قوت خرید میں اضافہ کرنے والی اسکیم اور حکومت کا طرزعمل

0

محمد حنیف خان

خوشحالی کا پیمانہ قوت خرید ہے، اگر معاشرے میں قوت خرید ہے تو اس کو خوشحال اس لیے تصور کیا جاتاہے کیونکہ وہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے کسی دوسرے پر منحصر نہیں ہوگا۔اس کا ایک عالمی پیمانہ (Purchasing Power Parity–PPP) ہے جس میں دو ملکوں میں قوت خرید میں یکسانیت دیکھی جاتی ہے،اسی کی بنیاد پر زر مبادلہ میں فرق پیدا ہوتاہے۔اندرون ملک قوت خرید کا مطلب کسی بھی چیز کی خریداری کے لیے معاشی استحکام مراد لیا جاتا ہے۔
ہندوستانی معاشرہ چونکہ اپنی ساخت کے اعتبار سے منقسم ہے جس نے معاشی سطح پر اس کے وجود کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔آزادی کے بعد جب جمہوری طرز حکومت اختیار کیا گیا تو منقسم معاشرے کو یکجا کرنے اور اس میں یکسانیت لانے کے لیے نہ صرف ریزرویشن کا اہتمام کیا گیا بلکہ ایسی اسکیمیں بھی شروع کی گئیں جن سے معاشرے میں یکسانیت پیدا ہو۔اس کی دو سطحیں تھیں، ایک سماجی دوسرے معاشی۔سماجی سطح پر انضمام و ادغام کے لیے کئی طرح کی کوششیں شروع کی گئیں اور آج بھی اگر بین ذات شادیاں کی جائیں تو مختلف ریاستی حکومتیں ایسے جوڑوں کو انعام و اکرام سے نوازتی ہیں اور سماجی تنظیمیں ان کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں۔چونکہ آئین نے ذات و مذہب کی سطح پر یکساں حقوق دیے ہیں، اس لیے سماج آئینی سطح پر کسی کے اس عمل کی مخالفت کا حق نہیں رکھتا، آئین اسے مکمل تحفظ دیتا ہے۔ معاشی سطح پر یکسانیت لانے اور ملک سے غربت کے خاتمے کے لیے متعدد منصوبے نافذ کیے تاکہ معاشی سطح پر پیدا خلیج ختم ہو اور معاشرہ خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
وقت، ماحول اور ضرورت کے مطابق اسکیموں کی خاکہ سازی ہوئی اور ان کا نفاذ کرکے ملک سے غریبی کے خاتمہ کی کوشش کی گئی لیکن غریبی ہنوز نہ صرف برقرار ہے بلکہ آج بھی ایک کثیر تعداد ہے جو بھوکے پیٹ سوتی ہے جس کے سر پر آشیانہ نہیں اور تن کپڑوں سے عاری ہیں۔جس کے دو بڑے اور اہم اسباب ہیں، اول بدعنوانی اور دوم ضرورت کے مطابق وسائل کی عدم فراہمی۔
ملک کی سیاسی پارٹیوں نے یہاں کے عوام کی غربت اور ان کی ضرورت کے مدنظر ہی روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا مگر یہ نعرہ صرف ایک فریب ثابت ہوا اور آج تک یہ سیاسی پارٹیاں مل کر بھی ہر ایک کو روٹی، کپڑا اور مکان مہیا نہیں کرا سکی ہیں، حالانکہ یہ دور صرف روٹی کپڑا اور مکان کا نہیں ہے بلکہ اس میں تعلیم اور صحت نے بھی خود کو شامل کرلیا ہے۔
یوپی اے حکومت نے اپنے پہلے دور میں دیہی علاقے کی غربت اور وہاں کی قوت خرید کے مدنظر 2005 میں مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی کا قانون بنا کر اس اسکیم کو نافذ کیا تاکہ دیہی علاقے میں رہنے والے غریب عوام کے ہاتھوں کو کام مہیا کرایا جا سکے۔اس اسکیم کے تحت ہر کنبے کے ایک فرد کو سالانہ 100 دن کام دیے جانے کا انتظام کیا گیا۔لیکن آج اس کی صورت حال یہ ہے کہ 100 میں صرف 34 دن ہی لوگوں کو کام مل پارہا ہے۔یہ اسکیم ہاتھوں کو کام دینے کے معاملے میں پوری دنیا میں نظیر ثابت ہوئی مگر دھیرے دھیرے یہ اسکیم بھی اپنی اہمیت کھوتی چلی گئی جس میں بجٹ کی عدم فراہمی اور غبن نے نمایاں کردار ادا کیا۔
دیہی عوام کو روزگار فراہم کرانے کے لیے کام کرنے والے افراد کی تنظیم کے ممبران گزشتہ سو دنوں سے دہلی میں جنتر منتر پر دھرنا دے رہے ہیں، وہ حکومت سے بجٹ میں کمی پر نالاں ہیں۔در اصل وزیر مالیات سیتا رمن نے منریگا کے بجٹ میں تخفیف کردی ہے جو بجٹ گزشتہ برس 89000 کروڑ کا تھا، اسے کم کرکے اب 60000 کروڑ کردیا گیا ہے۔ اس سے قبل 2022-23 میں 23 فیصد جبکہ 2021-22 میں 34 فیصد تخفیف کی گئی تھی۔یعنی مرکزی حکومت مسلسل منریگا کے بجٹ میں تخفیف کر رہی ہے۔اس کی وجہ سے جس اسکیم کے تحت ہر فرد کو سالانہ 100 دنوں کا کام ملتا تھا، وہ اب کم ہو کر 34 پر پہنچ گیا ہے۔
دیہات اور شہر میں غربت کے الگ الگ اسباب ہیں، دیہی علاقوں میں جن لوگوں کے پاس قابل کاشت زمینیں ہیں وہ بھی غربت و افلاس کے شکار ہیں، ان کی قوت خرید ایسی نہیں ہے کہ وہ اپنی سبھی ضروریات کی تکمیل کر سکیں کیونکہ زراعت سے اتنی آمدنی نہیں ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی پرورش کرسکیں، ان کی تعلیم اور علاج و معالجے کا انتظام کرسکیں، ان کی اس ضرورت کی تکمیل میں یہ اسکیم کسی حد تک معاونت ضرور کرتی تھی مگر حکومت نے اپنی عدم توجہی سے اس معاونت کو بھی کمزور کردیا ہے۔
حکومت نہ صرف غریب عوام کی حامی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے بلکہ وہ کسانوں کے لیے خود کو بہت مفید بتاتی ہے، اس کے باوجود اس نے ایک ایسی اسکیم کے بجٹ میں مسلسل تخفیف کی ہے جس کا فائدہ براہ راست غریبوں کو پہنچ رہا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے دن سے اس اسکیم پر اعتراض بھی کیا گیا تھا اور اس اسکیم میں لوپ ہول کرکے غبن کی راہیں بھی نکال لی گئی تھیں۔حکومت نے غبن کی راہ کو بند کرنے کے لیے بینک کھاتے کو لازم کردیا اور اس اسکیم کے تحت ملنے والی مزدوری پردھان یا سکریٹری کے توسط سے براہ راست نہ دے کر مستفیدین کے کھاتوں میں ڈالنا شروع کیا مگر غبن کرنے والے تو راہیں نکال ہی لیتے ہیں سو انہوں نے یہاں بھی راہیں نکال لیں۔جو لوگ پہلے ضرورت سے زیادہ جاب کارڈ بناکر پیسے نکالتے تھے، اب وہ مستفیدین کا ہی استعمال کرنے لگے اور اس میں انہیں بھی شریک کرنے لگے۔
کہتے ہیں غربت لالچ کو جنم دیتی ہے، اسی غربت نے چند پیسوں کے لالچ میں عوام کو بھی شریک جرم کرلیا۔یہ کام آج بھی ہو رہاہے جس میں حکومت کے کارندے ہی شامل ہوتے ہیں۔حکومت کو ان لوپ ہولس کو بند کرنے کی جانب توجہ دینا چاہیے تھا مگر اس نے ایسا نہ کرکے اس کے بجٹ میں ہی تخفیف کردی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت بدعنوانی کی راہیں بند کرے، ایک ایسی اولوالعزم اسکیم جس نے گزشتہ 20 برسوں میں ہندوستان کے سب سے مفلوک الحال اور غربت زدہ عوام کی قوت خرید میں اضافہ کیا، اس کے دائرہ کو سمیٹنے کے بجائے اس میں توسیع پر غور کرنا چاہیے۔ حکومت کو یہ بھی معلوم ہے کہ دیہی علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر میں سب سے زیادہ کردار اسی اسکیم نے ادا کیا ہے۔گاؤں کے اندر گلیوں کی تعمیر ہوں یا کھیتوں تک پہنچ کے لیے چک روڈ اور لنک روڈ یا پھر آبپاشی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ٹیوب ویل اور اس سے وابستہ زیر زمین نالیوں کی تعمیر، گاؤں کے اندر و باہر تالاب اور آبی ذخائر کی کھدائی اور ان کی تجدید ان سب میں اسی اسکیم سے وابستہ مزدوروں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔کسی بھی اسکیم کو چلانے کے لیے سب سے پہلے بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے، جس اسکیم کا بجٹ جتنا زیادہ ہوگا اس کا دائرہ بھی اتنا ہی وسیع ہوگا۔اس لیے حکومت کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ اسکیم سماج کی معاشی کفالت کے ساتھ ہی دیہی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں اپنا نمایاں کردار ادا کرتی رہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS