طلباکی خودکشی کابڑھتارجحان

0

ملک میں طلباکی خودکشی کے واقعات بندہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں ، خود کشی کا بڑھتارجحان ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے ،لیکن اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ملک کی سرکاریںاوروالدین ابھی بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں ، جس کی وجہ سے یہ سلسلہ تھم نہیں رہاہے۔آئے دن طلباکی خودکشی کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔راجستھان کاکوچنگ شہر کوٹہ اس معاملہ میں خاص طور سے خبروں میں رہتاہے ۔کل ہی جے ای ای مینس کی تیارکرنے والے ایک طالب علم نے خودکشی کرلی ۔اس سے 3د ن پہلے بھی نیٹ کی تیاری کرنے والے ایک طالب علم نے خودکشی کی تھی ۔بتایاجاتاہے کہ امسال2025میں پچھلے 12دنوں میں خودکشی کے 4واقعات پیش آچکے ہیںاورابھی پورا سال باقی ہے ، جبکہ 2024 میں 17 معاملے سامنے آئے تھے۔

خودکشی کرنے والے یہ وہ طلباہیں، جن میں سے کسی کا آئی آئی ٹی میں پڑھناتو کسی کیلئے ایم بی بی ایس کرناایک خواب تھا، کم از کم ان کے والدین کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں ، تبھی تو انہوں نے کوٹہ جیسے شہر میں کوچنگ کیلئے ان کو بھیجا تھا اوران پر لاکھوں روپے خرچ کررہے تھے ۔ خودکشی کی وجہ سے وہ خواب بھی ادھورارہ گیا اورامیدیں بھی مایوسی میں تبدیل ہوگئیں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گھرکا چراغ کم عمری میںہی بجھ گیا ۔ راجستھان کا شہر کوٹہ کوچنگ اورکریئر کیلئے کافی مشہورہے، تاہم حالیہ برسوں میں خودکشی کے بڑھتے واقعات کی وجہ سے وہ کافی بدنام بھی ہوا ہے،پھر بھی طلبا وہاں کوچنگ کیلئے جاناچاہتے ہیں اور والدین بھی بچوں کو بھیجناچاہتے ہیں ۔پچھلے سال کوٹہ میں خودکشی کے واقعات کی روک تھام کیلئے سرکار حرکت میں آئی تھی، کئی طرح کی بندشیں عائد کی تھیں ، سختی کی تھی اورگائیڈلائن جاری کی تھی ، لیکن حالات نہیں بدلے ۔طلبا اب بھی خودکشی کررہے ہیں ۔ خودکشی کا ریکارڈ توتیارکیا جارہاہے ، لیکن روک تھام کے نام پر نہ تو

سرکاراوروالدین کی طرف سے اورنہ کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے کچھ کیا جارہاہے ۔کوٹہ یا کہیں اورخودکشی کو کنٹرول کیا جاسکتاہے ، لیکن سوال یہی ہے کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا اورپہل کون کرے گا؟

طلباخودکشی جیسابڑاقدم انٹرنس ٹیسٹ سے پہلے بھی اٹھاتے ہیں اوربعد میں بھی اور کچھ دوسری وجوہات سے بھی خودکشی کرتے ہیں۔ایسالگتا ہے کہ ٹیسٹ سے پہلے وہ خودکشی اس لئے کرتے ہیں کہ ان کی تیاری ٹھیک سے نہیں ہوپاتی اور ناکامی کے ڈر سے پہلے ہی اپنی جان دے دیتے ہیں یا ٹیسٹ کے بعد ناکامی کی صورت میں خودکشی کرلیتے ہیں ۔طلباجو بھی خطرناک قدم اٹھاتے ہیں ، وہ غلط ہے ۔اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ بہت زیادہ دبائو میں رہتے ہیں ۔ ٹھیک سے کونسلنگ نہ ہونے کی وجہ سے نفسیاتی طورپر وہ آزاد نہیں ہوتے ۔دوردراز بیٹھ کر والدین ان سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کئے ہوتے ہیں ۔ کوچنگ کے دوران بچے کن حالات میں رہتے ہیں ، اس پر کسی کی نظرنہیں ہوتی ہے ۔کریئر کیلئے صرف کوچنگ اوربہت زیادہ محنت ہی کافی نہیں ہے ، بلکہ اس پربھی نظر ہونی چاہئے کہ کوچنگ کے علاوہ تنہائی میں بچے کیا کررہے ہیں ،کیونکہ عام طور پر کوئی بھی خودکشی جیسابڑاقدم تنہائی میں ہی اٹھاتاہے اورخودکشی کے بعد ہی اس کا پتہ چلتاہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ بچوں کے دماغ میں کچھ نہ کچھ چل رہاہوتا ہوگا، تبھی وہ خودکشی کرتے ہیں ۔اس لئے طلبا کی کونسلنگ اوران کا نفسیاتی علاج بھی ضروری ہے ، تاکہ ان کی کیفیات معلوم ہوتی رہیں ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کوٹہ میں کوچنگ سے جہاں سیکڑوں طلبا اپنا کریئر

بنالیتے ہیں ، وہیں کچھ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں ۔خبریں دونوں طرح کی آتی ہیں ، ایک سے خوشی ہوتی ہے اورحوصلہ بڑھتاہے، تو دوسری خبر سے افسوس ہوتا ہے اورحوصلہ پست ہوتاہے ۔کریئر کیلئے جدوجہد کرنے والے طلباصرف کوٹہ میں خودکشی نہیں کرتے ہیں ، بلکہ پورے ملک میں کرتے ہیں ، تبھی تو خودکشی کرنے والے طلبا کی تعداد ہزاروں میں پہنچ جاتی ہے ۔کوٹہ کی خبر اس لئے بنتی ہے کیونکہ وہ کریئر سے جڑی ہوتی ہے۔ اس لئے اس کی اہمیت کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے ۔بہت ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کو کوٹہ بھیجتے وقت اس پہلو سے بھی سوچیں اور اپنے بچوں کی حرکات وسکنات کولے کر ہمیشہ چوکنا اورمستعد رہیں ۔اگر وہ تھوڑی توجہ دیں ،تو وہ اپنے چشم وچراغ کو کھونے سے بچ سکتے ہیں اور خودکشی کے واقعات میں کمی آسکتی ہے ۔ صرف حکومت اورکوچنگ کے بھروسے بچوں کونہیں چھوڑناچاہئے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS