محمد فاروق اعظمی
جمہوریت کا اصل جوہر اس کی شفافیت، غیرجانبداری اور عوام کے اعتماد میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ جب تک یہ اجزا قائم رہتے ہیں، تب تک جمہوریت کا نظام طاقتور اور کامیاب رہتا ہے، لیکن جب ان ستونوں میں دراڑ پڑتی ہے تو جمہوریت کی عمارت ہلنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہندوستان میں حالیہ برسوں میں جمہوریت کے ان ہی ستونوں پر حملے دیکھے گئے ہیں، جس سے انتخابی عمل کی غیر جانبداری اور شفافیت پر سوالات اٹھے ہیں۔ مودی حکومت کے اقدامات نے انتخابی عمل کی آزادانہ نگرانی اور شفافیت کو سنگین خطرے میں ڈال دیا ہے اور ان کا یہ اقدام جمہوریت کے مستقبل کیلئے ایک سنگین انتباہ بن چکا ہے۔
20 دسمبر 2024 کو پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے آخری دن ہندوستان کے انتخابی قوانین میں ایک اہم ترمیم کی گئی، جس سے عوامی سطح پر انتخابی مواد تک رسائی محدود کر دی گئی۔ اس ترمیم کے تحت سی سی ٹی وی فوٹیج، ویڈیوز اور ویب کاسٹنگ مواد جیسے انتخابی ریکارڈز تک عوام کی رسائی کو ختم کر دیا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کا مقصد سیکورٹی کو یقینی بنانا اور الیکٹرانک مواد کے غلط استعمال کو روکنا ہے، خصوصاً دہشت گردی یا دیگر حساس مقامات پر۔ تاہم اس دلیل کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے،کیونکہ اس اقدام کا مقصد واضح طور پر انتخابی عمل کی شفافیت کو چھپانا اور عوامی نگرانی کو کمزور کرنا تھا۔
یہ ترمیم اس وقت اور زیادہ مشکوک ہو جاتی ہے جب اسے ایک عدالتی حکم کے فوراً بعد متعارف کرایا گیا۔ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہریانہ اسمبلی انتخابات کے دوران استعمال ہونے والے ویڈیو مواد اور دیگر انتخابی ریکارڈز کو عوامی معائنے کیلئے فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس حکم کے بعد حکومت نے فوراً انتخابی ضوابط میں تبدیلی کی، جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ یہ ترمیم عدلیہ کے فیصلے کو نظرانداز کرنے اور عوامی نگرانی کو روکنے کیلئے کی گئی ہے۔ اگرچہ حکومت کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم سیکورٹی اور رازداری کے تحفظ کیلئے ضروری تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تبدیلی کا مقصد صرف شفافیت اور غیر جانبداری کو نقصان پہنچانا تھا۔
اس ترمیم کے ذریعے عوام کو انتخابی عمل کی نگرانی سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی، جو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ جمہوریت کی کامیابی اس بات میں ہے کہ عوام اپنے ووٹ کے عمل کو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ دیکھ سکیں۔ اگر عوام کو انتخابی عمل کی نگرانی سے دور رکھا جائے تو وہ اس میں شریک ہونے کے بجائے اس سے بے اعتماد ہوجاتے ہیں۔ اس ترمیم نے عوام کی رسائی کو محدود کر کے ان کے جمہوری حقوق کو پامال کیا ہے۔ جمہوریت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ عوام کے پاس اپنے حقوق کا تحفظ اور اس کے عمل کی نگرانی کا اختیار ہو، لیکن اس ترمیم کے ذریعے اس حق کو چھین لیا گیا ہے۔
ایک اور پہلو جس پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، وہ الیکشن کمیشن کی آزادی ہے۔ ہندوستان میں الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، جسے آزادانہ طور پر انتخابی عمل کی نگرانی کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن مودی حکومت نے اس ادارے کی آزادی کو محدود کرنے کیلئے ایک اور سنگین قدم اٹھایا ہے۔ حکومت نے الیکشن کمیشن کی سربراہی کے انتخاب کے عمل میں تبدیلی کی ہے، جس سے حکومت کے اپنے وفادار افراد کے انتخاب کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔ اس تبدیلی کے مطابق، چیف الیکشن کمشنر کا تقرر اب وزیراعظم، ایک مرکزی وزیراور اپوزیشن لیڈر کے مشورے سے ہوگا۔ اس نئے نظام نے اس ادارے کی غیر جانبداری کو مزید مشکوک بنا دیا ہے، کیونکہ اب حکومت اپنے منتخب افراد کو اس اہم ادارے میں تعینات کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
الیکشن کمیشن کی آزادی کے حوالے سے سوالات پہلے بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں، خاص طور پر بی جے پی کے رہنماؤں کے خلاف نرم رویہ اپنانے اور اپوزیشن کے رہنماؤں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے معاملے میں۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک جانبدار ادارہ بن چکا ہے، جس کی کارروائیاں حکومت کے مفاد میں ہیں۔ اس حوالے سے عوامی شکایات بھی بڑھ گئی ہیں اور اب الیکشن کمیشن کی ساکھ پر سنگین سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں) کا مسئلہ بھی عوامی اعتماد کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ای وی ایم پر مسلسل ہیکنگ اور دھاندلی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں، لیکن الیکشن کمیشن نے ان الزامات کو ہمیشہ نظرانداز کیا ہے۔ ای وی ایم کے بارے میں عوامی خدشات بڑھتے جا رہے ہیں اور انتخابی عمل پر عوامی اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ یہ صورت حال جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے، کیونکہ اگر عوام کو انتخابی عمل پر اعتماد نہ ہو تو وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے میں ہچکچاتے ہیں۔
جہاں ایک طرف حکومت نے انتخابی شفافیت کو محدود کیا ہے، وہاں دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے اس ترمیم کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم صرف حکومت کی من مانی کو تحفظ دینے کیلئے کی گئی ہے، تاکہ عوام کے جمہوری حقوق کو پامال کیا جاسکے۔ ان کا موقف ہے کہ انتخابی عمل کی نگرانی ضروری ہے تاکہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہو رہی ہے اور اپوزیشن کو توقع ہے کہ عدالت اس حوالے سے ایک مضبوط فیصلہ دے گی جو جمہوریت کے تحفظ کیلئے ضروری ہوگا۔
یہ ترمیم نہ صرف انتخابی عمل میں شفافیت کی کمی کا باعث بنی ہے بلکہ یہ جمہوریت کی بنیادوں کو بھی ہلا رہی ہے۔ جمہوریت کا ہر عمل عوام کے حقوق کی ضمانت ہوتا ہے اور اگر ان حقوق کو پامال کیا جائے تو پورا نظام متاثر ہوتا ہے۔ عوام کا اعتماد جمہوریت کی بنیاد ہے اور اگر یہ اعتماد ٹوٹ جائے تو جمہوریت کا خواب محض ایک گزرے وقت کی یاد بن کر رہ جائے گا۔
موجودہ حکومت کے اقدامات نے واضح طور پر انتخابی شفافیت پر ڈاکہ ڈالا ہے اور اگر ان ترامیم کو واپس نہ لیا گیا اور انتخابی اداروں کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع نہ دیا گیا تو ہندوستان کا جمہوری نظام شدید نقصان اٹھا سکتا ہے۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ عوام کو اپنے حقوق کی حفاظت اور انتخابی عمل کی نگرانی کا مکمل موقع دیا جائے تاکہ شفافیت اور غیر جانبداری قائم رہ سکے۔ اگر یہ اصول پامال کیے جائیں تو نہ صرف انتخابی عمل مشکوک ہوجائے گا بلکہ جمہوریت کی اصل روح بھی متاثر ہو گی۔