آر ایس ایس کا صد سالہ جشن اور بھاگوت کی تقریر کے خفیہ رموز: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

گزشتہ ہفتہ آر ایس ایس نے اپنی تاسیس کے سو سال مکمل کرنے کا جشن منایا اور اس مناسبت سے ہندوستان کی اس ’’ثقافتی تنظیم‘‘کے سربراہ موہن بھاگوت نے کئی موضوعات کو اپنے خطاب میں جگہ دی تھی۔ بنیادی طور پر خصوصیت کے ساتھ جن پہلوؤں کو انہوں نے اپنی تقریر میں اجاگر کیا تھا، ان میں درج ذیل باتیں تھیں:پہلی بات تو یہ تھی کہ اب ہندوستان کے لیے وہ وقت آچکا ہے کہ یہ دنیا کی قیادت کا فریضہ انجام دے کیونکہ بھاگوت کے مطابق اب ہندوستان کو عالمی سطح پر یہ اہمیت حاصل ہوچکی ہے کہ اس کی باتوں اور مشوروں کو اقوام عالم توجہ اور سنجیدگی سے سنے۔ اس بات میں حقیقت کا عنصر کس قدر ہے، یہ قارئین طے کریں گے لیکن اتنا تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر دن رات جو غیر منطقی باتیں سنگھ اور بی جے پی کے ہمنواؤں کے ذریعہ ہوتی رہتی ہیں، ان کو عام اور سطحی لوگوں کی باتیں کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بھاگوت کی تقریر سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ایسی باتیں خود سنگھ کی نظریہ ساز شخصیات تیار کرتی ہیں اور ان کا پروپیگنڈہ ملک بھر میں گودی میڈیا اور ان کے پرستاروں کے ذریعہ کروایا جاتا ہے۔ حالانکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان کا وقار دنیا کی سطح پر بڑھنے کے بجائے گھٹ گیا ہے۔ پڑوسی ممالک سے لے کر روایتی حلیف ممالک تک سبھی ہم سے دور ہوئے ہیں۔ ’آپریشن سندور‘ کے موقع پر یہ حقیقت مزید وضاحت کے ساتھ عیاں ہوگئی جب کسی ملک نے بھی ہمارا ساتھ دینے یا پاکستان کی مذمت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

’آپریشن سندور‘ کے نتیجہ میں جس طرح جنگ کا آغاز کیا گیا، اس کو رکوانے کا سہرا امریکی صدر اپنے سر باندھ رہے ہیں اور ہمارے وزیراعظم نے پوری قوت کے ساتھ ان کو جواب تک نہیں دیا ہے۔ جنگ بندی کے بعد مختلف ملکوں میں جو الگ الگ قافلے بھیجے گئے تھے، ان کا بھی کوئی خاص اثر دیکھنے کو نہیں ملا۔ ایسی حالت میں بھاگوت کا یہ کہنا کہ ہم دنیا کی قیادت کے اہل ہوچکے ہیں، محض زمینی حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہی شمار ہوگا۔ دنیا کی قیادت کا امکان تبھی پیدا ہوسکتا ہے جب پہلے اپنے ہی ملک کی اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے ساتھ بہتر برتاؤ کا سلیقہ سیکھا جائے جبکہ سچ بات یہ ہے کہ سنگھ کا خیمہ اس ناقابل تردید حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے کہ ہندوستان تکثیری ثقافت کا ملک ہے۔ اس بات کا اظہار بھاگوت نے اپنی اسی تقریر میں کیا ہے جس پر تبصرہ ان سطور میں جاری ہے۔

موہن بھاگوت اپنے دوسرے اہم نقطہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہندو‘‘ تشخص کا مطلب ہے ایک ذمہ دار ہندوستانی شہری ہونا۔ کیا بھاگوت کی یہ بات کسی لحاظ سے بھی درست ہوسکتی ہے؟ بھلا ہر شخص کا تشخص یا اس کی شناخت ’’ہندوپن‘‘سے کیسے ہوگی؟ آخر آر ایس ایس کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ ایک اتھارٹی بن کر ملک کے لوگوں کا تشخص طے کرے؟ اس کا صاف مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ سنگھ کے خیمہ نے خود کو ثقافتی پولیس کے طور پر منتخب کرلیا ہے اور اپنا نظریہ و طرز فکر اہل ملک پر جبراً تھوپنا چاہتے ہیں۔ بس اپنی بات کو مضبوط کرنے کے لیے ڈی این اے کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ گزشتہ چوالیس ہزار برسوں سے اس ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کا ڈی این اے یکساں ہی ہے۔ اس کے بعد ہندو کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ایک ہندو وہ ہوتا ہے جو تمام عقیدوں کی عزت کرتا ہے اور اپنے طریقِ حیات پر گامزن رہتا ہے۔

شاید بھاگوت یہ بھول گئے ہیں یا ملک کے عوام کو بھرم میں ڈالنا چاہتے ہیں کہ ہندوتووادیوں نے کسی بھی عقیدہ یا طرز معاشرت کو کبھی قبول ہی نہیں کیا ہے اور جبر و اکراہ کے ساتھ اپنی تہذیب اور ثقافت کو دوسرے عقیدے کے ماننے والوں پر تھوپتے رہے ہیں۔ ایک خاص نظریہ کو حلق کے نیچے اتروانے کے لیے تشدد کا کوئی راستہ ایسا نہیں ہے جس کو سنگھ کے ہمنواؤں نے استعمال نہیں کیا ہے۔ اگر واقعی سنگھ کے نظریہ میں اس مسئلہ کو لے کر کوئی بڑی اور بنیادی تبدیلی پیدا ہوئی ہے تو اس کے لیے صرف بھاگوت کی تقریر کافی نہیں ہوگی۔ اگر واقعتا اسلام اور مسیحیت کے لیے اس ملک میں جگہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسا کہ بھاگوت نے کہا ہے کہ کوئی بھی ہندو ایسا ملک نہیں چاہتا جو اسلام سے خالی ہو اور مسلمان اور عیسائیوں کو مختلف محسوس کرانے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اگر صحیح معنی میں بھاگوت نے ساورکر سے الگ ہٹ کر اسلام اور مسیحیت کے لیے جگہ بنانے کا ارادہ کیا ہے تو عملی طور پر یہ باتیں برتی جانی چاہیے۔

مسلمان اور عیسائیوں پر حملے بند ہوں۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ قرار پائیں اور ان کے داعیوں اور راہبوں و راہبات پر بیجا حملے بند ہوں۔ اگر سنگھ کے پرچارک اس نمونۂ حیات کو برتنے کے لیے تیار ہیں تو اس کا امکان پیدا ہو سکتا ہے کہ اقلیتیں ان پر محتاط انداز میں بھروسہ کریں۔ لیکن اگر یہ صرف باتیں ہیں تو سنگھ اور بھاگوت کی باتیں صرف گمراہ کن نعرہ کی حیثیت رکھیں گی اور آر ایس ایس کی وہی امیج برقرار رہے گی جو عوام کے ذہن میں برسوں سے ان کے عملی و فکری تشدد کے نتیجہ میں تیار ہوئی ہے۔ باوجودیکہ بھاگوت نے اس پہلو پر اپنے خطاب میں زور دیا ہے کہ آر ایس ایس تشدد پسند تنظیم نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد حب الوطنی اور ہم آہنگی کے جذبات کا حامل معاشرہ تشکیل دینا ہے۔ لیکن برسوں سے عوام کے سامنے رونما ہونے والے سنگھ کے وجود کے تلخ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ بھاگوت کی ملمع سازی کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔ یہ سنگھ کا ہی ایجنڈہ تھا جس کے تحت رام مندر کے نام پر ملک کو توڑنے اور نفرت کے جذبات کو بھڑکانے کا کام کیا گیا۔

تاریخ کے ساتھ کھلواڑ ہوا اور عدالت کے فیصلہ کی آڑ میں تاریخی بابری مسجد کو منہدم کرکے ملک کی مسلم اقلیت کو ان کی اوقات دکھا کر خوشی کے گانے گائے گئے۔ بھاگوت کا یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ وہ متھرا اور کاشی کی مسجدوں کے خلاف تحریک نہیں چلائیں گے۔ ان کے الفاظ کو غور سے دیکھا جائے تو وہ اپنے اراکین اور پرچارکوں کو واضح لفظوں میں ایسی ہر کوشش میں حصہ لینے کی کھلی چھوٹ دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ملک بھر کے تمام سنگھیوں کو یہی اشارہ ملا ہوگا کہ وہ ذاتی طور پر مسلسل مسجدوں کے خلاف تحریک چلاتے رہیں اور مسلمانوں کو ابدی ذہنی و جسمانی عذاب میں مبتلا رکھیں۔ اگر بھاگوت کی تقریر کے مختلف نکات کو باہم مربوط کرکے دیکھا جائے تو اس میں موجود تضادات کی قلعی پورے طور پر کھل جاتی ہے۔ اپنی تاسیس کے روز اول سے ہی آر ایس ایس تنظیم کا یہ امتیازی وصف رہا ہے کہ وہ گمراہ کن الفاظ اور تعبیرات کی پرتوں میں چھپاکر اپنے مقاصد کی تکمیل میں کوشاں رہی ہے۔

اس کے باوجود اگر اسلام اور عیسائیت کے تئیں اس کے نظریہ میں کوئی بنیادی اور حقیقی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے تو جب تک اس کے واضح شواہد اور عملی ثبوت سامنے نہیں آتے، تب تک یہی مانا جائے گا کہ آر ایس ایس اپنی قدیم روش پر قائم ہے اور اقلیتوں کو ہمیشہ محتاط رہنا ہوگا کہ وہ سنگھ کے ساتھ تعامل میں دھوکہ نہ کھائیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آر ایس ایس اپنے وجود کے سو سالوں بعد بھی ہندوستانی عوام کے دلوں میں ایک غیر جانبدار اور انصاف پسند سماجی تنظیم کی حیثیت بنانے میں ناکام ہے۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor.nizami@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS