نیلم مہاجن سنگھ
جموں کی سیشن عدالت میں روبیہ سعید کی حالیہ موجودگی، اس کے اغوا کاروں کی ’شناخت کا سامنا‘ کرنے کے لیے ہوئی۔ وی پی سنگھ حکومت کے اس نے سب سے ڈرامائی سیاسی لمحہ کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں کشمیر میں بغاوت/شورش اور انتہا پسندی پھوٹ پڑی تھی۔ وی پی سنگھ بی جے پی کی باہری حمایت کے ساتھ اتحاد میں تھے۔ ان کی ’کشمیر میں انتہا پسندی کے حوالے سے کمزور پالیسی‘تھی۔ میں نے وادیٔ کشمیر کو زمین پر ’پرامن جنت سے خونریزی، بداعتمادی اور سیاسی طاقت کے غلط استعمال سے خون آلود قبرستان‘، بننے تک کے عمل کو دیکھا ہے۔ 1989 میں اس وقت کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کا سری نگر میں کشمیری علیحدگی پسند-دہشت گردوں نے اغوا کر لیا تھا۔ اغوا کاروں نے روبیہ سعید کی رہائی کے بدلے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ(جے کے ایل ایف) کے پانچ اراکین کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ حکومت ہند نے مطالبات مان لیے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت والی ریاستی حکومت کو جیل میں بند انتہا پسندوں کو رہا کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ 2004 میں جے کے ایل ایف نے اغوا کا ارتکاب کرنے کا اعتراف کیا اور معاملہ آج تک عدالت میں زیرغور ہے۔ اس ایونٹ کے لیے جے کے ایل ایف کے یٰسین ملک کا ٹرائل چل رہا ہے۔ مفتی محمد سعید کی تیسری بیٹی روبیہ سعید 23سال کی تھیں اور وہ لال ڈیڈ میموریل ویمن اسپتال میں میڈیکل انٹرن تھیں۔3:45 بجے اس کو اغوا کیا گیا۔8دسمبر 1989 کو نوگام میں اپنے گھر سے تقریباً 500 میٹر کے فاصلے پر، جب وہ ایک مقامی منی بس میں لال ڈیڈ میموریل ویمن اسپتال سے واپس آرہی تھیں تبھی چارلوگوں نے اسے بندوق کی نوک پر گاڑی سے باہر نکلتے ہی پہلے سے وہاں موجود ایک ماروتی کار میں بیٹھایا اور غائب ہوگئے۔ اغواکاروں اور مذاکرات کے مطالبات میں درج ذیل اہم نکات تھے۔ کشمیر ٹائمز کے نمائندوں نے کہا کہ جے کے ایل ایف کے مجاہدین کا فون آیا اور انہوں نے کہا، ’’ڈاکٹر روبیہ سعید کو اغوا کر لیا گیا ہے اور وہ تب تک یرغمال رہیں گی جب تک کہ حکومت جے کے ایل ایف کے فیلڈ کمانڈر شیخ عبدالحمید، غلام نبی بٹ کو رہا نہیں کردیتی۔ مقبول بٹ، نور محمد کلوال، محمد الطاف اور مشتاق احمد زرگر۔ ایڈیٹر محمد صوفی نے اس خبر کو نشر کرنے کے لیے وزیر داخلہ اور حکومت دونوں کو فون کیا۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ لندن سے اپنی چھٹیاں گزار کر دہلی واپس آئے۔ نیشنل سیکورٹی گارڈ کے ڈائریکٹر جنرل وید مارواہ سمیت آئی بی اور پولیس کے سینئر افسر اگلے ہی دن سری نگر پہنچ گئے۔ ’دی کشمیر ٹائمز‘کے صحافی ظفر معراج کے توسط سے بات چیت کا آغاز ہوا، جبکہ اے بی مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے غنی لون اور مولوی عباس انصاری کو ممکنہ چینلز کے طور پر ٹیپ کیا گیا تھا۔ بعد میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج موتی لال بھٹ نے کمان سنبھالی۔ وہ مفتی کے دوست تھے۔ انہوں نے ہندوستان کے وزیر داخلہ کی جانب سے انتہا پسندوں سے براہ راست بات چیت شروع کردی۔ 13 دسمبر 1989 کو صبح 3:30 بجے، کابینہ کے دو وزرا اندر کمار گجرال اور عارف محمد خان سری نگر پہنچے، یہ مانتے ہوئے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ راستے میں رخنہ بن رہے تھے۔ ڈاکٹر فاروق کا خیال تھا کہ انتہاپسندوں کے مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے وادیٔ کشمیر میں تشدد اور مسلح جدوجہد کا سیلاب آجائے گا۔ کیرالہ کے موجودہ گورنر عارف محمد خان نے اس کی تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ ان خونخوار انتہا پسندوں کو رہا کرنے کے خواہاں نہیں تھے۔ 13دسمبر 1989 کی شام 7 بجے، حکومت کے ذریعہ جیل میں بند پانچ دہشت گردوں کو رہا کرنے کے دو گھنٹے بعد، روبیہ سعید کو رہا کر دیا گیا تھا۔ ہزاروں لوگ راجوری کدل میں فاتحانہ جلوس میں جمع ہوئے لیکن وہ جلد ہی اپنے ٹھکانوں میں غائب ہو گئے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بعد میں دعویٰ کیا کہ ’’ان کی حکومت کو مرکزی حکومت کے ذریعہ برخاست کرنے کی دھمکی دی گئی تھی، اگر عسکریت پسندوں کو روبیہ کے بدلے رہا نہ کیا گیا۔‘‘ اس اغوا نے کشمیر میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے لیے اسٹیج تیار کیا۔ سڑکوں پر انتہاپسندوں کی حمایت صاف دیکھی جاسکتی تھی۔ اگر وی پی سنگھ حکومت جھکتی نہیں تو آج حالات مختلف ہوتے۔عوامی جذبات کی وجہ سے جے کے ایل ایف روبیہ کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ 1999 میں جے کے ایل ایف کے تین انتہاپسندوں شوکت احمد بخشی، منظور احمد صوفی اور محمد اقبال گندرو کو 9سال بعد ضمانت مل گئی تھی۔ روبیہ اپنے کچھ اغواکاروں کو نہیں پہچان سکی۔ روبیہ کی بڑی بہن محبوبہ مفتی کہتی ہیں،’لوگ بہت کچھ بھول جاتے ہیں‘۔ روبیہ 1989 کے اغوا کیس میں یٰسین ملک کے علاوہ کسی کی بھی شناخت کرنے میں ناکام رہی۔ روبیہ سعید نے 1989 کے اغوا کیس میں 16جولائی کو جموں کی خصوصی ٹاڈا عدالت کے سامنے یٰسین ملک اور دیگر تین دیگر ملزمان کی شناخت کی ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی نے اتوار کو 1989 کے اغوا کیس میں یٰسین ملک کے علاوہ کسی کی شناخت کرنے میں ناکام رہنے پر اپنی بہن روبیہ کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ 32 سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے اور لوگ بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مفتی نے کہا کہ ’’روبیہ سعید کو گواہ کے طور پر کسی کی شناخت کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ یٰسین ملک پبلک ڈومین میں تھا اور اس کی شناخت آسان تھی۔ 32سال طویل عرصہ ہے، لوگ بہت چیزیں بھول جاتے ہیں۔ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔‘‘ یہ پہلا موقع تھا جب روبیہ کو کیس میں پیش ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔ روبیہ، جو تمل ناڈو میں رہتی ہے، سی بی آئی کے ذریعہ استغاثہ فریق کے گواہ کے طور پر درج ہے۔ روبیہ نے یٰسین ملک کی شناخت ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ عدالت میں کی۔بعد میں اس نے عدالت میں دکھائی گئی تصاویر کے ذریعہ سے ملک کی دوبارہ شناخت کی۔ 2019 میں یٰسین ملک کو ٹیررفنڈنگ کے الزام میں قومی جانچ ایجنسی کی جانب سے اٹھائے جانے کے بعد یہ معاملہ ورچوئل کولڈ اسٹوریج میں کیوں چلا گیاتھا؟ یہ بات یقینی ہے کہ اگر روبیہ مفتی محمد سعید کی بیٹی نہ ہوتی تو شاید اتنی آسانی سے واپس نہ آتی! یہ ٹھیک ہے کہ وہ23 سال کی عمر میں میڈیکل انٹرن تھی لیکن5خونخوار دہشت گردوں کو رہا کرنے کا کھیل، ٹھیک نہیں ہے۔ سیاستدانوں نے قوم کی خودمختاری سے سمجھوتہ کیا تھا۔ عارف محمد خان نے متعدد چینلز پر اپنے حالیہ انٹرویوز میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ ان دہشت گردوں کو رہا کرنے کے لیے راضی نہیں تھے کیونکہ اس سے وادی میں ہندوستان مخالف سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ ڈاکٹر فاروق نے گزشتہ کئی برسوں میں بارہا کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی رہائی کے خلاف تھے اور دہشت گردوں کے ساتھ کوئی بھی بات چیت ملک کی خودمختاری کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ پھر بھی یہ کیا گیا! بعد میں اظہرمسعود کی رہائی کے بدلے انڈین ایئر لائنز کے یرغمال مسافروں کی حالت ’کیچ-22‘ تھی۔ رپن کا گلا کاٹ کر کیے گئے بہیمانہ قتل نے دہشت کا ماحول پیدا کر دیا! جائزہ لینے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ کشمیر میں عسکریت پسندی کا خاتمہ آسان معاملہ نہیں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ شری اجیت ڈوبھال، وزیراعظم کے سیکورٹی ایڈوائزر،کشمیر میں سیاسی اتھل پتھل کی نگرانی کر رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہاکشمیر سے آرٹیکل 370اور35-A کی منسوخی کے بعد چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں۔ روبیہ سعید کا اغوا وی پی حکومت کے ناکام مذاکرات میں ہمیشہ ایک سیاہ داغ بنا رہے گا۔ خاموش سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید نے اپنی چھوٹی بیٹی روبیہ سعید کی رہائی کے بدلے خونخوار انتہاپسندوں کو رہا کیوں کیا؟ کیا عام آدمی کے ساتھ ایسا ہوگا؟ نہیں! حالانکہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، جو مفتی محمد سعید کے سخت دشمن تھے، اب ان کی بیٹی محبوبہ مفتی کے ساتھ،2021کے خفیہ منشور پیپلز الائنس فار گپکر ڈکلیئریشن(پی اے جی ڈی) نامی اتحاد میں دوست ہیں۔ اس لیے میں مشہور کہاوت کا حوالہ دیتی ہوں، ’’سیاستداں عجیب آرام پسند ہوتے ہیں!‘‘ یٰسین ملک نے عدالت کی جانب سے اسپاٹ ریکگنیشن کے عمل کی مخالفت کی ہے۔ وہ اسے مناسب انصاف دینے کے خلاف غیرمنصفانہ توازن کا الزام لگا رہا ہے۔ جب حکومتیں ذاتی پسند کو اہمیت دیتے ہوئے انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں کھیلتی ہیں، تو خوابوں کی وادی میں اس طرح کا متضاد سیاسی منظر نامہ جاری رہے گا۔او میرے کشمیر!
(مضمون نگارسینئر صحافی اور سالیسٹر برائے انسانی حقوق ہیں)
[email protected]