ستیش سنگھ
کسی بھی ملک میں معمر افراد کی تعداد یعنی 65سال سے زیادہ عمر والے لوگوں کی تعداد بڑھنے سے بچت میں کمی، افرادی قوت میں گراوٹ، سرمایہ کاری کے ریٹرن میں کمی اور سرمایہ کاری کی شرح میں کمی دیکھی جاتی ہے۔ ہندوستان، امریکہ اور چین کے مقابلہ نوجوان ملک ہے اور آئندہ دہائیوں میں بھی یہ نوجوان بنا رہے گا۔ 2011میں معمر افراد کی آبادی چین میں 32.6فیصد اور امریکہ میں 23.2فیصد ہوجائے گی۔
امریکہ، لمبی زندگی کی توقع، کم شرح پیدائش، صحت دیکھ بھال کی بڑھی لاگت کی وجہ سے پریشان ہے، کیوں کہ وہاں پبلک ہیلتھ کیئر کے اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس وجہ سے وہاں مزدوروں کی تعداد میں زبردست کمی آئی ہے۔ ورکرس کے لیے امریکہ کا انحصار دوسرے ممالک پر بڑھا ہے۔ صنعتوںپر بھی منفی اثر پڑا ہے۔ بچے، نوعمر اور نوجوانوں میں اکیلے پن اور ذہنی دباؤ کے معاملات دیکھے جارہے ہیں۔
لمبے وقت تک ایک بچہ پیدا کرنے کی پالیسی کی وجہ سے چین میں نوجوانوں کی آبادی کی تعداد بہت زیادہ کم ہوگئی ہے اور معمر افراد کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں افرادی قوت کم ہونے سے ملک کی معاشی اور سماجی حالت پر منفی اثر پڑرہا ہے۔ سال 1980میں آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے چین نے ایک بچہ کی پالیسی کو نافذ کیا تھا۔ اس اسکیم کو سختی سے نافذ کیا گیا۔ اس سلسلہ میں لوگوں کو ملازمت سے برخاست کرنے کے علاوہ خواتین کا زبردستی اسقاط حمل بھی کرایا گیا۔
اس پالیسی کی وجہ سے چین کے اقتصادی اور سماجی ڈھانچہ میں وسیع پیمانہ پر بڑی تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ بچے مایوس اور ذہنی دباؤ کے شکار ہورہے ہیں۔ نفسیاتی وجوہات سے ان کی پرورش ٹھیک طریقہ سے نہیں ہوپارہی ہے۔ بچوں میں اعتماد کی کمی دیکھی جارہی ہے۔ مقابلہ سے بچے بچنے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔ ایک بچہ ہونے سے والدین کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم کی سطح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ ڈگری حاصل کرنے میں لگے ہیں۔ بدلے ہوئے منظرنامہ میں تعلیم بھی مہنگی ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن کے مطابق اگلی صدی میں چین کی کام کرنے والی آبادی (ورکنگ پاپولیشن) کی آبادی محض 54.8کروڑ رہ جائے گی۔ ایک اندازہ کے مطابق 2030 تک چین کی آبادی میں عمر کے فرق کے معاملہ میں ایک بڑی کھائی پیدا ہوجائے گی۔ ظاہر ہے، مزدور طبقہ میں کمی آنے سے ملک کا بنیادی ڈھانچہ، جو ترقی کو رفتاردینے والا ہوتا ہے پر منفی اثر پڑے گا۔ افرادی قوت کی کمی سے سڑک، بجلی، صحت،تعلیم، صنعت، مینوفیکچرنگ وغیرہ پر منفی اثر پڑے گا۔
ہندوستان کی ریاستوں میں معمر افراد کی آبادی کو لے کر پیچیدہ صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ اعداد و شمار سے علم ہوتا ہے کہ کچھ ریاستوں، جس میں زیادہ تر جنوبی ہند کی ریاستیں شامل ہیں میں معمر افراد کی آبادی میں غیرمتوقع اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق ہندوستان کی آبادی 2050تک 178کروڑ تک پہنچ سکتی ہے، جبکہ عالمی بینک کے مطابق 2050تک ہندوستان کی آبادی 173کروڑ ہوگی، جس میں 27کروڑ کی آبادی معمر افراد کی ہوسکتی ہے۔ ریاست کے لحاظ سے دیکھنے پر یہ تعداد خطرناک نظرآرہی ہے۔ 2050تک 4جنوبی ریاستوں جیسے آندھراپردیش، کیرالہ، کرناٹک اور تمل ناڈو میں کل آبادی کا پانچواں حصہ معمر افراد کی آبادی کا ہوجائے گا، جس سے مشرق اور شمال مشرق ہندوستان سے آنے والی دہائیوں میں مزدوروں کی مسلسل نقل مکانی ہوگی، جیسا کہ گزشتہ ایک دہائی سے ان ریاستوں میں ہورہی ہے۔ اترپردیش، راجستھان، آسام، بہار، ہریانہ وغیرہ ریاستوں میں 2050میں نوجوان آبادی کی تعداد زیادہ رہے گی، جس کی وجہ سے ان ریاستوں سے جنوبی ریاستوں میں نوجوانوں کی نقل مکانی جاری رہے گی۔
ایسی تبدیلیوں کی وجہ سے جنوبی ریاستوں کے بنیادی ڈھانچہ پر بھی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ ’’آبادیاتی بحران‘‘ سے بچنے کے لیے آندھراپردیش نے لوگوں کو اور زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا شروع کردیا ہے۔ ریاست کے لحاظ سے فی شخص آمدنی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جنوبی ریاستیں، شمالی ریاستوں کے مقابلہ میں زیادہ خوشحال ہیں اور دونوں خطوں کی آمدنی میں بڑا فرق ہے۔ مثال کے لیے کرناٹک اور بہار کے درمیان فی شخص آمدنی کا فرق 1.1لاکھ روپے ہے، وہیں کرناٹک اور اوسط قومی آمدنی کے درمیان تقریباً 57,000روپے کا فرق ہے۔ 2050تک، جنوبی ریاستوں میں معمرافراد کی آبادی بڑھے گی، جس سے آمدنی کی تقسیم کا فرق اور بھی زیادہ ہوگا۔
کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں آبادیاتی تبدیلی ایک بڑے بحران کی جانب اشارہ کررہی ہے، جس پر بروقت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ مطابقت میں بھلے ہی اس کا اثر اقتصادی اور سماجی نقطہ نظر سے نظر نہیں آرہا ہے، لیکن اس کے دوررس اثرات پڑنے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ جیسے جیسے لوگوں کی عمر بڑھتی ہے، بچت میں اضافہ دیکھا جاتا ہے، لیکن زیادہ عمر ہونے پر صحت سے متعلق اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ بچت میں کمی آنے سے ریاستوں کی گھریلو پیداوار پر منفی اثر پڑتا ہے۔
آبادیاتی اعداد و شمار کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ 2050تک آندھراپردیش میں معمرافراد کی 30.1فیصد کی آبادی ملک میں سب سے زیادہ ہوگی۔ معاملہ میں کیرالہ 25فیصد، کرناٹک24.6فیصد، تمل ناڈو20.8فیصد، ہماچل پردیش17.9فیصد وغیرہ کی آبادی کے ساتھ بالترتیب دوسرے، تیسرے، چوتھے اور پانچویں مقام پر ہوں گی، جبکہ 2050میں معمرافراد کی 9.8فیصد کی سب سے کم آبادی ہریانہ میں ہوگی۔ ویسے نوجوانوں کی آبادی کے تعلق سے 2050میں بہار، اترپردیش، آسام، چھتیس گڑھ، راجستھان، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، گجرات، اترانچل وغیرہ ریاستیں بہتر حالت میں رہیں گی۔
بدلتے آبادیاتی رجحان کو نظر میں رکھتے ہوئے ملک کی ریاستوں کو پالیسی بنانے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جن ریاستوں میں نوجوانوں کی آبادی ہے، انہیں محنت کش صنعتیں قائم کرنی چاہئیں، تاکہ نوجوان افرادی قوت کا صحیح طریقہ سے استعمال کیا جاسکے، جبکہ جن ریاستوں میں معمرافراد کی زیادہ آبادی ہے، انہیں ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کرنے کی پالیسی پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ حالاں کہ ہندوستان کی سماجی اور اقتصادی پالیسی چین اور امریکہ سے مختلف ہے۔ پھر بھی ہمارے ملک میں عام لوگوں کے مطابق پالیسی بنائی جاسکتی ہے۔ فی الحال ملک میں لیڈر 70 سے 80برس کی عمر میں بھی پورے دم خم کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ اگر ریاستوں میں آبادیاتی تبدیلی کے رجحان کے مطابق پالیسی بنائی جائے تو اس محاذ پر کچھ بہتر نتائج نکلنے کی ضرور امید کی جاسکتی ہے۔
rvr