روس -یوکرین جنگ:امن مذاکرات

0

اسد مرزا

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے لفظی طور پر غزہ جنگ بندی کے لیے اپنے ایک شخصی منصوبے کو جس طرح نافذ کیا اور جس انداز میں اب وہ روس -یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات کے انعقاد کی کوشش کررہے ہیں، وہ امریکی مستقبل خارجہ پالیسی کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں وہ کس طریقے کی غیر سفارتی رخ اختیار کرسکتی ہے۔

اب تک دنیا کو مکمل طور پر غیر متوقع اور زیادہ آمرانہ امریکی خارجہ پالیسی کا مشاہدہ کرلینا چاہیے تھا، جس کا اشارہ ریاستہائے متحدہ کے 47 ویں صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔غزہ جنگ بندی کے منصوبے کے نافذ ہونے کے فوراً بعد ٹرمپ، جنھوں نے روس اور یوکرین تنازع کو امریکی صدارت سنبھالنے کے ایک دن کے اندر ہی ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، گزشتہ ہفتے تین سال پرانی جنگ کے خاتمے کے لیے ایک متنازعہ نئے امن منصوبے کی نقاب کشائی کی، جس میں یوکرین کو مذاکرات میں شامل نہ کرنے کے امکانات بہت قوی ہیں۔

گزشتہ بدھ کو روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ اپنی ٹیلی فونک کال کے بعد، انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ’بہت جلد‘ ملاقات کر سکتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے حکام یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے تحت بات چیت کے لیے سعودی عرب میں ملاقات کی تیاری کر رہے ہیں۔

جیسا کہ توقع کی گئی تھی، یوکرین نے فوری طور پر ان مذاکرات کو مسترد کر دیا، کیونکہ اس میں کوئی یوکرینی مذاکرات کار موجود نہیں ہوگا۔ ریاض میں ہونے والی بات چیت میں نہ تو یوکرینی اور نہ ہی یوروپی حکام حصہ لے رہے ہیں، حالانکہ اتوار کے روز امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے زور دیا کہ یوکرین اور یوروپ دونوں کو کسی بھی ’حقیقی مذاکرات‘میں شامل ہونا پڑے گا جو اس ملاقات کے نتیجے میں نکلے گا۔اتوار کو نشر ہونے والے این بی سی کے میٹ دی پریس پروگرام کے ساتھ ایک انٹرویو میں، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ وہ اپنے ملک کی شمولیت کے بغیر طے پانے والے کسی بھی معاہدے کو ’کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔‘ ’یہ یوکرین کی جنگ ہے، ہمارے خلاف جنگ ہے اور اس میںہمارا انسانی نقصان ہواہے،‘زیلنسکی نے یہ باتیں جمعہ کو میونخ سیکورٹی کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے کہیں تھیں۔

زیلنسکی نے ایک متحد یوروپی فوج کے قیام کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ براعظم یوروپ کو امریکہ کی بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی، بلڈوزنگ یعنی جارحانہ سلوک اور تمام طے شدہ اصولوں اور نظیروں کو تباہ کرنے کے اس کے جارحانہ منصوبوں کو دیکھتے ہوئے اپنی فوجی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا چاہیے۔

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یوکرین جنگ پر کلیدی بات چیت کے لئے مقام کے طور پر سعودی عرب کا انتخاب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مملکت 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد بننے والی قریبی پاریہ ریاست سے سفارتی طور پر کتنی دور آ گئی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ نئی ٹرمپ انتظامیہ نے بظاہر امریکی معیشت میں ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے MbS کو راغب کرنے کے لیے یہ قدم اٹھا یا ہے۔

بظاہر یہ پورا منصوبہ امریکہ کے یوروپی شراکت داروں پر حاوی ہوتا نظر آتا ہے، جنہوں نے امریکہ کے کہنے پر یوکرین کے لیے اپنی مالی اور فوجی مدد میں اضافہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایسا لگتا ہے کہ پورا طریقہ کار طے شدہ سفارتی عمل کو نقصان پہنچانے اور اس کی قیادت صرف ایک آدمی اور اس کے حواریوں کے ذریعے کی جائے گی۔یہاں تک کہ ریپبلکن قانون ساز بھی صدر ٹرمپ کی یوکرین کے مستقبل کے بارے میں روس کے مطالبات پر جھکنے کے لیے بظاہر آمادگی کے ضمن میں کوئی مؤثر ردعمل دینے سے ناکام ہیں۔ان کے رد عمل ان چیلنجوں کا اشارہ دیتے ہیں جن کا سامنا GOP یعنی کہ امریکہ کی سب سے پرانی سیاسی جماعت کے پالیسی سازوں کو کرنا پڑرہا ہے کیونکہ وہ اپنے پارٹی کے اہل کاروں اور عوام کو یہ سمجھانے سے قاصر ہیں کہ ٹرمپ نے یہ انوکھا منصوبہ ریپبلکن پارٹی کے قائدین، امریکی کانگریس اور امریکی سینیٹ کو شامل کرتے ہوئے کیوں نہیں لیا۔ مزید یہ کہ مجوزہ منصوبے کی تفصیلات ٹرمپ کے اپنے مشیروں نے افشاں کر دی ہیں جو کہ خارجی اصولوں کی سراسر خلاف ورزی ہیں۔ اس میں روس کی طرف سے غیر قانونی طور پر قبضے میں لیے گئے تمام علاقوں کی واپسی اور امریکہ کی حمایت یافتہ سلامتی کی ضمانتیں، ترجیحاً نیٹو کے ذریعے شامل ہیں۔

دریں اثنا نئے امریکی وزیر دفاع، پیٹ ہیگستھ نے اپنے نیٹو ہم منصبوں کو بتایا کہ امریکہ اب یوروپی سلامتی کو اپنی بنیادی ترجیح کے طور پر نہیں دیکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ یوکرین اپنی حفاظتی ضمانتوں کی توقع کر سکتا ہے لیکن یہ یوروپی ممالک فراہم کریں گے نہ کہ امریکہ۔برطانوی اخبار دی گارڈین کے لیے اپنے مضمون میں مرینا ہائیڈ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ پوتن کو بلاشبہ ٹرمپ کی طرف سے عزت کے ساتھ پیش آنے پر خوشی ہے۔ یقینی طور پر، یہ اسے یوکرین کی زمین کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرنے کی اجازت دے گا، لیکن یہ بھی امکان ہے کہ یوکرین اپنی افواج کو مغربی حمایت کے ساتھ دوبارہ تشکیل دے گا تاکہ بعد میں وہ دوبارہ لڑائی شروع کرسکے۔ مارینا نے مزید تبصرہ کیا ہے کہ روس کو سبسڈی دینے اور فوج کے زیر قبضہ علاقے، جن میں سے زیادہ تر تباہ کن لڑائیوں کے ایک سلسلے کی وجہ سے برباد ہو چکے ہیں اور ان کی تعمیر نو کے ساتھ ہی روس کو ایک طویل سرحد کا دفاع کرنے کی ضرورت ہوگی۔ٹرمپ نے ایک ہی جھٹکے میں امریکہ کے یوروپی اتحادیوں کو مکمل حقارت کے ساتھ چھوڑ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یوروپ نے بمشکل اپنی مایوسی کے ساتھ رد عمل ظاہر کیا ہے۔ یوروپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار کاجا کالس نے یوکرین کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یوروپی ممالک ہمارے امریکی اتحادیوں کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کے راستے پر بات کرنے کے منتظر ہیں۔‘‘ یعنی کہ اس ناروا سلوک کے باوجود یوروپ ابھی بھی امریکہ کے ساتھ آگے بڑھناچاہتا ہے۔

بظاہر پوتن ٹرمپ کے ساتھ ایک سربراہی ملاقات کا مزہ لینا چاہتے ہیں، ترجیحاً ماسکو میں، شاید مئی کے اوائل میں جب روس کے یوم فتح کی 80ویں سالگرہ کے پروگرام ماسکو میں منعقد کیے جائیں گے۔ اس نے طویل عرصے سے واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مشغولیت کی کوشش کی ہے جو یوروپ اور اہم طور پر یوکرین کو مؤثر طریقے سے سائیڈ لائن کرے گی۔

ایک سربراہی اجلاس اسے امریکہ کے برابر ایک عالمی طاقت کے طور پر روس کے پرانے مقام اور حیثیت کو عالمی سطح پر دوبارہ قائم کرنے میں مدد دے گا۔ یہ پوتن کے ذہن میں، 1945 میں روس کو اس قسم کی پہچان کی طرف واپسی ہوگی، جب جوزف اسٹالن نے یالٹا میں فرینکلن ڈی روزویلٹ کے ساتھ اقوام کی تقدیر اور یوروپ کی شکل کے بارے میں بات کی تھی۔

اخبار فنانشل ٹائمز کے لیے اپنے مضمون میں این کیرنن کا کہنا ہے کہ پوتن نے مطالبہ کیا ہے کہ کسی بھی جنگ بندی سے قبل ایک ایسے امن تصفیے پر اتفاق کیا جائے جس سے وہ یوکرین کو زیر کرنے کے اپنے جنگی مقاصد کو حاصل کر سکیں۔ یعنی کہ روس چاہتا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے روس کے لیے ایک یوروپی سیکورٹی آرڈر وضع کیا جاسکے جس میں کہ روس ایک مضبوط پوزیشن اختیار کرسکے اور دیگر یوروپی ممالک اس کا کچھ بگاڑ نہ سکیں۔یعنی کہ ایک طریقے سے پوتن کی صدارت کے دوران روس ان ماضی کی سوویت ریاستوں کو دوبارہ روس میں شامل کرسکے،جنھوں نے کہ 1991 میں روس کا شیرازہ بکھرنے کے بعد خود مختار نئے آزاد ممالک کی شکل اختیار کرلی تھی۔

اس نئے بظاہر مضحکہ خیز امن منصوبے سے جو کچھ بھی ابھی تک نکل کر سامنے آیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ اپنے یوروپی اتحادیوں کے خیالات، مطالبات اور سلامتی میں کم سے کم دلچسپی رکھتے ہیں، جنہیں وہ کسی بھی لمحے چھوڑ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ نیٹو اور اس کی توسیع کے بارے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔مجموعی طور پر یہ دو نکات آنے والے مہینوں اور سالوں میں امریکی خارجہ پالیسی کے نئے خدوخال کے بارے میں اشارہ دیتے ہیں جو کہ مکمل طور پر ٹرمپ اور ان کے حواریوں کے ذریعے وضع کی جائے گی اور جو کہ بالکل جارحانہ انداز میں تاریخی خارجی اصولوں اور پالیسیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف امریکہ کے حق میں نئی پالیسیاں مرتب کریں گے۔یعنی کہ ایک ایسا امریکہ جو کہ ماضی کے امریکہ کی طرح عالمی داداگری کرنے کو ترجیح نہیں دے گا بلکہ اپنے معاشی مفادات کو آگے بڑھانے پر زیادہ کوشاں رہے گا۔

(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS