صبیح احمد
ہندوستان میں قبل از وقت اور غیر معمولی ہیٹ ویو (گرمی کی لہر) ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ حالانکہ مارچ کے اواخر اور مئی کے اوائل میں اس ریکارڈ ساز گرمی سے تھوڑی سی راحت ضرور ملی لیکن ماہرین موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق مئی کے دوسرے ہی ہفتہ سے ایک نئی لہر شروع ہو گئی ہے۔ دنیا بھر کی طرح جنوبی ایشیا کو رواں سال شدید گرمی کا سامنا ہے اور بعض عالمی موسمیاتی اداروں کے مطابق ہندوستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں درجہ حرارت 49 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک جانے کا بھی اندیشہ ہے۔ہندوستان کے محکمہ موسمیات نے ملک کی وسطی اور شمال مغربی ریاستوں میں ہیٹ ویو کا الرٹ جاری کیاہے۔ مارچ کے مہینہ میں پڑنے والی گرمی کو اب تک کی سب سے زیادہ گرمی قرار دیا جا رہا ہے۔ میڈیکل جرنل دی لینسٹ کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق 1990 سے 2019 تک ہندوستان میں درجہ حرارت بڑھنے کے خطرات میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان ان 5 سر فہرست ممالک میں شامل ہے جہاں شدید گرمی کے باعث بزرگ اور غریب افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ گرمی کے باعث دنیا میں سب سے زیادہ اموات ہندوستان اور برازیل میں ہوتی ہیں۔
دراصل ہیٹ ویو شدید گرمی کی اس صورتحال کو کہا جاتا ہے جب زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 40 ڈگری سیلسیئس تک یا اس سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ آخر درجہ حرارت میں معمول سے زیادہ اضافہ کیوں ہوتا ہے؟ حالانکہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اس ہیٹ ویو کو ابھی تک قدرتی آفت قرار نہیں دے رہی ہے لیکن ماہرین اسے آب و ہوا میں تبدیلی کا نتیجہ ضرورقرار دے رہے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں اس صورتحال کا سامنا بار بار کرنا پڑتا ہے اور آنے والے برسوں میں اور زیادہ ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بغور جائزے کے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ حد تک اس دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس کے اثرات ہماری صحت، مویشیوں، زراعت اور انفراسٹرکچر پر پڑنے شروع ہو گئے ہیں۔ کچھ اثرات کی پیمائش نہیں کی جا سکتی لیکن کچھ نے ہمیں احساس دلا دیا ہے جن میں توانائی کی طلب، پانی کی طلب، زرعی پیداوار اور قوت محنت شامل ہیں۔
آب و ہوا کی تبدیلی سے جہاں موسموں اور طوفانوں کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، وہاں ایک اور خدشہ بھی ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر رہا ہے جس کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ 2070 تک دنیا بھر میں ہزاروں نئے وائرس جانوروں کی مختلف نسلوں کو اپنا نشانہ بنائیں گے جن میں سے کئی ایک انسانوں میں منتقل ہو کر صحت کے مسائل میں اضافہ کر دیں گے۔ وائرس یا فلو کے متعلق حالیہ ایک صدی کے دوران حالانکہ بہت کچھ سننے میں آیاہے لیکن ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں سال پہلے سے موجود ہے۔ کبھی یہ برڈ فلو اور سوائن فلو کے ناموں سے سامنے آیا اور ایک صدی پہلے اس نے اسپینش فلو کے نام سے دنیا بھر میں تباہی مچائی اور لاکھوں زندگیاں نگل ڈالیں اور اب کووڈ19- کے نام سے پوری دنیا میں دہشت اور اموات کا سبب بنا ہوا ہے۔ نئے وائرسوں کا ہدف خصوصی طور پر افریقہ اور ایشیا کے براعظم بنیں گے اور کثیر انسانی آبادی کے یہ دونوں خطے جانوروں سے انسانوں اور انسانوں سے جانوروں کو منتقل ہونے والے نئی وبائی امراض کے مراکز کی حیثیت اختیار کر لیں گے، جیسا کہ گزشتہ عشروں میں فلو، ایچ آئی وی اور کورونا وائرس جیسے مہلک وائرس پھیلتے اور منتقل ہوتے رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر دنیا کے درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو جاتا ہے تو اگلے 50 برسوں کے دوران نئے وائرسوں کے پیدا ہونے، پھیلنے اور جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ صرف دودھ پلانے والے جانوروں میں وائرسوں کی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقلی 4 ہزار بار سے زیادہ ہو گی۔ تمام نئے وائرس حالانکہ کورونا وائرس کی سطح کے ہلاکت خیز اور انتہائی سرعت سے پھیلنے کی صلاحیت رکھنے والے نہیں ہوں گے لیکن ان کی تعداد اور جانوروں سے انسانوں اور انسانوں سے جانوروں میں منتقلی کی ان کی صلاحیت انسانی آبادیوں کے لیے خطرات میں نمایاں طور پر اضافہ کر دے گی۔
یہ مطالعاتی جائزہ 2 عالمی بحرانوں کے خطرات کو اجاگر کرتا ہے جن میں سے ایک کرئہ ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور دوسرا نئے وائرسوں کا ظہور، پھیلاؤ اور ان کی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقلی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی اور وبائی امراض کے ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کرئہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ سے نئے وائرسوں کے جنم لینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ امریکہ میں حال ہی میں برڈ فلو سے انسان کے متاثر ہونے کا پہلا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل چین میں بھی پرندوں کو لاحق ہونے والی بیماری ’برڈ فلو‘ کی ایک غیر معمولی قسم ’H10N3‘ سے انسان کے متاثر ہونے کے پہلے کیس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ امریکہ میں صحت عامہ کے نگراں ادارہ سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) نے ریاست کولوراڈو میں ایک شخص میں ’اے ایچ فائیو انفلوئنزا‘ وائرس کی موجودگی کی تصدیق کردی ہے۔ یہ امریکہ میں ایچ فائیو برڈ فلو سے کسی انسان کے متاثر ہونے کا پہلا کیس ہے۔ مذکورہ شخص ایچ فائیو این ون برڈ فلو سے مشتبہ طور پر متاثرہ پولٹری کے پرندوں کو تلف کرنے کی کارروائی میں شریک تھا۔ عالمی سطح پر ایچ فائیو گروپ میں شامل وائرس کی انسانوں میں منتقلی کا یہ دوسرا کیس ہے۔ ایسا پہلا کیس دسمبر 2021 میں برطانیہ میں سامنے آیا تھا۔ بیجنگ کے نیشنل ہیلتھ کمیشن (این ایچ سی) نے گزشتہ سال چین کے مشرقی صوبہ جیانگژو میں ایک 41 سالہ شخص میں ’برڈ فلو‘ کی غیر معمولی قسم کے انفیکشن کی تصدیق کی تھی۔
اس طرح کی شدید ہیٹ ویو سے فصلوں کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ ہندوستان میں مارچ کے مہینہ میں اس قدر شدید درجۂ حرارت آخری بار 1901 میں ریکارڈ کیا گیا تھا جس نے فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ مارچ کا مہینہ موسم بہار ہوتا ہے اور عموماً ٹھنڈ رہتی ہے۔ ہندوستان میں کسان اس موسم میں گندم کی کاشت کرتے ہیں لیکن حیران کن طور پر رواں برس مارچ کے مہینہ میں شدید گرمی پڑنے کے بعد کسان اپنی فصلوں کے بارے میں پریشان ہیں۔ گندم کی فصل کے لیے شدید گرمی حساس ہوتی ہے اور خاص طور پر اس وقت جب فصل تیاری کے آخری مرحلے میں ہو۔گندم اہم غذائی اجناس میں سے ایک ہے۔ اس کی پیداوار کے اثر انداز ہونے سے لوگوں کے خوردو نوش پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ ہندوستان گندم کے بڑے برآمدات کار ملکوں میں بھی شامل ہے۔ اس بار گندم کی پیداوار میں کمی کے پیش نظر حکومت ہند کو بھی تشویش لاحق ہو گئی ہے۔
[email protected]