیم سے دور رہے۔اب جبکہ اسکول دوبارہ کھلے ہیں تو ان بچوں کو اسکول سے جوڑنا ایک اہم مسئلہ ہے۔اہم بات یہ بھی ہوئی کہ اسی درمیان ’’یونیفائڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن‘‘(یوڈی آئی ایس ای پلس)کی سال 2019-20 کی رپورٹ آئی ہے جس میں اسکول چھوڑنے والے بچوں(ڈراپ آؤٹ) کے اعداد و شمارہیں۔یہ ادارہ ڈپارٹمنٹ آف اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی، وزرات تعلیم حکومت ہند کے تحت آتا ہے۔2012میں اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا تھا تاکہ اسکولی تعلیم کو بہتر سمت دے کر ایک مضبوط مستقبل ،مضبوط قوم اور مضبوط ہندوستان کی بنیاد رکھی جا سکے۔یہ ادارہ ڈیٹا کلیکشن کرکے اپنی رپورٹ تیار کرتا ہے جس کو نظر میں رکھ مستقبل کی خاکہ سازی کی جاتی ہے تاکہ قوم کے بچوں کو بہتر اور معیاری تعلیم دی جاسکے۔
یوڈی آئی ایس ای کی رپورٹ کے مطابق سال 2019-20 میں 18.3لڑکوں اور 16.3فیصد لڑکیوں نے اسکول چھوڑدیا۔اسکول ڈراپ آؤ ٹ کے یہ اعداد و شمار کم نہیں ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مڈل میں اسکول ڈراپ آؤٹ 17فیصد سے زیادہ ہے جبکہ ششم سے ہشتم اور پرائمری سطح پر بالترتیب 1.8اور 1.5فیصد ہے۔پرائمری میں لڑکیوں کے مقابلے لڑکوں کا ڈراپ آؤٹ فیصد زیادہ ہے۔جہاں 1.7لڑکوںنے اور 1.2فیصد لڑکیوں نے اسکول چھوڑا، وہیں مڈل میں 16.3فیصد لڑکوں اور 18.3فیصد لڑکیوں نے اسکول چھوڑا۔اہم بات یہ ہے کہ لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں نے جہاں اسکول کم چھوڑا ہے وہیں اسکول پہنچنے کا ان کا فیصد بھی زیادہ ہے۔اسی رپورٹ کے مطابق 2019-20میں پرائمری سے ثانوی سطح میں 26.45کروڑ طلبا نے اپنے ناموں کا اندراج کرایا تھاجو سال 2018-19کے مقابلے 42.3زیادہ ہے۔ہر سطح (پرائمری اور ثانوی)میں لڑکیوں کے داخلے میں اضافہ ہوا ہے۔ایک طرف داخلہ کا فیصد جہاں ہمیں خوشی دیتا ہے کہ ہم تعلیم کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور سال در سال اسکول پہنچنے کے فیصد میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے ہر بچے کو تعلیم کے خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے کے امکانات روشن ہوتے نظر آتے ہیںلیکن جب ڈراپ آؤٹ فیصد پر نظر جاتی ہے تو یہی خواب کرچیاں بن کر آنکھوں میں چبھنے لگتے ہیں۔
ملک کی چوطرفہ ترقی کے لیے ان بچوں کا مستقبل بچانا چاہیے،کیونکہ یہی ملک کے مستقبل ہیں،جب بچے ذہنی و جسمانی اعتبار سے مضبوط ہوں گے تبھی ملک ترقی کی راہ پر جاسکے گا۔اگر ڈراپ آؤٹ ریٹ میں کمی نہیں کی گئی تو بچے کیسے ترقی کرپائیں گے۔تعلیم کے بغیر اکیسویں صدی میں زندگی کا تصور کتنا بھیانک ہے،اس کا اندازہ تخلیہ میں محض چند لمحے غور و فکر کر کے لگایا جا سکتا ہے۔ڈراپ آؤٹ روکنے کے لیے ہر سطح پر کوششیں کرنی ہوںگی۔جہاں حکومت کو نئے سرے سے منصوبہ بنانا ہوگا،وہیں اسکول کے اساتذہ کو بھی والدین کی کاؤنسلنگ کی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔
اس رپورٹ کے تناظر میں ہمیں دوپہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔اول اتنی کثیر تعداد میں بچے اسکول کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟دوم لڑکیوں کے مقابلے لڑکے زیادہ تعداد میں اسکول سے کیوں دور ہوجاتے ہیں۔ان دونوں سوالات کے جوابات بہت مشکل نہیں ہیں،ہر شخص فوراً اصل مسئلے تک پہنچ جائے گا لیکن اس مسئلے کا خاتمہ اتنا آسان نہیں ہے،اس کے لیے ایک طویل مدتی منصوبے کی ضرورت ہے، وہی ان بچوں کو اسکول میں رکھ کراعلیٰ تعلیم کی سطح تک پہنچا سکتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ سرکاری اسکیموں (مڈڈے میل،مفت تعلیم، مفت کتاب، مفت ڈریس)وغیرہ نے عوام کو تعلیم سے قریب کیا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ ان خوابوں نے بچوں کو اسکول پہنچایا جو ان کے والدین نے دیکھا ہے۔اکیسویں صدی میں کوئی والدین ایسے نہیں ہیں جو روشن اور تابناک مستقبل کا نہ صرف خواب نہیں دیکھتے بلکہ ان کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے انتھک محنت نہیں کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ڈراپ آؤٹ ریٹ زیادہ ہے اور اتنی تعداد میں بچے اسکول پہنچ کر اسے خیرباد کہہ دیتے ہیں تو اس کے بطن میں بہت سی مجبوریاں ہوں گی۔ان مجبوریوں میں سب سے بڑی اور اہم معاشی مجبوری ہے۔دیہی علاقوں میں توبہت سے لوگ چھوٹے چھوٹے بچوں کو صرف اس لیے سرکاری اسکول بھیجتے ہیں کہ وہاں ان کو دوپہر کا کھانااور ڈریس وغیرہ مفت ملے گی۔یہی بچے جیسے ہی ثانوی تعلیم تک پہنچتے ہیں، ان کے والدین ان کو اسکول میں نہ رکھ کر دو ہاتھ کی شکل میں دیکھنے لگتے ہیں۔ان کو لگتا ہے کہ یہ دو ہاتھ اب اس قابل ہوچکے ہیں کہ کسی چائے خانے میں یا کھانے کے ڈھابے پر برتن دھو کر دس پچاس روپے کماسکتے ہیں۔ اس لیے وہ ان کو یہاں سے اٹھاکر ان مقامات پر پہنچادیتے ہیںاور پھر یہ ہاتھ اپنا اور اپنے والدین کا دکھ کاٹنے لگتے ہیں۔
اس طرح جہاں ایک طرف بچوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے، وہیں دوسری جانب ایک دوسری برائی ’بچہ مزدوری‘ کو راہ دے دی جاتی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ بچہ مزدوری اس ملک میں غیر قانونی نہیں ہے اس کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں،اس کے باوجود یہ بچے نازک کندھوں پر نہ لاد پانے والا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں۔محض ہندوستان میںتقریباً ایک کروڑ 27لاکھ بچے ہیں جو بچہ مزدوری کا درد جھیل رہے ہیں،یہ تعلیم اور اچھی غذا سے محروم ہیں۔یہ بچے پڑھائی اور کھیل کودکی عمر میں اپنا بچپن گنوا دیتے ہیں۔کیونکہ موجود قوانین کا درست ڈھنگ سے نفاذ نہیں کیا گیا ہے۔حکومت کو سب سے پہلے اسی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔1986میں بچہ مزدوری کے خلاف بنائے گئے قانون کی دفعہ 45کے تحت سبھی ریاستوں کا یہ بنیادی فریضہ ہے کہ وہ 14برس کی کم عمر کے بچوں کو مفت تعلیم دیں۔اسکول میں یہ قانون نافذ ہے لیکن جن بنیادی وجوہ کی بنا پر بچے اسکول ڈراپ آؤٹ کرتے ہیں ان کا خاتمہ بھی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔حکومت اگر بچہ مزدوری پر قدغن لگادے اور اس کو وہ روکنے میں کامیاب ہوجائے تو اسکول ڈراپ آؤٹ ریٹ خودبخود رک جائے گاکیونکہ ایسی صورت میں وہ لوگ جو ان بچوں کو دو ہاتھ کی شکل میں دیکھتے ہیں وہ ان کا کیا کریں گے؟ اس لیے مجبور ہو کر وہ بچوں کو اسکول میں ہی رکھیں گے۔
ملک کی چوطرفہ ترقی کے لیے ان بچوں کا مستقبل بچانا چاہیے،کیونکہ یہی ملک کے مستقبل ہیں،جب بچے ذہنی و جسمانی اعتبار سے مضبوط ہوں گے تبھی ملک ترقی کی راہ پر جاسکے گا۔اگر ڈراپ آؤٹ ریٹ میں کمی نہیں کی گئی تو بچے کیسے ترقی کرپائیں گے۔تعلیم کے بغیر اکیسویں صدی میں زندگی کا تصور کتنا بھیانک ہے،اس کا اندازہ تخلیہ میں محض چند لمحے غور و فکر کر کے لگایا جا سکتا ہے۔ڈراپ آؤٹ روکنے کے لیے ہر سطح پر کوششیں کرنی ہوںگی۔جہاں حکومت کو نئے سرے سے منصوبہ بنانا ہوگا،وہیں اسکول کے اساتذہ کو بھی والدین کی کاؤنسلنگ کی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ ان سب سے اہم اوربڑی ذمہ داری سماج اور بچوں کے والدین کو اداکرنی ہوگی، اس میں گاؤں کے پردھان اور شہروں میں کارپوریٹروں (سماج)کا بھی تعاون لیا جاسکتا ہے۔ سماج اور والدین کو اس مسئلے کو نہایت سنجیدگی سے لینا ہوگا تبھی یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
[email protected]