یوکرین بحران کے بعد روس الگ تھلگ سا پڑ گیا، مغربی ممالک ، ناٹو اور یوروپی یونین کے تمام ملکوں نے باقاعدہ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت روس کو عالمی تجارت ، اقتصادی اداروں سے کاٹ کر رکھنے کے لیے گھیرا بندی شروع کر دی تھی، اگر چہ مغربی ممالک یوکرین پر روس کی جارحانہ پالیسی کو اس قدر اہمیت نہیں دے رہے تھے اور ان کو یقین نہیں تھا کہ روس اس حد تک آگے بڑھ جائے گا اور حملہ کر دے گا۔ بہر کیف اب حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ پوری دنیا اس جنگ کے منفی اثرات کو جھیل رہی ہے مگر ایک ایسا ملک ترکی بھی ہے جو اس موقع کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ترکی نے اس بحران میں جو حکمت عملی اختیار کی ہے روس اور امریکہ دونوں بلاک اس سے ترک تعلق تو دور نظر انداز کرنے تک کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ پچھلے دنوں ناٹو ممالک کی سربراہ کانفرنس میں اعلیٰ ترین طاقتوں سے ملاقات کے بعد تمام فریقوں نے ترکی سے مصالحت کرکے یوکرین کی غذائی اجناس کو عالمی بازاروں میں سپلائی کا راستہ ہموار کرنے کی اپیل کی تھی اور ترکی نے بھی ایک کارگرمصالحت کار رول ادا کیا تھا، مگر ترکی نے روس اور ایران کے ساتھ تال میل بھی کیا ہے اور پچھلے دنوں ترکی کے صدر نے روس کے صدر سے ملاقات کرکے کان کھڑے کر دیے۔ ناٹو ممالک میں امریکہ کے بعد دوسری بڑی فوجی طاقت ہونے کی وجہ سے ناٹو ممالک کو ترکی کا روس کے ساتھ یہ میل جول اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک ترکی اور روس نے تجارت اور توانائی کے سیکٹر میں تعاون کے فروغ پر زور دیا ہے۔ 27 ممبران کے گروپ ناٹو بہت گہرائی کے ساتھ دونوں ملکوں کے مراسم پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ حال ہی میں روس کے سیاحی شہر سوچی میں پیش طیب اردگان کی دو طرفہ ملاقات ہوئی جو غیر معمولی 4گھنٹے چلی ، پر بالمشافہ ملاقات ایک مہینہ میں دوسری ملاقات تھی۔ دراصل کسادبازار ی کے شکار ترکی میں افراط زر کی سطح غیر معمولی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ترکی کی قیادت اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ ترکی کی قیادت کو اسی بات کا بھی ڈر ہے کہ معاشی بحران الیکشن میں طیب اردگان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ وہ عالمی سطح پر اپنے آپ کو بڑا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ایسا نہ ہو کہ اندرون ملک ان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے ، یہی وجہ ہے کہ طیب اردگان کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی اور عرب ملکوں سے تعلق استوار کرنے پڑے حالانکہ سعودی عرب اور دیگر ملکوں کے ساتھ ان کے روابط اچھے نہیں تھے۔ طیب ارگان نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور اس کے بعد سعودی عرب کی اعلیٰ ترین قیادت ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ترکی کا دورہ کیا۔
مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ اگر ترکی اس طرح روس کے ساتھ اپنے روابط برقرار رکھتا ہے اور روس کے ساتھ بھی تعاون بڑھاتا ہے تو اس کے علاوہ روس پر عائد پابندیوں کا اثر زائل ہو جائے گا۔ مغربی سفارتی حلقوں میں یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ روس دیگر مغربی اور یوروپی ملکوں کے ساتھ انفرادی سطح پر ہی تعاون کرتے ہیں تو پر بھی مغربی ممالک کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں کو موثر طریقہ سے نافذ کرنے میں حائل ہو سکتا ہے۔ مغربی سفارت کاروں نے اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے اسی فارمولے پر کاربند ہونے کی تجویز پیش کی ہے۔ مغربی ممالک اپنی کمپنیوں کو ترکی کے ساتھ تجارت او اقتصادی تعاون نہ کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں ۔ امریکہ اس سے قبل آگاہ کر چکاہے کہ وہ ان ملکوں کے ساتھ مراسم برقرار نہیں رکھ سکے گا جو روس کے ساتھ تعاون کرکے اس پر عائد پابندیوں کو غیر موثر بنا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان مرکز کے پس پشت روس کے سکیورٹی خدشات کے علاوہ یوروپ کو دی جانے والی توانائی کی سپلائی بھی ہے امریکہ یوروپ میں روس کے ذریعہ سپلائی کی جانے والی قدرتی گیس اور پٹرولیم مصنوعات لے کر فکر مند ہے کیوں کہ کئی یوروپی ملکوں ، بطور خاص بڑے یوروپی ملکوں کا روس پر انحصار بڑھتا جا رہا تھا، بعد ازاں حرمین و غیرہ کے راستہ بنائی جا رہی پائپ لائن امریکہ کی بالادستی کے لیے خطرہ بن گئی تھی۔ یوروپی ممالک قدرتی گیس وغیرہ پر اپنا انحصار پڑھا رہے ہیں اور دیگر روایتی وسائل کو ترک کر ہے ہیں ۔ کیوں کہ توانائی کے روایتی وسائل کے استعمال سے پورے خطے کے ماحول پر بہت منفی اثر پڑرہا ہے۔ ترکی مغربی ایشیا کے کئی ممالک میں اپنا عمل دخل اور فوجی موجودگی بڑھا رہا ہے، یہ بھی امریکہ اور روس دونوں کے لیے قابل تشویش ہے ۔ کرد غلبہ کو ختم کرنے کے لیے ترکی نے بے روک ٹوک فوجی کارروائیاں کی ہیں۔ جو کہ امریکی اور مغربی ممالک کے مفادات اور فوجی اہداف کے خلاف ہیں۔ خیال رہے کرد علیحدگی پسند ترکی کے لیے ناک کا بال بنے ہوئے ہیں اور اسی کی سرحد سے لگے ہوئے شام کے علاقوں میں امریکہ کردوں کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔
mrm
روس -ترکی تعاون سے مغرب کے پیٹ میں مروڑ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS