سرینگر(صریر خالد،ایس این بی):فاروق احمد کا کہنا ہے کہ چونکہ ابھی بالی ووڈ کی سابق اداکارہ ثنا خان اور ان کے شوہر مفتی انس بھی کشمیر میں ہنی مون منارہے ہیں اس سے ایک اچھا پیغام جاتا ہے اور کشمیر کی سیر کو آنے کے خواہشمند لوگوں کو حوصلہ ملتا ہے۔ محکمۂ سیاحت کے افسران کا ماننا بھی ہے کہ ثنا خان کے دورۂ کشمیر سے یہاں کی سیاحتی صنعت کو فائدہ مل سکتا ہے۔ایک افسر نے کہا ’’ظاہر سی بات ہے کہ جب مشہور شخصیات کسی علاقے میں آتی ہیں اور انہیں لیکر میڈیا میں سُرخیاں آتی ہیں تو اس علاقے کی شہرت کو جِلا تو ملتی ہی ہے‘‘۔ محکمۂ سیاحت کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا کہ انہیں بھی ایک اچھا سیاحتی سیزن آنے کی امید ہے جس کے لئے انہوں نے سبھی لازمی تیاریاں مکمل کی ہوئی ہیں۔انہوں نے کہا ’’عام حالات میں کشمیر میں سیاحوں کو ٹھہرنے کی جگہ بھی نہیں ملتی تھی اور ابھی بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے سبھی سرکاری اور نجی ہوٹل خالی پڑے ہوئے ہیں۔پہلے سیاسی افراتفری اور اب کووِڈ کی وجہ سے ہمیں بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن اب امید ہے کہ اچھا وقت شروع ہونے والا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سرمائی کھیل سیاحوں کیلئے ایک بڑی دلچسپی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ گلمرگ میں منعقد ہونے والے کھیل مقابلوں کو دیکھنے کیلئے زیادہ سے زیادہ لوگ آجائیں۔
سیاحوں کیلئے ٹیکسی چلانے والے فاروق احمد نامی ایک ڈرائیور نے سیاحتی سرگرمیوں کی بحالی کی امید جاگنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’آپ سمجھ بھی نہیں سکتے ہیں کہ سیاحتی سرگرمیوں کے ٹھپ ہونے سے کتنے گھروں میں فاقی کشی کے حالات ہیں۔یقین مانئے کہ میں نے قرضے پر گیارہ لاکھ روپے کی گاڑی لی ہوئی ہے اور سیاحوں کی غیر موجودگی میں میں اس گاڑی میں کپڑوں کی پھیری لگانے پر مجبور ہوں‘‘۔ ایک آہ بھرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس گاڑی میں وہ سیاحوں کو خوبصورت سیاحتی مقامات پر لیجاتا تھا اسی گاڑی میں انہیں کپڑے اور دیگر معمولی چیزیں بیچنے جانا پڑتا ہے۔لہٰذا جب سیاحت کی بحالی کی خبریں آتی ہیں تو ہمیں بہت اچھا لگتا ہے‘‘۔
جموں کشمیر،باالخصوص وادیٔ کشمیر، میں سیاحتی شعبہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ روزگار کے وافر وسائل سے محروم اس علاقہ میں آبادی کا بڑا طبقہ سیاحت سے وابستہ رہتے ہوئے ہی روزگار کماتا آرہا ہے۔سرینگر کے ایک معروف ہوٹل کے منیجر نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں انکے یہاں بڑے دنوں بعد سیاحوں کے مختصر گروہوں کا قیام ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ کاروباری لحاظ سے یہ کوئی بہت بڑا یا غیر معمولی موقع تو نہیں تھا لیکن چناچہ اس سے انکے کام کا احیاٗ ہونے لگا ہے لہٰذا وہ ان چند مہمانوں کی میزبانی کرکے بہت خوش ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ ان دنوں کشمیر کی سیر کو آئے یا آنے والے بیشتر سیاح تامل ناڈو یا مغربی بنگال سے ہیں۔ ایک اور ہوٹل کے مالک نے انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر بتایا ’’ہم نے بڑے دنوں بعد چند ایک سیاحوں کو ہمارے یہاں قیام کرتے دیکھا ہے۔سچ پوچھئے تو ہم عرصہ سے بیکار بیٹھے ہیں یہاں تک کہ ہم نے اپنے بیشتر ملازمین کو رخصت کیا ہوا ہے کیونکہ ہم اپنا خرچہ بھی نہیں نکال پارہے ہیں۔البتہ امید ہے کہ ابھی سیاحوں کا آنا شروع ہوگا اور اس سردی کے دوران ہم اچھا کام کرینگے‘‘۔انہوں نے کہا کہ کرسمس اور نئے سال کے موقعہ پر ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا کشمیر میں جو رش لگا رہتا رہا ہے وہ امید کرتے ہیں کہ اس سال بھی اسی تعداد میں سیاح آکر کشمیر کے قدرتی حسن میں چار چاند لگائیں گے۔
جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والی آئینِ ہند کی دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد پہلی بار کشمیر میں سیاحتی صنعت میں نئی جان پڑنے کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔متعلقہ حکام اور سیاحتی شعبہ سے وابستہ رہکر روزی روٹی کمانے والوں کا کہنا ہے کہ وہ مدت بعد سیاحتی سرگرمیوں کی بحالی کے آثار دیکھ رہے ہیں اور انہیں امید ہے کہ رواں سردیوں کے دوران بڑی تعداد میں سیاح زمین پر جنت کہلائے جانے والے اس علاقہ کا رُخ کرینگے۔
سرینگر میں مشہور ڈل جھیل کنارے واقع ہوٹلوں کے عملہ کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں مدت بعد انہیں کئی مہمانوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ہے اور وہ اس بات پر نہایت خوش اور پُرامید ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ حالیہ دنوں میں سیاحوں کی کچھ مختصر ٹکڑیاں آکر کشمیر میں چھٹیاں گذار کر گئی ہیں جبکہ کشمیر کی سیر سے متعلق سیاحوں کا مختلف ٹراول ایجنٹوں سے رابطہ بھی ہونے لگا ہے۔
5 اگست 2019 کو دفعہ 370 کی تنسیخ سے قبل حکومت نے اچانک ہی سبھی سیاحوں کو جموں کشمیر سے چلے جانے کیلئے کہا تھا اور پھر کئی ماہ تک یہاں کرفیو نافذ کئے رکھا گیا تھا اور ٹیلی فون سے لیکر انٹرنیٹ تک مواصلات کی سبھی سہولیات بند کردی گئی تھیں۔سالِ رواں کے اوائل میں سیاحتی سرگرمیوں کی بحالی کی امید کی ہی جانے لگی تھی کہ عالمی وبا کووِڈ19-کی وجہ سے سب کچھ تتر بتر ہوگیا اور لوگ سیاحت ہی نہیں بلکہ ضروری اسفار ترک کرنے پر بھی مجبور ہوگئے۔
،ثناخان اور مفتی انس کے ہنی مون کا کشمیر کو بڑا فائدہ !سیاحتی صنعت میں دو سال بعد نئی جان پڑنے لگی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS