معیشت کو بہتربنانے کے لیے سیاحتی شعبے کوفروغ دینے اور 2030ء تک آمدنی کو مجموعی قومی پیداوار کے 10 فیصد کے برابر کرنے کاہدف
ریاض (ایجنسیاں) : تیل برآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب نے اپنے ہاں کئی محلات کو لگژری ہوٹلوں میں بدل دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ فیصلہ اس عرب بادشاہت کے ریاستی ملکیت میں کام کرنے والے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ نے کیا ہے۔سعودی دارالحکومت ریاض سے جمعرات 20 جنوری کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس خلیجی ریاست کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد ملک میں ہوٹلنگ کے شعبے میں میزبانی کی اعلیٰ ترین پرتعیش سہولیات کی فراہمی ہے۔ اس مقصد کے لیے ملک میں ایک نئی فرم بھی قائم کر دی گئی ہے۔پی آئی ایف کے بیان کے مطابق اس نئے سعودی ادارے کا نام بوتیک گروپ رکھا گیا ہے، جو بندرگاہی شہر جدہ کے الحمرا پیلس اور دارالحکومت ریاض کے طویق پیلس اور ریڈ پیلس نامی محلات کو انتہائی پرشکوہ ہوٹلوں میں بدل دے گا۔ لگژری ہوٹلوں میں بدل دیے جانے کے بعد ان سعودی محلات میں مہمانوں کے رہنے کے لیے 224 پرتعیش کمرے، سوٹس اور ولاز دستیاب ہوں گے۔سعودی عرب، جو تیل برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور جس کی معیشت کا اب تک زیادہ تر انحصار تیل کی برآمد پر ہے، چاہتا ہے کہ وہ اپنے ہاں سیاحت کو فروغ دیتے ہوئے ملکی معیشت کو اتنا متنوع بنا لے کہ 2030ء تک اس کو سیاحتی شعبے سے ہونے والی آمدنی بڑھ کر مجموعی قومی پیداوار کے 10 فیصد کے برابر ہو جائے۔سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ان کے 32 سالہ بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سال شاہی خاندان کی جانب سے رائج برسوں پرانے قوانین، سماجی روایات اور کاروبار کرنے کے روایتی طریقوں میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ دونوں شخصیات اب اس ملک کی نوجوان نسل پر انحصار کر رہی ہیں جو اب تبدیلی کی خواہش کر رہے ہیں اور مالی بدعنوانیوں سے بھی تنگ ہیں۔سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے مطابق ان 3 محلات کا پرتعیش ہوٹلوں میں بدل دیا جانا اس عمل کا صرف پہلا مرحلہ ہو گا، جس کے بعد وہاں صحت اور تفریح کی متعدد سہولیات مہیا کیے جانے کے علاوہ لگژری ریستوراں بھی کھولے جائیں گے۔اس عوامی سرمایہ کاری فنڈ کے پاس 480 بلین ڈالر کے برابر مالی وسائل موجود ہیں اور اس فنڈ کے گورنر یاسر الرمیان کا کہنا ہے کہ بوتیک گروپ کے نام سے اس فنڈ کے تحت ایک نئے ادارے کا قیام ظاہر کرتا ہے کہ اس مالیاتی ادارے کے پاس ’موجود وسائل کو کس طرح ملکی معیشت کے ان حصوں کی ترقی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جن کا تیل کی صنعت سے کوئی تعلق نہیں اور جن میں ترقی کے بیتحاشا امکانات موجود ہیں۔‘