ساور کر نے کبھی ہندوتو کی واضح تشریح نہیں کی

0

یوگیندر یادو
سیاسی پروجیکٹ جس کو ہم ہندوتو کہتے ہیں، بنیادی تضادات کا شکار ہے۔ ہندوتو ایک طرف اپنے آپ کو سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتا ہے جبکہ دوسری طرف اس کے عمل سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ کچھ طبقات کو الگ کر کے چل رہا ہے۔ اخلاقی اور ثقافتی طور پر اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لیے وسیع تر بنیادوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ تاکہ وہ ہندوستان کی وسیع تر تہذیبی وراثت پر اپنی دعویداری ثابت کرسکیں۔ پھر بھی اس کی سیاسی مجبوریاں ایسی ہیں جو اس کو تنگ ذہنی کی طرف دکھیلتی ہیں تاکہ وہ ایک ایسے سیاسی طبقے یا اکثریت پر مبنی طبقے کو وضع کرسکے جن کو ہم مذہبی طور پر غالب طبقہ بنا کر پیش کرسکیں اور جنہیں ہندو کہتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ بچا ہے علاوہ اس کے ہم اخلاقی کھوکھلے پن اور یا حق پسندی کی مسلسل مخالفت پر مبنی اس سیاست جس پر بی جے پی اور اس کے حلیف عمل پیرا ہیں۔ وینا یک دامودر ساورکر کی زندگی پر مبنی ایک انتہائی اور غیر جانبدارانہ سوانح عمری سامنے آئی ہے جو ہم کو اس بات کے لیے قائل کرتی ہے کہ ہم ہندوتو پر انتہائی سنجیدگی سے غور کریں اور اس کے نکات کو سمجھیں۔ ایسا کرنے میں اس کتاب میں کچھ نظریاتی کنفیوزن سامنے آئے ہیں اور کچھ تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش اور سیاسی حکمت عملی ہے جو کہ سامراج واد اور اخلاقی بنیادوں پر تشدد کو اپنی قدیم فکری وراثت سمجھتی ہے۔
سب سے پہلے ہم کو بنیادی تضادات کو سمجھنا ہوگا۔ تمام قوم پرستی پر مبنی نظریات کی طرح راشٹریہ سویم سویک سنگھ( جس کو ہم پہلے ہندو مہا سبھا کے نام سے جانتے تھے۔)تہذیبی اور سامراج واد سے قبل کے ہندوستان پر مبنی ہے اور اس کی بنیاد وہ قوم پرستی ہے جوکہ مدتوں سے چلی آرہے ہیں۔ اس نظریاتی پروجیکٹ میں بظاہر دو مشکلات ہیں۔ اگر آپ ہندوستان کی بحیثیت قوم تعریف کریں گے تو اس میں آپ کو تمام ثقافتوں ، فرقوں کو شامل کرنا ہوگا جوکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار پر قابض ہونے سے قبل موجود تھے۔ ہندوستان کو بحیثیت قوم بڑی تہذیبوں ، فرقوں اور مذاہب پر مبنی ہونا چاہیے، جبکہ ہندوئوں میں سکھوں ، جینیوں اور بودھوں کے علاوہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھی شامل کرنا چاہیے جوکہ سامراج واد سے بہت پہلے سے ہندوستان میں رہ رہے تھے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پرانے جو آج کے ہندو مت سے قبل کے ہیں کیا ان کو آج کی قوم پرستی میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ بہت زیادہ سنگین ہے اگر ہم آج خط کھینچ رہے ہیں یا خطے امتیاز کھینچ رہے ہیں تو ہمیں ایک پاکیزہ اور برائیوں سے پاک قوم پرستی وضع کرنی پڑے گی اوراس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھی شامل کرنا پڑے گا اگر یہ خط بہت پہلے قیام کیا گیاتھا۔ اس سے ہم کو ہندوئوں کو نکالنا پڑے گا۔ مگر یہ دونوں نظریاتی موقف ان کے سیاسی پروجیکٹ کو شکست دینے والے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان کی قوم پرستی کو ہم کیسے واضح کریں جو کہ ان دونوں انتہائی سخت موقف رکھنے والے زمروں سے آزاد ہو، ساور کر کا ہندوتو کا نظریہ اس چیلنج کے جواب میں آنے والا ایک منفرد یا الگ جواب ہے۔ اس نظریہ میں تمام چیزیں آتی ہیں جس میں شاعری، ڈرامہ، تاریخ اور دیگر علوم ہیں، جبکہ زبانوں کے معاملوں میں مراٹھی، انگریزی اور جغرافیائی اعتبار سے لندن ، انڈومان اور مہاراشٹر بھی شامل ہیں اور اس تشریح میں وہ سیاسی ادوار بھی آجائیں گے جن کو ہم الگ الگ ادوار- گاندھی سے قبل،گاندھیائی اور گاندھی کے بعد میں شامل کرسکتے ہیں۔ یہ ہندوستان کی قومیت اور مہاراشٹر اور اپنے بارے میں بھی تاریخ لکھنے کی کوشش ہے۔ اس پورے ایجنڈے میں ہندوتو کے دفاع کی کوشش ہے۔
یہ وہ سوتر دھار ہے جو کہ ہندوتو اور تشدد کو ملاتا ہے۔ کتاب ہندوتو ا آئینہ وائیولینس ساور کر اینڈ پالیٹکس آف ہسٹری۔(ہندوتو اور تشدد وی ڈی ساور کر اور تاریخ پر سیاست) یہ کتاب وینایک چترویدی کی ہے کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ ان دونو ں ناموں میں پہلا نام ساور کر یکساں ہے یعنی جس کے بارے میں لکھا گیا وہ اور مصنف ان کا پہلا نام ایک ہی ہے۔ مصنف جن کا نام بھی ساور کر ہے (مصنف کا تعلق آر ایس ایس کے خاندان سے نہیں ہے)یہ نام مصنف کے طبیب ڈاکٹر دتیہ تریہ سدا شیو پرچورے نے رکھا تھا۔ نام رکھنے والے ڈاکٹر دتیہ تریہ سدا شیو پرچورے یہ مہاتما گاندھی کے قتل میں ملزم بنائے گئے 9 افراد میں سے ایک ہیں اور یہ وہی سب لوگ ہیں جو کہ بچکانہ طریقے سے بولے گئے جھوٹوں کی بنیادوں پر بچ نکلے۔ کتاب کے مصنف اپنے نام رکھنے کے معاملے میں ایک دلچسپ کہانی بتاتے ہیں جو ان کے سامنے بڑے ہونے کے بعد آئی تھی۔ ان کو اس کہانی کا علم جب ہوا جب پرچورے کی موت واقع ہوگئی۔ یہی وہ ایک تعلق ہے جو کتاب کا لہجہ طے کرتا ہے۔ یہ کتاب کسی بڑی محترم شخصیت پر لکھی گئی اس کی سوانح عمری نہیں ہے۔ بلکہ یہ وکرم سمپت کی دو جلدوں پر مبنی اس کتاب سے بالکل جداگانہ ہے جو کہ اپنی علمیت کی وجہ سے نہیں بلکہ خیانت کی وجہ سے خبروں میں رہی۔ اس سوانح عمری میں وینایک چترویدی نے اس موقف کو بھی اختیار نہیں کیا جوکہ رد کرنے اور انتباہ کی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے سیکولر تاریخ دانوں اور مبصرین نے اختیار کیا ہے۔ وہ کافی محتاط ہیں وہ اس نوجوان کی طرح ہیں جو کہ بہت کچھ جاننا چاہتا ہے مگر وہ ساور کر پر کوئی فیصلہ صادر نہیں کررہے ہیں۔ وہ اس مسئلہ پر بہت زیادہ غور وفکر بھی نہیں کرتے ہیں۔ وہ ساور کر کے نظریات کے تضادات کو گہرائی سے دیکھتے ہیں۔ مگر ان کی علمیت او رمحنت ساور کر کے مضمون کو ایک دھاگے میں پروتی ہے جس کے کئی رنگ ہیں اور وہ اس طرح ایک مکالمہ ترتیب دیتے ہیں۔
مصنف نے اپنی کتاب پر فوکس کیا ہے وہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس کتاب میں وہ ساور کرکی شخصیت سے وابستہ تنازعات سے متاثر نہیں ہوئے جوکہ اکثر ہیڈ لائنس بنتے رہے ہیں۔ کیا وہ ویر تھے یا مہاویر ۔ کیا وہ اپنی سوانح عمری لکھتے وقت اپنے آپ کو پروموٹ کررہے تھے اور یا کسی فرضی نام سے اپنی شخصیت پر کتابیں لکھوا رہے تھے؟ کیا وہ براہ راست مہاتما گاندھی کے قتل میں ملوث تھے۔ مجموعی طور پر چترویدی ساور کر کی حالت پر ایک متوازن موقف اختیار کررہے ہیں۔ وہ آج کے دورکی سیاست کی عینک سے نہیں دیکھ رہے ہیں۔ 481صفحات پر مشتمل یہ کتاب ساور کر کے سیاسی نظریات پر مشتمل ہے ناکہ ان کے سیاسی طور طریقوں پر ۔
ساور کر کو کیا حل ملا
تو یکھنا یہ ہے کہ ساور کرنے اپنے نظریاتی تضادات کو کیسے حل کیا۔ اپنی زندگی کے پہلے دور میں ان کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں پیش آئی تھی۔ ساور کر کی پہلی بڑی کتاب 1857کے غدر پر تھی انہوںنے بتایاہے کہ یہ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی تھی۔ اس کتاب میں وہ قوم پرستی میں سب کو شامل کرنے والے موقف کے حامل لگتے ہیں۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ : تو ہم کو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان کی پرانی مخاصمت کوکے ماضی میں ترک(دفن) کردینا چاہیے۔ ان کا موجودہ رشتہ حکمراں اور رعایا ، غیر ملکی یا مقامی نہیں بلکہ برادرانہ ہے اور ان کے درمیان صرف ایک ہی فرق ہے جو مذہب کا ہے۔ ان کے نام الگ الگ ہیں مگر وہ سب ایک ہی ماں ہندوستان کے بچے ہیں۔ لہٰذا ہندوستان دونوں کی مشترکہ ماں ہے۔ وہ دونوں خونی بھائی ہیں۔ ساورکر آگے کہتے ہیں کہ ہندوئوں کا مسلمانوں کے تئیں نفرت رکھنا غیر مناسب اور احمقانہ ہے۔ مگر انڈومان میں سزاکے دن کاٹنے کے دوران ان کے نظریات میں تبدیلی آگئی۔ وہ بالکل بدل چکے ہیں۔ ان کی کتاب Essentials of Hinduvaجو کہ پہلی مرتبہ 1923میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں انہوںنے ہندو قوم پرستی کے نظریات کی بنیاد رکھی۔ وہ اس موقف پر آخری وقت تک قائم رہے۔
انہوںنے ہندوئوں کے مسائل کو حل کرنے کاجو فارمولہ پیش کیا تھا وہ سیاسی پروجیکٹ پر مبنی تھا۔ ہندوازم پر عمل کرنے والوں کو صرف ہندو قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ یہ نظریہ مغرب کے نظریہ مذہب کے آگے مذاق بن کر رہ جائے گا اور اس نظریہ سے سکھ ازم ، جین مت، بودھ دھرم بھی خارج ہوجائے گا۔ ساور کر کا کہنا ہے کہ اگر آپ ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں آپ کی جنم بھومی (مادر وطن)اجداد کی زمین اور پنے بھومی ہندوستان ہے تو آپ ہندو ہو۔ مادر وطن ایک جغرافیائی اکائی ہے۔ جس میں تمام نسلوں، مذاہب اور فرقے کے افراد شامل ہیں۔ اجداد کی سرزمین اس نظریہ کو تنگ بناتی ہے اور ان لوگوں کو او ر فرقوں کو ہی شامل کرتی ہے جو کہ ایک دوسرے کے خون شریک لوگ ہیں اور اس نظریہ میں وہ لوگ باہر نہیں ہیں جو بعد میں مسلمان یا عیسائی یا ہوگئے۔ لہٰذا ساور کر کا آخری موقف ہے کہ وہ لوگ جو اس سرزمین کو مقدس سمجھتے ہیں وہی یہاں کے ہیں ناکہ مکہ یا یروشلم کو مقدس سرزمین سمجھنے والے ۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ لوگ جو کہ اس جغرافیائی اکائی میں ہندوئوں کے آنے سے پہلے تھے، ان کا کیا ہوگا؟ یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ ساور کرنے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ ہند آریائی اور ویدک کلچر ہندوستان میں لائے تھے اور وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ہندو کالی چمڑی والے لوگ نہیں تھے۔ وہ اس معاملہ میں بالکل واضح موقف رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوہی یہاں کے مقامی لوگوں پر فاتح تھے۔ مگر بعد میں وہ ہندو کلچر میں شامل ہوگئے۔ اس پر نا کوئی بغاوت ہوئی تھی نہ کوئی ناراضگی ۔ اب سب ہندو ہوگئے ہیں اور وہ تمام لوگ ہندوستان کے باہر کے تھے اور بعد میں ہندو کلچر کے اثر میں آگئے۔ ساور کر برٹش سامراج کے خلاف تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سامراج وادی یوروپی تھا وہ اس لیے اس کے خلاف نہیں تھے کہ وہ سامراج واد تھا۔ وہ ہندو سامراج واد کی توسیع کے حامی تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نظریہ مربوط ہے شاید نہیں ۔ یہ کتاب ثابت کرتی ہے کہ ساور کر نے کبھی بھی ہندوتو کی واضح تشریح پیش نہیں کی اس کے بجائے وہ تاریخ کا سہارا لیتے رہے۔ وہ تاریخ کو مجموعی طور پر دیکھنے کے حامی تھے۔ تاکہ وہ ہندو تو کے نظریہ کو ثابت کرسکیں کہ ہندوتو کیا ہے؟ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ان کی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی یہ بڑی کوشش درست ہے۔ ہندوستان کا کوئی بھی سنجیدہ تاریخ داں ساور کرکے حواشی اور نکتہ سے نکتہ ملانے والے نظریات سے متفق نہیں ہے۔ خاص طور پر وہ تاریخ داں جوکہ آدیواسی اور دراوڑ تاریخ کو سنجیدگی سے دیکھتے ہیں۔
کیا ان کے نظریات اخلاقی معیار پر کھرے اترسکتے ہیں۔ شاید اس وقت تک نہیں جب تک کہ اس بات کی وضاحت ہوجاتی کہ انہوںنے ہندوئوں وادیوں کو جو رعایت دی ہے ۔ کیا اس رعایت کو کیا مسلم حملہ آوروں اور برطانوی سامراج وادیوں کو نہیں دیا جاسکتا ہے۔ مگرہندوتو والوں کی جذباتی اپیل صرف ان سب ٹائٹلز تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہندوتو کی سیاست کی کوئی دانشوارانہ اساس نہیں ہے۔ آپ بنیادی تضادات پر بہت کچھ لکھ سکتے ہیں۔ وہ ان تضادات کو ختم نہیں کرسکتے ہیں۔ آپ اپنے تضادات کے علاوہ کسی چیز سے بھی ہندوستان کی تہذیبی وراثت کو اپنی زد میںنہیں لے سکتے ہیں۔
کیا وینایک دامودر ساورکر نے اپنے نظریات اور واقعات کو واضح کیا ہے؟ وہ ہندوتو کا نظریاتی پروجیکٹ جس میں کچھ لوگ باہر کردیے گئے ہوں، جس میں غصہ ، نفرت، شدت پسندی ہو اور تشدد کو مہین لبادہ میں پیش کیا جا سکتا ہو۔ اس معاملہ میں وینایک چترویدی کوئی براہ راست استدلال نہیں دیتے ہیں مگر انہوںنے اس سوانح عمری میں جو مواد فراہم کیا ہے وہ ایسا ہے کہ اس کو ضرور پڑھا جائے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS