انوراگ مشر
روس کی بے خوف توسیع پسند پالیسی اور یوروپی ممالک کی بچھائی گئی بساط پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بری طرح پھنس گئے اور لاکھ کوششوں کے باوجود الاسکا سربراہ اجلاس کے دوران جنگ بندی کی سمت میں پوتن سے کچھ خاص حاصل نہیں کر پائے۔ حالانکہ جنگ بندی سے انکار کرنے پر روس کو سنگین نتائج کا انتباہ دے کر ٹرمپ مذاکرات میں شامل ہوئے تھے لیکن تین گھنٹے بعد مذاکرات ختم ہونے پر انہوں نے کہا کہ وہ ’عارضی جنگ بندی کے بجائے مستقل امن معاہدے کو ترجیح دیں گے۔‘ ٹرمپ کے بدلے سُر اور رویے سے یہ بات واضح ہے کہ پوتن کی مضبوط اور کسی ایشو پر اسٹریٹ لائن چلنے والی شخصیت نے ان کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی خود اعتمادی کو زور کا جھٹکا دھیرے سے دیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کہیں صاف گوئی اور مضبوطی سے اپنا موقف ظاہر کرکے پوتن نے ٹرمپ کی ضد کو بے بسی کا احساس کرایا ہے۔ یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ سفارتی لحاظ سے یوکرین جنگ پر روس اور یوروپ کے درمیان پردے کے پیچھے چل رہے کھیل نے ٹرمپ کو پست کرکے اسلحہ بیچنے کی لالچ تک محدود کر دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق، پوتن شروع ہی سے یوکرین کو ناٹو میں شامل کرنے اور یوکرین میں روس مخالف حکومت لانے کی مبینہ سازش کو اس تنازع کی بنیادی وجہ مانتے ہیں۔ اسی طرح کی دلیل دیتے ہوئے پوتن نے 2014 میں جزیرہ نما کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا اور فروری 2022 میں پھر سے یوکرین پر حملہ شروع کر دیا۔ اس معاملے میں پوتن جنگ بندی تو چاہتے ہیں لیکن اپنی شرائط پر۔ اس معاملے میں ٹرمپ چاہتے ہیں کہ روس کے زیر قبضہ چار مشرقی صوبوں میں سے یوکرین لوہانسک اور دونیتسک صوبوں کی پوری زمین روس کے حوالے کر دے اور کریمیا کو بھول جائے۔ ان کے بدلے میں روس خیرسون اور زاپروژیاصوبے لوٹا دے لیکن پوتن کا داؤ کچھ اور ہی ہے۔ یوکرین سے علاقائی رعایتیں حاصل کرنا امن معاہدے پر کسی بھی گفتگو میں پوتن کی پہلی شرط ہے۔ انہوں نے جنگ ختم کرنے کی تجویز پیش کرنے کے لیے یہ حکمت عملی طے کی ہے۔ امن تجویز کے تحت پوتن چاہتے ہیں کہ زیلنسکی یوکرین کے مشرقی حصے والی زمین کو چھوڑ دیں جس کے بدلے میں روس نے یوکرین کے جن چھوٹے علاقوں پر قبضہ کیا ہے، وہ انہیں چھوڑ دے گا۔ جنگ کے سلسلے میں یوکرین کے عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی کو پوتن نے بھانپ لیا ہے اور وہ پر امید ہیں کہ تھکے ہارے عوام بالآخر اس معاہدے کو قبول کر لیں گے۔ یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ پوتن یوکرین پر مسلسل فوجی دباؤ ڈال کر جغرافیائی طور پر توسیع کر کے یوروپ پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اس معاملے میں بہتر انداز میں مول تول کرکے پوتن یوروپی ممالک پر برتری حاصل کرنے کے لیے ناممکن شرائط پیش کر رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں زیلنسکی اگر پوتن کی بات مان بھی جائیں تو ان کی پارلیمنٹ اس کے لیے تیار نہیں ہوگی۔
اس کے برعکس توسیع پسندپالیسی کی وجہ سے روس سے گھبرائے یوروپی ممالک بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یوکرین کے سقوط کے بعد پوتن کا اگلا داؤ یوروپ ہے۔ جنگ طول مدت تک چلے اور روس،یوکرین میں ہی الجھا رہے یہی ان کی پالیسی ہے۔ اس کی جھلک اس وقت صاف طور پر دکھی تھی جب ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مداخلت کرکے مذاکرات کے ذریعے جنگ بند کرانے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت امریکہ، یوکرین اور دیگر یوروپی ممالک کی طرف سے مذاکرات کو مسلسل مسترد کیا جا رہا تھا اور روس کے سُر بھی اسی طرح کے تھے۔یوروپی ملکوں کی یہ حکمت عملی ایک بار پھر اس وقت سامنے آگئی جب یوکرین-روس جنگ ختم کرنے کے لیے 15 اگست، 2025 کو پوتن کے ساتھ ٹرمپ کے سربراہ اجلاس میں زیلنسکی کو شامل نہ کیے جانے پر ناٹو کے لیڈر اور فرانس، برطانیہ اور جرمنی جیسے یوروپی ملکوں نے نامناسب ناراضگی کا اظہار کرکے زیلنسکی کی حمایت میں متحد ہونے کا ڈرامہ کیا۔ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ جاتی کہ زیلنسکی کو اسلحہ اور پیسہ دے کر یوروپی ممالک یوکرین کو روس سے جنگ جاری رکھنے کی ترغیب دے رہے ہیں تاکہ وہ روس کی توسیع پسند پالیسی اور اس کے جارحانہ اثر و رسوخ سے محفوظ رہیں۔اس ایشو پر اگر اور غور کیا جائے تو 18 اگست، 2025 کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ٹرمپ، یوکرینی صدر زیلنسکی اور یوروپی ممالک کے لیڈروں کی ملاقات کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ فی الووقت اتنی جلدی جنگ بندی ممکن نہیں ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس موقع پر یوکرین کی سیکورٹی گارنٹی پر گفتگو ہوئی اور میٹنگ کے بعد زیلنسکی نے پریس کانفرنس کرکے بتایا کہ یوکرین سیکورٹی گارنٹی کے بدلے یوروپ کے پیسوں سے90 ارب ڈالر(تقریباً8 لاکھ کروڑ روپے) کے امریکی ہتھیار خریدے گا۔
(مضمون نگار اٹل جن سمواد اور سیواسنستھان کے سربراہ ہیں)
panuragmishra@gmail.com