پڑوسیوںکی مدد کرنا مذہبی فریضہ بھی ، اخلاقی اور سماجی فریضہ بھی۔ ہندوستان ماضی قریب سے اپنے ہمسایوں کی مدد کرتا رہا ہے۔ آزادی کے بعد سیاسی و جغرافیائی طورپر کچھ حالات میں تبدیلی ضرور آئی تھی ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاستدانوں کے بیشتر اقدامات سیاسی پس منظر کے حامل ہوتے ہیں ، اس کے فائدے فوری حاصل ہوں یا مستقبل میں اس کا اندازہ فائدہ کے حصول پر منحصر ہوتا ہے۔ حکومت ہند نے کورونا سے تحفظ کی ویکسین تیار کرکے نہ صرف اپنے ملک کے عوام کے لیے اسے استعمال کیابلکہ پڑوسی ممالک کو بھی دوستانہ طور پر ارسال کی۔یہ دوستی کا تقاضہ بھی ہوتا ہے کہ اپنی ضرورت کے باوجود اپنے پڑوسی و دوست کی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے اس کی مدد کی جائے ۔ اس کی تنقید و تائید کرنے والوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں، سیاسی نظریے ہیں، علاقائی فائدے ہیں سب اپنی جگہ پر مسلم ہوسکتے ہیں، لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ جب ہم دوسروںکی مدد کرتے ہیں تو ہماری ضرورت پر دوسرے مدد کرنے آجاتے ہیں۔ ایسا ہی کورونا وبا کے عروج پر جب ملک کے بیشتر علاقوں، ریاستوں میں اچانک آکسیجن کی کمی ہوگئی اوربین الاقوامی سطح پر اس کی خبریں عام ہونے لگیں، حکومت و سربراہان مملکت پر تنقید ہونے لگی، جن ممالک کی ہندوستان نے مدد کی تھی ان پر انگشت نمائی ہونے لگی کہ اب وہ ہندوستان کی مدد کے لیے نہیں آگے آرہے ہیں، لیکن جغرافیائی طورپر دور لیکن دلوں کے قریب رہنے والے سعودی عرب نے دوستی کا حق و فرض ادا کرتے ہوئے سب سے پہلے آکسیجن بھیجی۔ اسی طرح آسٹریلیا و دیگر ممالک نے مدد کے ہاتھ آگے بڑھائے۔ یہ اسی وجہ سے ممکن ہوا کہ ہندوستان نے دوسروںکی مدد کی اور دوردراز کے ممالک نے ہندوستان کی۔ سعودی نے اس توقع کے ساتھ ٹینکر بھیجے کہ یہ آکسیجن بلا تفریق ضرورت مندمریضوں کو فراہم کی جائے گی اور ان کی جان بچانے میں معاون ہوگی۔ سعودی عرب سے آئے ہوئے آکسیجن ٹینکروں پر سعودی عرب کا قومی پرچم آویزاں تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہندوستان سے بھیجی گئی کورونا ویکسین پر ہندوستان کا پرچم آویزاں تھا۔ ان ٹینکروں کے ہندوستان آنے پر انہیں ہندوستانی رنگ دینے کی کوشش کی گئی ، سعودی عرب کے قومی پرچم پر ریلائنس فائونڈیشن کے بینر چسپاں کردئے گئے۔ اس کے ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سعووی شیخ نے ٹوئٹ بھی کیا کہ کوئی بینر، پرچم لگا دیا جائے کوئی فرق نہیں پڑتا بس ضرورت مند مریضوں تک آکسیجن پہنچنی چاہئے تاکہ ان کی جان بچائی جاسکے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ پورے ملک میں اس قدر لوگوں کے بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ 5جی کی ٹیسٹنگ بتائی جانے لگی۔ اس ضمن میں طرح طرح کے نظریہ اور سائنسی اشکال پیش کئے گئے۔ اس میں دو افراد کے ٹیلی فونک گفتگو کا ایک آڈیو بھی وائرل ہورہا ہے۔ جس میں ایک شخص دوسرے کو بتارہا ہے کہ لوگوں کے کثیر تعداد میں بیمار ہونے کی وجہ کورونا کا اثر نہیں بلکہ 5G نیٹ ورک کی ٹیسٹنگ ہے۔ یہ ٹیسٹنگ پہلے خلیج بنگال سے شروع ہونے والی تھی، چونکہ وہاں اسمبلی کے انتخابات ہورہے تھے ،لہٰذا مہاراشٹر کے ’مڈآئی لینڈ‘ سے ٹیسٹنگ کا آغاز ہوا۔ اسی وجہ سے سب سے پہلے مہاراشٹر اور ممبئی میں مریضوں کی تعداد میں ایک دم اضافہ ہوگیا۔ اس کادائرہ بڑھنے سے مدھیہ پردیش اور اترپردیش میں مریضوں اور اموات دونوںمیں اضافہ ہوتا چلاگیا۔ آڈیو میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ ہفتہ دس دن بعد یہاں اثر کم ہونے لگے گا اور اس کے بعد بہار ،بنگال، آسام اور پہاڑی علاقوں میں پھیل جائے گا۔ یہ آڈیو وائرل ہونے کے بعد حکومت اترپردیش کی جانب سے اس کی تردید کی گئی اور ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل نظم و نسق نے اس کی تردید کرتے ہوئے افواہ پھیلانے والوںکے خلاف سخت کارروائی کرنے کا انتباہ دیا۔ یہ آپسی گفتگو پر مبنی آڈیو تھا جس کی فوری تردید کرکے افواہ پھیلانے والوںکو انتباہ دیا گیا، لیکن سعودی عرب کے آکسیجن ٹینکروں پر ریلائنس فاؤنڈیشن کے بینر پلیکس لگائے جانے کے ویڈیو وائرل ہونے پر کسی طرح کی تردید نہیں کی گئی۔ سعودی شیخ کے ٹوئٹ کے بعد بھی اگر حکومتی سطح سے کوئی تردید نہیں کی گئی تو اس کو تائید سمجھا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ سعودی عرب نے جو مدد حکومت ہندوستان اور یہاںکے عوام کے لیے کی ہے اسے حکومت کی جانب سے اپنے قریبی سرمایہ دار ریلائنس فاؤنڈیشن کے نام سے منسو ب کرکے عوام کو بھی دھوکہ دیا جارہا ہے، سعودی عرب کی مدد کو عوام سے چھپایا جارہا ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اسے جو مدد مل رہی ہے وہ ہندوستانی قوم کے لیے ہے اور وہ دوسروں کی جو بھی مدد کرتا ہے وہ ہندوستانی قوم کی جانب سے کرتا ہے تو پھر کسی ملک کی مدد کو تسلیم کرنے کے بعد اسے کسی دوسرے سے منسوب کرنے کا مقصد کیا ہے؟بہر حال یہ سعودی عرب کی دریا دلی ہے۔
[email protected]
سعودی عرب کی دریادلی!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS