آر ایس ایس کے تفرقہ انگیز بیانات مذہبی وسماجی ہم آہنگی میں رکاوٹ : پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

0

پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

’’ہم ہندوستان کے لوگ، اس (آئین) کے ذریعے ہندوستان کو ایک خودمختار ’سوشلسٹ‘، ’سیکولر‘، عوامی جمہوریہ بنانے اور اس کے تمام شہریوں کو مندرجہ ذیل چیزوں کو محفوظ بنانے کا عزم کرتے ہیں: انصاف، سماجی، اقتصادی اور سیاسی آزادی، فکر، ایمان، عقیدہ اور عبادت(مذہب)، حیثیت اور مواقع کی مساوات اور ان کے درمیان فرد کے احترام اور قوم و ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو فروغ دینے والی اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دینا۔(ہم اپنی دستور ساز اسمبلی میں آج 26نومبر1949کو اس آئین کو اپناتے ہیں اوراسے ا پنے اوپر نافذ کرتے ہیں) یہ ہندوستانی آئین کی تمہید ہے، کیا آئین کی اس تمہید میں سوشلزم اور سیکولرازم الفاظ کا اضافہ کرنا ’سناتن‘ کی روح کی توہین ہے ؟

آ ر ایس ایس کے جنرل سیکریٹری دتا تریہ ہوس بولے نے ایسا دعویٰ کیا ہے کہ سیکولرازم اور سوشلزم کے الفاظ بی آر امبیڈکر کے ذریعہ تیار کردہ آئین کی تمہید کا جز نہیں تھے۔ نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھن کڑ نے کہا کہ ایمرجنسی کے دوران آ ئین کی تمہید میں ان الفاظ کو ’السر‘ کے طور پرشامل کیا گیا تھا۔
ہندوستانی آئین کی تمہید اس کی روح اور بنیاد ہے۔ تمہید ہی آئین کا تخم ہے اور اسی کی بنیاد پر آئین کی تشکیل ہوئی ہے۔ہندوستانی آئین کی اس تمہید کو 1976، کی 42ویں آ ئینی ترمیم کے ذریعے تبدیل کیا گیا تھاجس میں ’سوشلسٹ‘، ’سیکولرازم‘ اور ’سالمیت‘ کے الفاظ کا اضافہ کیا گیا۔ کیا ایمرجنسی کے دوران آئین کی تمہید میں ان الفاظ کا اضافہ آئین سازوں کی ذہنیت کے ساتھ غداری کی علامت ہے؟ جبکہ آئین حکومتی ڈھانچہ کے لیے خاکہ کا کام کرتا ہے اوربنیادی حقوق،ہدایتی اصولوں اورحکومت کی تشکیل کے ڈھانچے میں رنگ بھرنے کا کام کرتا ہے۔اس آ ئین کی اہم خصوصیات میں اس کی طوالت،سختی اور اس کا لچک دار ہونا اس کے انوکھے امتزاج کی علامت ہے۔حکومت کی پارلیمانی شکل، بنیادی حقوق، ہدایتی اصول اور بنیادی فرائض اس کی خصوصیات میں شامل ہیں۔ ہندوستانی آئین دنیا کا سب سے طویل تحریری دستاویز ہے، جس میں ایک تمہید، 395آرٹیکل ہیں (اب اضافے اور دوبارہ فہرست سازی کے ساتھ، اس میں25حصوں میں تقریباً 470 آرٹیکلز ہیں) اور12فہرست ہیں۔ہندوستان نے برطانوی پارلیمانی نظام کو اپنایا ہے جس میں قانون سازی اور انتظامی شاخوں کے درمیان تعاون پر زور دیا گیا ہے، آئین میں تبدیلی کی جا سکتی ہے، لیکن یہ عمل نہ تو آسان ہے اور نہ ہی مشکل۔ یہ آ رٹیکلز شہریوں کو برابری، آزادی اور استحصال سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔یہ وطن کے تئیں شہریوں کے وہ فرائض ہیں جو کہ قومی اتحاد کو فروغ دیتے ہیں۔

ہندوستان ریاستوں کا ایک وفاق ہے اور آ ئین ایک مضبوط مرکزی حکومت کا بھی انتظام کرتا ہے۔ خاص طور پر ’ایمرجنسی‘ کے دوران،آ ئین اس اصول کوقائم کرتا ہے کہ تمام افراد بشمول سرکاری افسران، اس کے لیے جوابدہ ہیں، اور تمام بالغ شہریوں کو ووٹ دینے کا اختیار حاصل ہے جس کے ذریعے حکومتی انتظام میں جمہوری طریقے سے حصہ لینے کو یقینی بناتا ہے۔ یہ آئین سیکولرازم کی آزادی کو یقینی بنا تا ہے اور یہ یقینی بناتا ہے کہ ریاست کسی مخصوص مذہب کے حق میں نہیں ہے۔ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے آئین میں ایک آ زاد عدالتی نظام کا وجود فراہم کیا گیا ہے۔جبکہ آئین میں اقلیتی گروہوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے بھی انتظام ہے، جس میں انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارہ شامل ہے۔

یہ آ ئین ایک جمہوری ملک کے روپ میں ہندوستان کے جمہوریت کے سفر کی رہنمائی کرتا ہے۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ اور سی پی آئی) نے کہا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی سیکولر عوامی جمہوریہ کو ’ہندو، فاشسٹ راشٹر‘ سے بدلنے کے اپنے ایجنڈے کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ دتاتریہ ہوس بولے کا کہنا ہے کہ ’’ہندوستان کے آئین سے ’سیکولر اور سوشلسٹ‘کے الفاظ کو ہٹا دینا چاہیے۔‘‘ آر ایس ایس اپنا وقت کیوں ضائع کر رہا ہے؟ انہیں وزیراعظم نریندر مودی سے پوچھنا چاہیے کہ ہم ہندوستانی آئین میں ترمیم کرکے ’جمہوریہ‘کیوں رکھیں؟ اسے ہندو قوم بنائیں، یہی موقع ہے! اگر آپ میں ہمت ہے تو دکھاؤ۔ صرف باتیں کرنے کا کیا فائدہ۔ سی پی آئی(ایم) کے جنرل سیکریٹری ایم اے بے بی نے ایکس پر پوسٹ کیا، ’’آئین کے دیباچے سے سوشلزم اور سیکولرازم کو ہٹانے کا آر ایس ایس کا مطالبہ ہندوستان کی اقدار پر براہ راست حملہ ہے۔‘‘ مختصر یہ کہ آر ایس ایس نے ہمیشہ منواسمرتی کو آئین سے بالاتر رکھا ہے۔ آ ئیں کی تمہید سے ان اصولوں کو ہٹانا جمہوریت کی توہین نہیں بلکہ ان نظریات کی توہین ہے جن کے لیے بھگت سنگھ اور حریت پسندوں نے اپنی جانیں دیں۔ بی ایس پی کی سربراہ محترمہ مایاوتی نے بی جے پی کو منو وادی پارٹی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ مایاوتی نے کہا، ’’بی جے پی بابا صاحب امبیڈکر کے آئین کو نہیں مانتی۔ وہ منواسمرتی کے معمار ہیں۔‘‘ سی پی آئی کے ڈی راجہ نے کہا کہ بی جے پی نے کبھی آئین پر یقین نہیں کیا۔ وہ ہندو راشٹر کے لیے ساورکر اور گولوالکر کو مانتے ہیں۔ مہاراشٹر سے لے کر کیرالہ تک تمام اپوزیشن جماعتوں نے آر ایس ایس اور بی جے پی پر تنقید کی ہے جو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ڈاکٹر پرکاش امبیڈکر نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت ڈاکٹر بی آر امبیڈکرکے آ ئین کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرتی ہے تو ہم انہیں نہیں بخشیں گے۔ راہل گاندھی نے آر ایس ایس پر سخت حملہ کیا ہے۔ ’’میں نے ہمیشہ آپ سے کہا ہے، آر ایس ایس ہندوستان کے اتحاد کے خلاف ہے۔ وہ ریزرویشن نہیں چاہتے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس، ایس سی اور ایس ٹی اور آدیواسیوں کے خلاف ہیں۔ وہ ہندوؤں کی نمائندگی بھی نہیں کرتے، کیونکہ وہ سماج کو تقسیم کرنے کے لیے نفرت اور تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ تاہم وقتاً فوقتاً ڈاکٹر موہن بھاگوت، آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک، کرشنا گوپال اور آر ایس ایس کے کئی حامی، دتاتریہ ہوس بولے کی طرح کے بیانات دیتے رہے ہیں۔ عوام ملک کے سماجی نظام کو متحد اور مکمل رکھیں۔ جب ہندوستان وشوگرو(عالمی طاقت) بننے کا خواب دیکھ رہا ہے تو سیاسی جماعتوں اور ان کے بنیادی اداروں کے اس طرح کے خلل انگیز بیانات ہندوستان جیسے کثیر مذہبی، سماجی و اقتصادی ملک میں منفی پیغام دے سکتے ہیں۔ ہندوستان ایک سیکولر، سوشلسٹ، جمہوریہ ہے، جو ہندوستانی آئین کا تحفہ ہے۔

(مضمون نگارہ سینئر صحافی، سیاسی تجزیہ نگار، ماہر تعلیم،
ٹیلی ویژن کی شخصیت، انسانی حقوق کے تحفظ کی وکیل
اور انسان دوست ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS