مولانا ندیم الواجدی
اس میں شک نہیں کہ معاشرے کی تعمیر وترقی میں اساتذہ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے، یہ لوگ نسلِ نو کو زیورِ تعلیم سے بھی آراستہ کرتے ہیں، اور انہیں حسنِ اخلاق کے سانچے میں بھی ڈھالتے ہیں، یہ اسکول، کالج، یونی ورسٹیاں ،یہ مکاتب، مدارس اور جامعات سب تعلیم وتربیت کے کارخانے ہیں، جہاں اچھے انسان ڈھالے جاتے ہیں، ان کی اصلاح کی جاتی ہے، ان کو انسانیت کی خدمت کے لیے تیار کیا جاتا ہے، اور یہ کام خود بخود نہیں ہوتا بلکہ اساتذہ کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے، ایک زمانہ تھا جب ان کارخانوں میں اچھے انسان ڈھلا کرتے تھے، آج حالات بدل چکے ہیں، اب یہ شکایت عام ہے کہ اسکولوں اور کالجوں سے جو نسل زیور تعلیم سے آراستہ ہوکر نکل رہی ہے وہ اخلاقی قدروں سے یک سر محروم ہے، اس زوال کا ذمہ دار اساتذہ کو ٹھہرایا جارہا ہے، کیوں کہ وہ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کررہے ہیں، مدرسوں کی حالت قدرے بہتر ہے، مگر اسے بھی پوری طرح اطمینان بخش نہیں کہا جاسکتا، اسکولوں اور کالجوں کا حال بڑا خراب ہے، تعلیم خدمت سے زیادہ تجارت کی شکل اختیار کرچکی ہے، ایک مہذب معاشرے میں تجارت بھی اعلا قدروں سے مبرا نہیں ہوتی، کالجوں میں تعلیم وتعلم کی صورت میں جو تجارت آج کل مروج ہے وہ ہر طرح کی قید وبندش سے آزاد ہے، طلبہ اور اساتذہ دونوں پر مادیت غالب ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ تعلیمی ادارے تعلیم میں کم دوسری چیزوں میں زیادہ مشغول ہیں، مار دھاڑ، قتل وغارت گری، ہلٹر بازی، ہنگامہ آرائی، تعلیمی مقاطعہ، گھیراؤ، یہ سب وہ عنوانات ہیں جو ہماری تعلیم گاہوں کی پیشانی پر جلی قلم سے لکھے جارہے ہیں، کبھی ان اداروں میں تہذیب سکھلائی جاتی تھی، اب بے شرمی اور بے حیائی کا سبق پڑھایا جارہا ہے، کالجوں کے کردار کی اس تبدیلی کی ذمہ داری اساتذہ پر زیادہ ہے جنہوں نے اپنے منصب کے تقاضوں کو پس پشت ڈالا، اور خود بھی ان تجارت گاہوں کا ایک حصہ بن گئے، ان حالات میں جو نسل تعلیم گاہوں سے نکلے گی اس سے ایک باوقار، پرامن، مہذب اور اعلا اقدار سے روشن معاشرے کی تعمیل وتشکیل کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے، ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ معاشرے میں معلم کو وہی حیثیت حاصل ہے جو چمن میں مالی کو حاصل ہوتی ہے، جس طرح پودوں کی مناسب افزائش مالی کی توجہ اور محنت کے بغیر نہیں ہوسکتی اسی طرح معلم کی دلچسپی اور توجہ کے بغیر چمنستان علم کے نونہالوں کی پرورش بھی ممکن نہیں ہے، معلم تعلیمی سرگرمیوں کا بنیادی مرکز اور محور ہے، اس کے بغیر تعلیم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں اساتذہ اور معلمین کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ہر مذہب نے طبقۂ معلمین کی قدر افزائی کی ہے، اسلام کیوں کہ بنیادی طور پر علم کا مذہب ہے اس لیے تعلیمات اسلام میں معلمین کی قدر افزائی کا پہلو اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے، اسلام نے معلم کو بہت بلند مقام عطا فرمایا ہے اور اس کی شخصیت کو نہایت مقدس اور انتہائی قابل تعظیم قرار دیا ہے، معلم کی اہمیت اور اس کی عظمت وتوقیر کا اندازہ لگانے کے لیے تنہا یہ بات کافی ہے کہ اللہ رب العزت نے خود اپنے آپ کو انسانیت کا معلم اول قرار دیا ہے، فرمایا: اَلرَّحْمٰنُ، عَلَّمَ الْقُرْآنَ، خَلَقَ الْإِنْسَانَ، عَلَّمَہُ الْبَیَانَ۔ (الرحمن:۴-۱) گویا اللہ نے اپنی صفت تخلیق کے بیان سے پہلے صفت تعلیم کا ذکر فرمایا ہے، جو کم اہم بات نہیں ہے، مفسرین نے اس کو اللہ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت قرار دیا ہے، فرماتے ہیں ’’رحمن وہی ہے جس کی بے شمار نعمتیں ہیں ان میں سے ایک روحانی نعمت یہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو احکام قرآن کی تعلیم دی‘‘۔ (خلاصہ تفسیر ابتدائی آیت سورۂ رحمن از معارف القرآن:۸/۲۴۱)
قرآن کریم کی ایک اور آیت میں اللہ نے اپنے معلم ہونے کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے: وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ ( البقرۃ:۲۸۲) معلمین کی اس سے بڑھ کر کیا شان ہوسکتی ہے کہ وہ حصول علم کے ذریعے خالق کائنات اور معلم اول کے تلامذہ میں شامل ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو اپنی یہ صفت اس قدر محبوب ہے کہ اس نے اپنے محبوب ترین بندے افضل الرسل، خاتم الانبیاء سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو اس صفت کا مظہر اتم بنا کر انہیں دنیا میں مبعوث فرمایا، ارشاد ربانی ہے: وَہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْأُمِّیّٖنَ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔(الجمعۃ:۲) اس آیت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے یہ تین مقاصد بیان فرمائے گئے ہیں (۱) تلاوت آیات (۲) تزکیہ (۳) تعلیم کتاب وحکمت، یہ تینوں مقاصد ایک دوسرے کے لیے تتمہ اور وجہ تکمیل ہیں، اور آخری مقصد ہی در اصل بنیادی مقصد ہے جس میں تلاوت بھی شامل ہے اور جس کے ذریعے نفوس کا تزکیہ بھی ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ میں آیات کی تلاوت کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں، یا مجھے تزکیہ کرنے کے لیے مبعوث فرمایا گیا ہے بلکہ یہ فرمایا: انما بعثت معلماً۔ (ابن ماجہ:۱/۲۶۵، رقم الحدیث: ۲۲۵) ’’مجھے معلم بنا کر مبعوث فرمایا گیا ہے‘‘،اس میں تینوں مقاصد آگئے۔
معلمین کے لیے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ اسلام نے روز اول ہی سے ان کا درجہ بلند رکھا ہے، اور ان کو مکرم ومعزز بنایا ہے، اور اس وقت بنایا ہے جب کسی انسان کو اس کا خیال بھی نہیںآتا تھا کہ معلمین کی قدر افزائی کے لیے کوئی خاص دن متعین کیا جائے، اسلام تو اس کا بھی قائل نہیں کہ معلم کی عظمت کا اعتراف کرنے کے لیے کوئی خاص دن معین ہو، وہ تو زندگی کی آخری سانس تک معلمین کی قدر افزائی کرتا ہے بلکہ اس حیاتِ ناپائیدار کے بعد آنے والی دائمی زندگی میں بھی اس کے درجات بلند کرتا ہے، قرآن کریم میں جہاں بھی اہل علم کی تعریف وتوصیف فرمائی گئی وہاں دنیوی یا اخروی زندگی کی کوئی قید نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس تعریف وتوصیف کا دائرہ دنیا کی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ مرنے کے بعد کی زندگی تک وسیع ہے، فرمایا: یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ۔ (المجادلۃ:۱۱) دوسری جگہ ارشاد ہے: قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَیَعْلَمُوْنَ۔ (الزمر:۹) علم اور علماء کے فضائل میں آیات بہت سی ہیں یہاں ان کا استقصاء مقصود نہیں ہے، صر ف یہ بتلانا مقصود ہے کہ قرآن کریم میں اہل علم کے بڑے فضائل مذکور ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ علم سے وابستہ افراد معاشرے کے اہم ترین افراد ہیں بلکہ بعض اوقات اہل علم کو عبادت گزاروں پر بھی فوقیت دی گئی ہے، حضرت ابو امامہ الباہلیؓ روایت فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی شخص نے دو آدمیوں کا ذکر کیا جن میں سے ایک عالم اور دوسرا عابد تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم۔ ’’عابد پر عالم کی فضیلت اتنی ہے جتنی فضیلت تم میں سے کسی معمولی درجے کے آدمی پر مجھے حاصل ہے‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’اللہ ، اس کے ملائکہ، آسمان اور زمین کے رہنے والے، یہاں تک چیونٹی اپنے بل میں، اور مچھلی (پانی کے اندر) سب کے سب اس شخص کے لیے دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں جو لوگوں کو خیر سکھلاتا ہو‘‘۔ (ترمذی: ۹/۲۹۹، رقم الحدیث: ۲۶۰۹) ہرچند کہ ان آیات وروایات کا مصداق علم دین اور علمائے دین ہیں، مگر اصل چیز اخلاص نیت اور مقصد ہے، دنیا کا ہر علم دین کے دائرے میں آسکتا ہے اگر ثواب کی نیت سے حاصل کیا جائے اور اس کے حصول کا مقصد انسانیت کی خدمت اور اس کی فلاح ہو۔ایک طرف معلمین کی اس قدر اہمیت وعظمت دوسری طرف ان کا روبہ زوال کرداروعمل، اس میں کہیں نہ کہیں خود معلمین کی کوتاہیوں کو بڑا دخل ہے، وہ خو د علم کے حقیقی راستے سے بھٹک گئے ہیں، اور تعلیم کے اصل تقاضوں کو فراموش کرچکے ہیں، ورنہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ طلبہ ان کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آتے، ان پر بھیتیاں کستے، ان کا دوبہ دو مقابلہ کرتے، اور ان کو مارتے پیٹتے، اساتذہ کی جو درگت آج بن رہی ہے اس کی بڑی وجہ وہ خود ہیں، ان کا طریقۂ کار ہے، ان کا طرز عمل ہے، انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ معلمی کے منصب پر فائز ہیں، جس سے بڑا کوئی منصب نہیں ہے، اس منصب کے کچھ تقاضے ہیں، کچھ مطالبے ہیں، اگر یہ تقاضے پورے نہیں کئے جائیں گے، اور ان مطالبوں پر کان نہیں دھرا جائے گا تو اس منصب کا حق ادا نہیں ہوگا۔
اس سلسلے میں ہمیں اسلام کے اصول تعلیم سے رہ نمائی حاصل کرنی چاہئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معلمین اور مدرسین کے لیے ایسے رہ نما اصول بیان فرمادئے ہیں کہ رہتی دنیا تک ان کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی، اگر ان اصولوں پر عمل کرلیا گیا تو دنیا کا ہر اسکول، ہر کالج، ہر مدرسہ اور ہر مکتب تعلیم وتربیت کا گہوارہ بن جائے گا، ان تعلیم گاہوں اور تربیت گاہوں سے جو نوجوان باہر نکلیں گے وہ مثالی نوجوان ہوں گے، دنیا ان پر رشک کرے گی، اور وہ خود بھی دنیا کے لیے ذریعۂ فلاح اور سرمایۂ افتخار ثابت ہوں گے۔
تعلیم دینے کا عمل کسی عبادت سے کم نہیں اگر وہ ریاء سے خالی ہو، اصل چیز اخلاصِ عمل ہے، یعنی مدرس یہ نیت رکھے کہ جو کچھ میں طالب علموں کو پڑھا رہا ہوں یا انہیں سکھلا رہا ہوں وہ سب اللہ کی رضا جوئی کے لیے ہے، نہ مجھے مال ودولت کا لالچ ہے، اور نہ میرے دل میں نام ونمود کی خواہش ہے، اس عمل سے میری کوئی دنیوی غرض وابستہ نہیں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عالم کو طلب فرمائیں گے اور اس سے پوچھیں گے کہ میں نے تجھے علم دیا تھا تونے اس کا کیا حق ادا کیا، عالم کہے گا یا اللہ! میں نے آپ کی رضا کے لیے علم سیکھا اور آپ کی رضا کے لیے دوسروں کو علم سکھلایا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو جھوٹ کہتا ہے، فرشتے بھی کہیں گے تو جھوٹ بولتا ہے، تونے اس لیے علم حاصل کیا تھا اور اس لیے دوسروں کو سکھلایا تھا تاکہ لوگ تجھے بڑا عالم کہیں، چناں چہ لوگوں نے دنیا میں تجھے بڑا عالم کہا، تیرا مقصد پورا ہوچکا ہے، اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہیں گے اس شخص کو جہنم کی آگ میں اوندھے منہ ڈال دو۔(مسلم:۱۰/۹، رقم الحدیث: ۵۳۲۷، نسائی: ۱۰/۱۹۹، رقم الحدیث: ۳۰۸۶) راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہـؓ یہ حدیث بیان کرتے ہوئے تین مرتبہ بے ہوش ہوئے، اور تینوں مرتبہ انہیں پانی کے چھینٹے مار کر ہوش میں لایا گیا۔
استاذ کو چاہئے کہ وہ اپنے شاگردوں پر اس طرح مہربان رہے جس طرح اپنے کمسن بچوں پر مہربان رہتا ہے، تمام صحابۂ کرام ؓ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تلامذہ تھے، زندگی کے ہر نشیب وفراز سے آگاہی ان حضرات نے درس گاہِ نبوت سے حاصل کی، مرنے جینے کی تمام ادائیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وعمل سے سیکھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تلامذہ پر کس قدر مہربان تھے، کتنے شفیق تھے۔