وبھوتی نارائن رائے
ہندوستانی معاشرہ کی بہت ساری کمیوں-کمزوریوں کے لیے ہم اکثر انگریزوں کو قصوروار قرار دیتے رہتے ہیں اور اس چکر میں بھول جاتے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر تو ان کے آنے کے بہت پہلے سے ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکے تھے۔ بدعنوانی انہی میں سے ایک ہے۔ یاد کیجیے کوی کالی دس کا کلاسیکی کام ’ابھی گیان شکنتلم‘ جس کا ایک کردار ماہی گیر شنکتلا کی انگلی سے پھسلی انگوٹھی نکل گئی مچھلی پکڑ کر بڑا خوش ہے اور اسے فروخت کرکے امیر بننے کے خواب دیکھ رہا ہے، تبھی ریاستی اہلکاروں کی نظر اس پر پڑجاتی ہے۔ اس غیرمتوقع حاصل دولت میں ان کا بھی حصہ ہے، یہ سمجھانے میں انہیں بہت وقت نہیں لگتا۔ یہ الگ بات ہے کہ کہانی میں کچھ ایسا موڑ آتا ہے کہ ان کی سودے بازی پروان نہیں چڑھ پاتی ہے اور ماہی گیر کو راجا کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔
انگریزوں کے حکمراں بننے کے بعد ایک بنیادی فرق نوکرشاہی کے کردار میں آیا کہ وہ قدمیں کافی بڑا ہوگیا اور حکومت ہر گاؤں تک پہنچ گئی۔ لیکن وسعت سے اس کے اصل کردار میں کوئی فرق پڑا ہو، ایسا نہیں لگتا۔ فرق صرف دونوں معاشروں کے اندرونی ڈھانچہ میں تھا۔ یہ فرق زبان میں آسانی سے پکڑ میں آجاتا ہے۔ نذرانہ، شکرانہ اور جبرانہ-ایسے ہی تین الفاظ ہیں جو ہمارے وقت اور زبان کے انتہائی پیارے پریم چند کی تخلیقات/کے ادب میں دیہی ہندوستان اور سرکاری سسٹم کے آپسی مکالمہ میں بھرپور استعمال ہوتے نظر آتے ہیں۔ انگریز کلکٹر یا کپتان کو علاقہ بڑے نواب یا زمیندار ڈالیاں سجا کر پہنچاتے تھے۔ ان میں عموماً موسمی پھل-پھول اور سبزیاں ہوتے تھے اور انہیں نذرانہ کہتے تھے۔ زراعت یا باغبانی کی پیداوار کے علاوہ شاذو نادر ہی کسی ڈالی میں کرنسی یا زیورات ہوتے۔ نذرانے کی ٹوکری قبول کرنے کے بعد صاحب بہادر پیش کرنے والوں کو شکریہ کہتا تھا، یہ اس کی ثقافتی تربیت تھی۔
ورن سسٹم میں یقین رکھنے والے ہندوستانی صاحبان نے حق کے ساتھ نذرانہ وصول شروع کیا۔ اسے لگتا تھا کہ اس نے دینے والے کا نذرانہ قبول کرکے اس پر احسان کیا ہے اور اس کے لیے دینے والے کو ہی شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ کسی احسان کے عوض میں تحفہ دیا گیا ہے، اس لیے لفظ بنا شکرانہ! لیکن جلد ہی سرکاری سسٹم نے اپنے ہر کام کی قیمت طے کردی اور اسے حاصل کرنا سرکاری اہلکار کا حق بن گیا اور اسے جبراً وصول کیا جاسکتا ہے، اس لیے زبان کو ایک نیا لفظ ملا-جبرانہ۔ نذرانہ سے جبرانہ تک کا ایک دلچسپ ثقافتی سفر ہے۔
مجھے کورونا کے دور میں یہ دیکھ کر ایک دلچسپ سا احساس ہو رہا ہے کہ ہر بحران کی طرح اس آفت میں گھرے انسانوں سے بھی زبردست وصولی کرنے میں بااختیار افراد نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ فرق اتنا آیا ہے کہ اب طاقت کے غیرسرکاری مراکز بن گئے ہیں۔ ریاستوں نے تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں خود کو سمیٹنا شروع کردیا ہے۔ ایک نیا نظریہ ڈیولپ ہوا ہے، جسے بازار کی خودمختاری کہتے ہیں اور ریاست نے کہنا شروع کردیا ہے کہ تعلیم یا صحت سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اب جبرانہ بازار کی طاقتوں نے وصول کرنا شروع کردیا ہے۔
تبدیلیوں کو پکڑنے کے لیے زبان ایک اچھا اوزار ہے۔ اب تو عوام بھی جبراً وصول کرنے والے کو پیشکش کرنے سے پہلے کہتے ہیں کہ اتنا تو آپ حق بنتا ہے۔ جب ’حق‘ سے زیادہ امید کی جاتی ہے، تبھی کوئی غیرمطمئن نظر آتا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہریانہ کے ایک زمینی حقیقت سے جڑے وزیراعلیٰ سے جب ان کے انتخابی حلقہ کے کسی کارکن نے شکایت کی کہ اس کے ٹیوب ویل کو بجلی کا کنکشن دینے کے لیے رشوت طلب کی جارہی ہے تو انہوں نے طلب کی گئی رقم شکایت دہندہ کو دیتے ہوئے کہا کہ جاؤ، اپنا کام کرالو۔ ظاہر تھا، وہ کسی کا حق نہیں مارنا چاہتے تھے۔ آخر اس انجینئر کی تعیناتی بھی تو انہوں نے جبرانہ وصول کرنے کے بعد ہی کی تھی۔
ایک صحافی دوست آج کل اپنے گاؤں میں گئے ہوئے ہیں، ان کے لحاظ سے زمین کی آمدنی سے جڑا ان کا کام بہت چھوٹا سا ہے۔ لیکن بہار کی زمینی زبان میں کرمچاری(ممکنہ لیکھ پال یا پٹواری) ایسا نہیں سوچتا۔ اس کا کچھ حق بنتا ہے، جسے صحافی صاحب اپنے منھ سے نہیں بول رہے اور وہ بھی کچھ ہچکچاہٹ اور کچھ خوف کی وجہ سے نہیں کہہ پارہا۔ کام تو تبھی ہوگا، جب اس کا ’حق‘ اسے مل جائے گا!
مجھے کورونا کے دور میں یہ دیکھ کر ایک دلچسپ سا احساس ہورہا ہے کہ ہر بحران کی طرح اس آفت میں گھرے انسانوں سے بھی زبردست وصولی کرنے میں بااختیار افراد نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ فرق اتنا آیا ہے کہ اب طاقت کے غیرسرکاری مراکز بن گئے ہیں۔ ریاستوں نے تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں خود کو سمیٹنا شروع کردیا ہے۔ ایک نیا نظریہ ڈیولپ ہوا ہے، جسے بازار کی خودمختاری کہتے ہیں اور ریاست نے کہنا شروع کردیا ہے کہ تعلیم یا صحت سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اب جبرانہ بازار کی طاقتوں نے وصول کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ مختلف بات ہے کہ وہ زیادہ بے لگام ہیں اور ان کی شرحیں بھی زیادہ ہیں۔ کورونا کے دور کی شروعات میں ہی اس کا تجربہ عوام کو ہوگیا، جب کسی بھی طرح سے گھر پہنچنے کو بے تاب اداس لوگ اپنی ساری سیونگ کو خرچ کرکے ہی بسوں میں لٹکنے کی جگہ پاسکے۔ جو بیمار پڑے، وہ اتنے خوش قسمت نہیں تھے، حکومت نے پہلے دور میں اپنی فتح کا اعلان کرنے کے بعد دوسرے دور میں انہیں مکمل طور پر بازار کے حوالہ کردیا۔ پھر ایمبولنس کی سواری سے لے کر بیڈ حاصل کرنے اور دوا یا آکسیجن تک جو جبرانے کا کھیل چلا، وہ شمشان گھاٹ پہنچ کر بھی ختم نہیں ہوا۔
اس بار شاید ملک نے ’جبرانے‘ کو پوری طرح سے قبول کرلیا تھا، اس لیے اس نے کسی طرح بڑبولے پن سے پرہیز کیا۔ گزشتہ مرتبہ تو پورے ملک کو مزدور سپلائی کرنے والے اترپردیش اور بہار نے دعوے کیے تھے کہ اب وہ اپنے مہاجروں کو دردر نہیں بھٹکنے دیں گے اور انہیں اپنے گاوؤں/شہروں میں ہی روزگار مہیا کرادیں گے۔ ان کے سیاسی لیڈروں نے اس بار یہ دعوے نہیں کیے۔ انہیں اس دوران اپنے دعوؤں کے کھوکھلے پن کا احساس ہوگیا کہ ان کی ریاستوں کی جبرانہ والی ثقافت ایسی کسی بھی اسکیم کو پروان نہیں چڑھنے دے گی، جس کے سبب مقامی سطح پر روزگار پیدا ہوسکیں۔ اس طرح سے اچھا ہی ہوا کہ حکومتیں اپنی جگ ہنسائی سے بچ گئیں اور مہاجر بھی غلط امیدوں میں نہیں پھنسے اور لاک ڈاؤن میں چھوٹ ملتے ہی اپنے اپنے ٹکٹ کٹاکر روزگار کی جگہوں کی جانب نکل پڑے۔
میں اپنے صحافی دوست کے لوٹنے کا انتظار کررہا ہوں۔ وہ لوٹیں، تو معلوم ہو کہ بغیر جبرانہ دیے وہ اپنی آبائی زمین کے کاغذات ٹھیک کراپائے یا نہیں؟ امید تو یہی ہے کہ نذرانے سے شروع ہوکر شکرانے ہوکر جبرانے تک پہنچی روایت ابھی بھی ان کے گاؤں میں برقرار ہوگی۔
(مضمون نگار سابق آئی پی ایس افسر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)