روس – ایران کی قربت بحث کا موضوع بنی: محمد عباس دھالیوال

0

محمد عباس دھالیوال
گزشتہ ایک سال سے مشرقِ وسطیٰ ایک طرح سے جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا ناجائز و غاصبانہ قبضہ ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے فلسطینی مسلسل اپنے ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور گزشتہ سات دہائی سے ہی اسرائیل فلسطینیوں کے اوپر جو ظلم ڈھا رہا ہے اس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ بات اگر گزشتہ برس 7 اکتوبر کے بعد کی کریں تو اب تک اسرائیل 41 ہزار سے بھی اوپر فلسطینیوں کو نہ حق قتل کر چکا ہے اور ان ہلاک ہونے والوں میں بھی زیادہ تر بچے و خواتین اور بے گناہ افراد شامل ہیں۔ اسرائیل نے اب فلسطینیوں کے گھروں کو نیست و نابود کرنے کے بعد سے گزشتہ دو ہفتوں سے لبنان میں مسلسل بمباری کرنے لگا ہے۔
اسرائیل کے ظلم و تشدد کو لے کر اب دنیا کی بڑی بڑی قوتیں الگ الگ خیموں میں بٹتی نظر آ رہی ہے جہاں ایک طرف امریکہ و اس کے حواری اسرائیل کے ساتھ گزشتہ سات دہائی سے چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔
وہیں روس چین اور ایران دوسری جانب نظر آ رہے ہیں گزشتہ دنوں اسی سلسلہ میں ایران کے صدر نے ترکما نستان میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر روسی صدر سے ملاقات اور گفتگو کی ہے۔ صدر پزشکیان نے اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات کے موقع پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی اور ثقافتی نقطہ نظر سے ہمارے تعلقات روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں اور ایران اور روس کے درمیان تعاون کے روزافزوں عمل کو دونوں ممالک کے اعلی رہنماؤں کے عزم وارادے کے پیش نظر مزید مضبوط اور اس میں تیزی لائے جانے کی ضرورت ہے۔
صدر مسعود پزشکیان نے علاقے کی بحرانی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت کسی بھی بین الاقوامی قانون اور انسانی اقدار کا احترام نہیں کرتی اور علاقے کی صورتحال بحران سے دوچار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوروپی اور امریکی ممالک نہیں چاہتے کہ خطے کے ممالک کے درمیان تعلقات پرامن بنیادوں پر آگے بڑھیں۔
اس ملاقات میں روس کے صدر نے بھی صدر ایران کیساتھ گفتگو پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون ہماری اولین ترجیح ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں فروغ اور تجارت کے حجم میں بہت اچھی طرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ روسی صدر نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کو برکس سربراہی اجلاس میں شرکت اور مشترکہ دو طرفہ اجلاس کے انعقاد کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہم بین الاقوامی سطح پر مشترکہ تعاون کر رہے ہیں اور عالمی مسائل میں ہمارے نقطہ ہائے نگاہ یکساں ہیں۔
جیسے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ صرف ایک ہفتے پہلے روسی وزیر اعظم نے ایران میں ایرانی صدر پیزشکیان اور نائب صدر رضا عارف سے بھی ملاقات کی تھی۔ بھلے ہی سوویت یونین کے دور میں ایران اور روس ایک دوسرے کے کٹر مخالف رہے ہیں لیکن اب موجودہ بدلے ہوئے حالات میں دونوں ممالک کے بیچ قربتیں بڑھی ہیں۔ یہاں پر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دونوں ہی ممالک پر عائد مغربی پابندیوں نے دونوں ممالک کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو ایک طاقتور ملک کی ضرورت ہے جو انہیں ہتھیار فراہم کر سکے۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے تنہائی کا شکار روس کو ایران کی صورت میں ایک مضبوط اتحادی مل گیا ہے۔
اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو شام میں بھی دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات ہیں اور روس موجودہ شامی حکومت کو اقتدار میں رہنے میں مدد کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایرانی حکومت بھی شامی حکومت کی حمایت کرتی ہے۔ شام پر اسرائیل حملہ کر رہا ہے۔ مغربی ممالک بھی شام کی موجودہ حکومت کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں شام کے معاملے پر ایران اور روس ایک پیج پر ہیں۔ یہ بھی دونوں ممالک کے درمیان قربت کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ان دنوں اسرائیل اور ایران کے درمیان کے بیچ جو کشیدگی پائی جا رہی ہے وہ جگ ظاہر ہے. حال ہی میں جس طرح سے ایران کی جانب سے اسرائیل پر فضائی حملہ کیا گیا تھا اور جس کے بعد اسرائیل نے جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ اس ضمن میں امریکہ پہلے ہی اسرائیل کی حمایت کا اعلان کر چکا ہے۔ ایسے میں ایران بھی روس کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کر رہا ہے تاکہ جنگ کی صورت میں اسلحے کی فراہمی کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آج ایران۔ روس سے اسلحہ درآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ روس یوکرین جنگ میں ایران نے روس کو بڑے پیمانے پر ڈرون فراہم کیے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اسلحے کے بڑے سودے ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مغربی ایشیا کی کشیدہ صورتحال کے پیش نظر روس کے صدر ولادی میر پوتن اور ایرانی صدر پنرشکیان کے درمیان ہوئی ملاقات پر کافی بحث کی جا رہی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS