سنگھ کی ناراضگی اور مشورہ

0

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس )کے بنیادی نظریات کو 10برسوں سے عملی شکل دینے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف مودی حکومت کواب سنگھ کی ہی نکتہ چینیوں کا سامنا ہے۔ اتوار 9جون کو مبارک، سلامت کی گونج میںحلف برداری کے بعد ا مید یہ کی جارہی تھی کہ آر ایس ایس کے اکابرین بھی وزیراعظم نریندر مودی کو تہنیت کے پیغام بھیج کر یہ یقین دلائیں گے کہ پہلے کی طرح وہ اورا ن کی پوری تنظیم حکومت اور بھارتیہ جنتاپارٹی کے ساتھ کھڑی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا اور وہ ہوگیا جس کی امید نہیں کی جارہی تھی۔
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے مودی حکومت کے کام کاج کے طریقوں پر سوال اٹھاتے ہوئے منی پورمیں جاری بدامنی کیلئے مودی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔سماج میں بڑھتی فرقہ واریت اور جمہوریت کے حوالوں سے بھی کئی ناگفتنی کہہ دی جس کی امید مودی حکومت کو نہیں ہوگی۔

سنگھ سرچالک نے کہا کہ منی پور تنازع کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں ہو رہے تشدد کو روکا جانا چاہیے۔مہاراشٹر کے ناگپور میں آر ایس ایس کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے موہن بھاگوت نے کہا کہ منی پور میں امن کا انتظار کرتے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ گزشتہ 10برسوں سے ریاست میں امن تھا، لیکن اچانک ریاست میں گن کلچر ایک بار پھر بڑھ گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ پرانا گن کلچر ختم ہوگیا ہے۔ کیا وہاں اختلاف اچانک پیدا ہوا یا پیدا کیا گیا، اس کی آگ ابھی تک جل رہی ہے، بھڑک رہی ہے اور اس پر کوئی توجہ نہیں؟ اس پر ترجیحی بنیادوں پر غور کرنا ہمارا فرض ہے۔

یادرہے کہ منی پور میں گزشتہ سال 3 مئی کو تشدد ہوا تھا۔ میتئی اور کوکی قبائل کے درمیان دیرینہ تناؤ تشدد میں بدل گیا تھا۔ پہلے تین دنوں میں کم از کم 52 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ گزشتہ سال 3 مئی کوہی منی پور میں مردوں کے ہجوم کے ذریعہ دو خواتین کے ساتھ زیادتی اور ان کی برہنہ پریڈ کے واقعہ نے پورے ملک کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔اس واقعہ کا ویڈیو دو مہینوں بعد جولائی میں وائر ل ہوا جس میں دیکھاگیا کہ مردوں کاایک گروہ خواتین کو برہنہ کرکے انہیں گھسیٹتے ہوئے لے جارہا ہے۔3مئی2023 سے اب تک یعنی گزشتہ ایک سال کے دوران خواتین اور بچوں سمیت تقریباً ڈھائی سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہیں،درجنوں افراد لاپتہ ہیں۔ اس تشدد کی وجہ سے ریاست کے اندر 60 ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ہزاروں مکانات، دکانیں اور دیگر تعمیرات تباہ ہوچکی ہیں۔ ان سب کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی منی پور نہیں گئے۔ منی پور میں جس طرح سے حالات اب بھی کشیدہ ہیں، اسے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ مرکز اور ریاستی حکومت دونوں مل کر بھی وہاں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیںیا پھر دانستہ اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

موہن بھاگوت نے جمہوریت کے حوالے سے بھی بہت سی باتیں کہیں۔انہوں نے کہاکہ انتخابات جمہوریت کا لازمی عمل ہیں۔انتخاب میں دو فریقوں میں مقابلہ ہوتا ہے۔اس مقابلہ میں خود کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ مقابلہ جنگ نہیں ہے،اس میں جھوٹ کا استعمال نہیں کرنا چاہیے مگر جھوٹ کو ٹیکنالوجی کی مدد سے پیش کیا گیا۔ایسی مہم چلائی گئی جو سماج میں تفرقہ پیدا کرنے والی تھی۔آر ایس ایس جیسی تنظیموں کو بھی غیر ضروری طور پر اس میں گھسیٹا گیا۔ انتخاب میں باوقار مقابلہ آرائی ہونی چاہیے لیکن اس انتخاب میں وقار برقرار نہیں رہا۔اس کے علاوہ بھاگوت نے ملک کے تنوع کا احترام کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا مشورہ دیا۔

منی پور معاملہ میں بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی پر موہن بھاگوت نے جو کچھ بھی کہا ہے، وہ نئی این ڈی اے حکومت کیلئے ایک بڑی وارننگ ہے۔ اس کے علاوہ آر ایس ایس سربراہ نے اپنے خطاب کے ذریعے جس طرح کا رویہ دکھایا ہے، اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اس بار واضح اکثریت سے دور بی جے پی کواپنے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کی جانب سے بھی مزاحمت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔تاہم یہ مزاحمت اور تنقیدایسی نہیں ہوگی جوحکومت کو کمزور کرسکے۔کیوں کہ بی جے پی، آر ایس ایس کی کوکھ سے ہی جنم لینے والی سیاسی جماعت ہے جوملک پرسنگھ کے نظریات نافذ کرنے کا کام کرتی ہے۔سنگھ سربراہ کے ناگپور میں دیے گئے بیان، وزیراعظم مودی پر نکتہ چینی، انہیں سخت سست کہنا، ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ دونوں کے رشتہ میں دراڑ آگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موہن بھاگوت نے ایک شفیق باپ کا کردار ادا کرتے ہوئے ناخلف ہوتی جارہی بی جے پی کی بزرگانہ گوش مالی کی ہے اور اس کی توجہ غلطیوں کی جانب دلائی ہے تاکہ آئندہ اس کا اعادہ نہ ہو ا ور بی جے پی کو سیاسی نقصان نہ اٹھانا پڑے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS