پروفیسر عتیق احمدفاروقی
ایران کے ہوائی حملے کی جوابی کارروائی کرکے پاکستان نے اس پورے علاقے کے ا من کو خطرے میں ڈال دیاہے۔یہ نظریہ ہماری میڈیا کے ایک حلقہ کا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ جتنا خطرناک نظرآرہاہے اتنا خطرناک ہے نہیں۔ ایران اورپاکستان کے تعلقات اتنے کمزور نہیں ہیں کہ ان واقعات سے دونوں کے درمیان جنگ چھڑ جائے۔ دونوں ہی ممالک کے وزیرخارجہ نے اپنا موقف واضح کردیاہے۔ ایران کا کہناہے کہ اس نے پاکستان کے شہریوں پر بم نہیں گرایاہے بلکہ ایرانی دہشت گردوں کے اس ٹھکانے کو نشانہ بنایاہے جو ان کے ملک میں آکر دہشت گردی کی واردات انجام دیتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی حکومت نے بھی واضح کردیاکہ اس کا حملہ ایرانی شہریوں کے خلاف نہیں تھابلکہ ایران کی سرحد پر سرگرم ان دہشت گردوں کے خلاف تھا جو پاکستانی سرحد میں داخل ہوکر تشدد برپا کرتے ہیں۔ چنددنوں قبل جب تہران نے پاکستان کے بلوچستان میں اپنے ڈرون بھیجے اورمیزائل داغے تھے،تب یہی مانا گیاتھا کہ فی الحال تین مورچوں (ہندوستان،داخلی دہشت گردی اورعمران خان کامعاملہ) پر الجھا اسلام آباد کشیدگی کا ایک اوردروازہ شایدہی کھولنا چاہے گا، مگر گھریلو دباؤ اورمغربی اورجنوبی ایشیاء میں اپنی سیاسی ساکھ کے مدنظر اس نے ایران کے سیستان-بلوچستان صوبہ پر جوابی حملہ کیاجس کے بعد گیند پھر سے تہران کے پالے میں آگئی ہے۔ ایسے میں یہ کہنامشکل ہے کہ حالات اب کیاکروٹ لیں گے؟لیکن کیونکہ دونوں ہی ممالک نے تاریخی دوستی کا حوالہ دیاہے اس لئے ابھی بہت تشویش کی بات نہیں ہے۔
ایران کیلئے دوطرفہ مشکلیں ہیں۔ اگر وہ اب خاموش بیٹھتاہے تواس پر بھی داخلی دباؤ بڑھ جائے گا اور اگراس نے دوبارہ کوئی جوابی کارروائی کی تو اس پورے علاقے میں جنگ بھڑکنے کا امکان بڑھ جائے گا۔دراصل تہران اپنے اوپر عوامی دباؤ محسوس کررہاتھا ۔ اس پر دہشت گردوں کے حملے لگاتار ہورہے تھے، خاص طور پر پاکستان کی سنی تنظیموں کے ذریعہ ۔ تہران اوراسلام آباد کے درمیان یہ مدعہ لگاتار بنارہاہے اورایران نے اسے روکنے کی وقتاً فوقتاً گزارش بھی کی ہے، مگرپاکستان نے کبھی دھیان دیا تو کبھی ان سنی کردی۔ ایران کے سیستان-پلوچستان صوبہ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہاں پر بلوچی اکثریت میں ہیں اورایرانیوں سے نسلی طور پر الگ ہیں کیونکہ ایران میں شیعہ اکثریت میں ہیں جبکہ سیستان- بلوچستان میں سنیوں کی اکثریت ہے ان کی زبان بھی باقی ایرانیوں سے الگ ہے۔ پاکستان کا بلوچستان اس معاملے میں جد اہے کہ وہاں شیعہ سنی کا کوئی معاملہ نہیں ہے، لیکن وہاں بلوچ علاحدگی پسندی کی تحریک چل رہی ہے۔ چونکہ دسمبر کے بعد سے ایران پر دہشت گردوں کے حملے تیز ہوگئے تھے ،نتیجتاً اس نے جوابی حملے شروع کئے۔ اس کیلئے اس نے تین نشانے چنے ۔ اول ، شام کے ادلب میں آئی ایس کے ٹھکانوں پر ، جہاں اسدحکومت کا دخل کم وبیش ختم ہوچکاہے۔ دوئم، عراق کے اربل میں ، یہاں بھی اس کی حکومت کا اتنا اثرنہیں ہے اور یہ کم وبیش ایک خودمختار علاقہ بن چکاہے اور سوئم ،پاکستان کے بلوچستان میں۔ ایران کا منصوبہ یہ رہاہوگاکہ ان حملوں سے اسے داخلی دباؤ ہٹانے میںمددملے گی اورچونکہ یہاں سے کوئی رد عمل نہیں ہوگا تو اس کیلئے مشکلیں بھی پیدانہیں ہوں گی مگر پاکستان نے پلٹ وار کردیا۔ ایسا کرنا اس کی مجبوری بھی تھی۔ جوہری طاقت سے لیس یہ ملک خود کو ایک بڑی جنگی طاقت مانتاہے۔ تازہ کارروائی کے بعد پاکستانی فوج کیلئے یہ لازمی تھا کہ وہ اپنے اقتدار اعلیٰ میں ایرانی دخل اندازی کا معقول جواب دے اوراپنا وقار بچائے رکھے۔
اب کیا ایران خاموشی سے بیٹھ جائے گا،ہوسکتاہے سفارتی سطح پر دونوں ممالک میں کچھ قرار ہوجائے کیونکہ پاکستان اورایران دونوں ہی جنگ میں الجھنا نہیں چاہیں گے۔ پاکستان داخلی مسئلوں میں الجھاہواہے اورایران اسرائیل -حماس جنگ کے سبب حزب اللہ اورحوثی جنگجوؤں کی حمایت میں سرگرم ہے۔ اگرایران خاموشی سے بیٹھ جاتاہے تو دنیا بھرمیں اس کی بات خراب ہوگی، لیکن ان حالات میں وہ بے عزتی برداشت کرلے گا اورامیدکی جانی چاہیے کہ پورے علاقے میں کشیدگی نہیں بڑھے گی ،ہاں اسرائیل -حماس کی جنگ کا دائرہ بڑھ رہاہے۔ وادی شیبامیں بھی لبنانی گروپ حزب اللہ اوراسرائیل کے درمیان جھڑپ چل رہی ہے۔ یمن میں حوثی باغیوںنے سمندری تجارت میں سیند ھ لگانی شروع کردی ہے جس کا عالمی اقتصادی نظام پر خراب اثر پڑرہاہے۔ دوسری طرف ایران اورپاکستان دونوں ہی ممالک جنگ کے اقتصادی اورجانی نقصانات سے بخوبی واقف ہیں۔ ایسے میں چین کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے ۔ چونکہ امریکہ اس معاملے میں شاید ہی دخل دے اس لئے بیجنگ ممکنہ طور پر دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی کوشش کرسکتاہے۔ حالانکہ یہ کب اورکس شکل میں ہوگا فی الحال واضح طور پر نہیں کہاجاسکتا۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ایران کیلئے حالات بہتر ہونے لگے تھے ۔ کشیدہ مغربی ایشیاء کو سنبھالنے میں اسے ایک بڑا کردار ملتاہوا دکھائی دے رہاتھا،یہاں تک کہ سعودی عرب ومتحدہ عراب امارات جیسے ممالک بھی اس سے اپنے تعلقات بحال کرنے لگے تھے جبکہ پہلے ان کے تعلقات کافی کشیدہ تھے۔مگرلگاتار دہشت گردانہ حملوں نے ایران کیلئے مشکلیں پیدا کردی تھیں ۔ پہلے عالمی نظام کے کچھ ضابطے طے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھاکہ کوئی ملک کسی دوسرے کی سرحد میں دخل نہیں دے گا اورنہ ہی کسی کے اقتداراعلیٰ پر چوٹ کرے گا، مگر اسرائیل جیسے کچھ ممالک ، جن کی حمایت (اسلحہ واقتصادی) امریکہ اورمغربی ممالک کھلے عام کررہے ہیں ۔وہ اس قانون کو بالائے طاق رکھے ہوئے ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت اورانسانی حقوق کی دہائی دینے والے مغربی ممالک اورامریکہ بے گناہ فلسطینیوں کامسلسل قتل عام کرنے والے اسرائیل کی مذمت کرناتو دور اس کی اقتصادی اوراسلحہ سے مدد بھی کررہے ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ برسہابرس کس طرح اسرائیل نے غزہ اورمغربی کنارے پر ظلم کا پہاڑ توڑا ہے ۔ اس سے بڑی دہشت گردی کی مثال مل نہیں سکتی۔ لیکن اُن ممالک کو دہشت گرد کہنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔ ایسے میں عالمی نظام کی وہ پرانی شکل کیسے بحال ہوگی اس کی ترکیب سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ امریکہ جیسے سپرپاور کے پاس یقینا اتنی طاقت ہے کہ وہ عالمی نظام کو درست کردے لیکن وہ ایسا نہیں کرے گاکیونکہ اس کا ملکی مفاد اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ دوسرے انسانیت کا جذبہ دنیا سے ختم ہوتاجارہاہے۔
اس لحاظ سے ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک لحاظ سے ہندوستان کیلئے یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان اپنے معاملات میں الجھارہے ۔ اس سے کشمیر میں جودہشت گردی کی کارروائیاں چلتی رہتی ہیں ، اس میں ہوسکتاہے کہ کچھ کمی آجائے۔ سمندی راستوں پر اگرحوثیوں کے حملے کے سبب تعطل پیدا ہوتاہے اس سے اپنے ملک کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔ ہم ایران کے ساتھ بھی پوری طرح سے نہیں جاسکتے کیونکہ ایسا کرنا ہمارے کئی دوست ممالک کو ناگوار گزرسکتاہے۔ ہمارے مفاد میں یہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں اصلاح کریں تاکہ اس سے نہ صرف کشمیر میں امن بحال ہوگا بلکہ دشمن ممالک کی فہرست میں ایک ملک کم ہوجائے گا۔ پھر چین کو منھ توڑ جواب دینے میں ہمیں آسانی ہوگی۔ ظاہر ہے ہمارے محدود متبادل ہیں اس لئے ہمیں اپنے مفاد کو سب سے اوپر رکھ کر ہی قدم بڑھانا ہوگا۔ فی الحال ہم پر کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن خلیج ممالک کی کشیدگی ہمارے یہاں پیٹرول اورپیٹرولیم مصنوعات جیسی ضرروری اشیاء پر الٹااثرڈال سکتاہے، ساتھ ہی سمندری تجارت کو بھی متاثرکرسکتا ہے۔ لہٰذا ا ن پورے واقعات پر ہوشیا نگاہ رکھتے ہوئے متبادل طریقوں پر بھی غور کرناہوگا۔ urt