عبدالسلام عاصم
بالاتفاق رضوی سے بالانتخاب تیاگی بن جانے والے ایک انتہائی متذکرہ کردار کو اب تک کے اخباری دستاویزات میں بین السطور پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ شخص ماننے سے جاننے کے سفر میں ایک ایسے منظرنامے پر اعتراض کر بیٹھا جو منظر نامہ اُس مذہب کا ہے ہی نہیں جسے بالآخر اُسے چھوڑنا پڑا۔ ابراہیمی اور غیر سامی ادیان میں جتنی بھی باتیں اختلافات اور مسلک در مسلک تقسیم کا سبب بنی ہیں وہ مذاہب کی حقیقی ترجمانی نہیں کرتیں بلکہ مذہبی ہدایات کی ایک سے زیادہ تعبیر و تشریح سے پیدا صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں۔ بنیادی طور پر اسلام سمیت تمام مذاہب دنیاکی تخلیق کے مقصدِایزدی کے ترجمان ہیں۔
متذکرہ کردار نے جن 26 قرآنی آیات پر اعتراض کرنے سے لے کر مذہب بدلنے تک کا سفر طے کیا ہے، اُس سفر کی راہ خالقِ کائنات نے تیار نہیں کی تھی۔وہ راہ مذہب کی ایک سے زیادہ تعبیر و تشریح نے پیدا کی تھی جس پر چل کر اُن سے پہلے بھی لوگ گمراہ ہو چکے ہیں۔متفقہ سچ یہ ہے کہ کوئی بھی مذہبی کتاب غلط نہیں۔البتہ اُن کی غلط تفہیم سے اختلاف پیدا ہوتا ہے۔غلط تفہیم سے اتفاق نہ کرنے والے کبھی کبھی اپنی ذہنی عجلت پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ علامہ نیاز فتح پوری سے سابق وسیم رضوی تک یہی سفر دراز ہوتا آیا ہے اور ماننے سے جاننے کے بیچ خلیج اگر اسی طرح قائم رہی تو شاید کل بھی یہ افسوسناک سلسلہ جاری رہے گا۔بظاہر مسٹر رضوی/تیاگی جو سوچ رکھتے تھے وہ ماننے سے جاننے کے سفر میں اُنہیں روشن خیال بنانے کے بجائے گمراہ کرتی گئی۔عجلت پسندی نے اُن کی سوچ کو بے چین رکھنے اور اظہار کی صورت میں اضطراب پھیلانے کا محرک بنا دیا۔ اگر اُن میں اپنی فکری بے چینی کی تفہیم کی وسعت ہوتی تو نہ وہ اُن قرآنی آیات کو نشانہ بناتے اور نہ ہی اُن کا سابقہ دینی الحاق انہیں بدلے ہوئے حالات میں خطرے میں ڈالتا نظر آتا۔
اہل علم اِس بات پر متفق ہیں کہ کوئی بھی مذہبی کتاب غلط نہیں۔ اُن کی غلط تفہیم سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور نزاع کھڑا ہوتا ہے۔ یہ نزاعی معاملات جب تک علمی دائرے میں رہتے ہیں تب تک تو نہ آسمان پھٹتا ہے نہ زمین کانپتی ہے لیکن جب اِس کی گونج عام حلقوں میں سنائی دینے لگتی ہے، جہاں جاننے والوں سے زیادہ ماننے والے بستے ہیں تو انسانی زندگی کے تقدس کی پامالی کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ علامہ نیاز فتح پوری سے سابق وسیم رضوی تک اس حوالے سے عمل اور رد عمل کا دائرہ اگر شدید نظر آتا ہے تو کچھ ایسی بھی نظیریں ہیں جہاں مذاہب کو رفتار زمانہ سے ہم آہنگ رکھنے میں ملتوں کو زبردست تقویت ملی ہے۔ اسلام کی سیاسی تعبیر سے مرحوم مولانا وحید الدین خاں نے بھی اختلاف کیا تھا اور آخری سانس تک اس پر قائم رہے لیکن انہوں نے اپنے اختلاف کے حوالے سے کبھی ایسی مجلسی بحث نہیں کی جو صرف مجلس بازوں کو راس آتی ہے، اہل علم کو نہیں۔
مسٹر رضوی/تیاگی اپنے موقف میں خواہ کتنے ہی سچے ہوں وہ اپنے اعتراض کو چینلائز کرنے کی استطاعت سے محرومی کی وجہ سے قرآنی آیات پر ہی اعتراض کر بیٹھے۔ اُن کے اصل اعتراض کا رخ ہو سکتا ہے کہیں اور ہو لیکن وہ اُس رخ پر تفہیم کے عمل سے گزرنے کے بجائے سیدھا نشانہ لگا کر خود بھی الجھ گئے اوردوسروں کو بھی اُلجھا دیا۔قرآنِ کریم کی متعلقہ آیات پر وہ ہرگز اعتراض نہ کرتے اگر انہوں نے اُن آیات کا سیاق و سباق سے ہٹ کر انتخاب نہ کیا ہوتا۔ غیر علمی معاشرے میں سیاق و سباق سے ہٹ کر جو کتابی جملے منتخب کیے جاتے ہیں، اُن سے یا تو مقلدانہ گمراہی پھیلتی ہے یا فساد کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال، مولانا عبدالماجد دریا آبادی سے لے کر عصری غامدی صاحبان تک سبھی قرآن و حدیث کی بعض کمزور یا یکطرفہ تفہیمات سے اعراض کرتے آئے ہیں لیکن ان لوگوں نے اعراض اور اعتراض کے فرق کو کہیں گڈمڈ ہونے نہیں دیا۔ بہ الفاظ دیگر اپنے کسی بھی وضاحتی بیان کو ایسی مخدوش شکل نہیں دی کہ اُس کا بھی غلط مفہوم نکل جائے اور بات کا بتنگڑ بن جائے۔
علامہ اقبال نے بھی شکوہ کے بعد جواب شکوہ یوں ہی نہیں لکھا تھا۔ اُنہیں ایک دم سے یہ احساس ہوا تھا کہ اُن کی تحریر پڑھے لکھے خواص تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ عام قاری جو پڑھنے لکھنے کے باوجود اپنے طور پر معصوم یا منظم طور پر کنڈیشنڈ ہوتا ہے وہ غور و فکر کے رُخ پر کسی بھی بے باک تحریرکا غلط مفہوم نکال سکتا ہے۔ علامہ کی اِس احتیاط کے باوجود آگے چل کرکچھ حلقوں میں اعتراضات ہوئے۔ اُن کے بعض ایسے اشعار نے پریشانیاں بھی کھڑی کیں جن میں مذہب کی انسانی بہبود رُخی پابندی کی بات کہی گئی تھی اوربے جا مذہبی فخرسے گریز کی تلقین کی گئی تھی۔ شدت پسند اور جذباتی مذہبی وابستگی رکھنے والے حلقوں میں علامہ کے اِس شعر سے لوگوں نے ہمیشہ گمراہ کن استفادہ کیا کہ:وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود/ یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔ علامہ کو اس شعر میں تفاخر پسندانہ موازنہ مقصود نہیں تھا لیکن بات اتنی راست کہی گئی تھی یا ماحول اتنا حساس ہوتا چلا گیا تھا کہ شعر کا اصل مقصد ہی فوت ہوگیا۔ اِسی طرح علامہ کے اور بھی اشعار ہیں جن کی مقصدیت کو شدت پسندوں سے نقصان پہنچا ہے۔
مذہب بیزاری اپنے آپ میں کوئی تحریک کبھی نہیں رہی۔ مذاہب نے ہمیشہ انسانوں کو انسانی اخلاقیات کا پابند بنانے کے آفاقی نسخے ترتیب دیے ہیں۔ سائنسی تحقیق میں مذہب بیزاری کو خالصتاً ردعمل پایا گیا ہے اور ضروری نہیں کہ ہر ردعمل تزویراتی ہو۔دنیا کے ایک قابل لحاظ حصے کو متاثر کرنے والی یساری تحریک بھی مذہبی شدت پسندی کے خلاف انتہاپسندانہ ردعمل کا ہی نتیجہ تھی۔ایک انتہا کا دوسری انتہا سے مقابلہ کرنے کا انجام سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح مختلف ادیان کے درمیان رسہ کشی بھی تفہیم کی قلت کا شاخسانہ ہے۔ ابراہیمی ادیان اور غیر سامی مذاہب بشمول ہندو مت میں کہیں کرم یعنی اعمال پر کسی ظاہری رسم کو ترجیح نہیں دی گئی۔ آنحضور صلعم نے بھی اپنے آخری خطبے میں حسب اور نسب پر اعمال کو انسان کے اچھے ہونے کا پیمانہ قرار دیا تھا۔
ساری خرابیاں سیاق وسباق سے ہٹ کر مفہوم نکالنے اور بین مذاہب برتری اور کمتری کی باتیں کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ کل بھی جو لوگ گمراہ ہوئے وہ اپنے اخذ کردہ نتیجے سے آگے یا ہٹ کر سوچنے پر قادر نہیں تھے، سابق رضوی جی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ بھی قرآنی سلسلہ کلام کو سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنے کے بجائے آگے پیچھے کی عبارتوں سے ہٹ کر ایک دو نہیں بلکہ26آیات کو نشانہ بنانے کی بظاہرحماقت کر بیٹھے۔ ملک کے موجودہ کم و بیش منافرت بھرے ماحول میں جس کے زائد از ایک اسباب ہیں، اِس ایپی سوڈ سے میڈیا کو محتاط طریقے سے نمٹنا چاہیے۔ متعلقہ خبروں میں ایڈجیکٹو وغیرہ کا زیادہ استعمال نہ کیا جائے۔ قارئین پر اِس کا منفی اثر پڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو زیر بحث واقعہ ذمہ دارانِ مذاہب کو حالات کے تازہ موڑ پر بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اسلام اور سناتن دھرم کے ذمہ داران ایک دوسرے کیلئے اجنبی نہیں۔ دونوں حضرت آدم/ سویبھومنو اور ماں حوا/شتروپا کی اولاد ہیں یعنی اُن میں خون کا رشتہ ہے۔ وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور بین مذاہب اسٹیج بھی شیئر کرتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اسٹیج کی مفاہمت گھر گھر تک پہنچائی جائے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]