بھارت میں بڑھتے ہوئے جرائم؛اسباب، اثرات اور ذمہ دار کون؟: عبدالماجد نظامی

0
Rising Crime in India; Causes, Effects and Who is Responsible

عبدالماجد نظامی

بھارت میں جرائم کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، خاص طور پر ازدواجی زندگی میں تنازعات، خواتین پر تشدد، مالی دھوکہ دہی، قتل، ریپ اور فرقہ وارانہ جرائم میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان جرائم کا دائرہ صرف شہروں تک محدود نہیں بلکہ دیہی علاقوں میں بھی قتل، لوٹ مار اور خواتین کے خلاف مظالم بڑھ رہے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ معاشرہ ان جرائم کو ایک عام بات سمجھنے لگا ہے، جیسے کہ یہ روزمرہ کے معمولات کا حصہ ہوں۔ یہ صورتحال محض اتفاق نہیں، بلکہ کئی عوامل کا نتیجہ ہے، جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری، سیاستدانوں کی مجرمانہ سرگرمیوں میں شمولیت، میڈیا کی غیر ذمہ داری اور عوام کی خاموشی شامل ہیں۔ جب جرائم کی سنگینی پر آواز بلند نہ ہو اور مجرموں کو سخت سزائیں نہ ملیں تو وہ مزید بے خوف ہو جاتے ہیں۔

بھارت میں جرائم کی نوعیت اور تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال: نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو(NCRB) کے مطابق، بھارت میں جرائم کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ ازدواجی زندگی میں تنازعات، گھریلو تشدد اور شریک حیات کے قتل کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ خواتین کے خلاف مظالم جن میں ریپ، جہیز کے لیے قتل، تیزاب حملے اور چھیڑ چھاڑ جیسے جرائم شامل ہیں، مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ مالی بدعنوانی اور بڑے پیمانے پر گھوٹالے ایک عام بات بن چکے ہیں اور نفرت پر مبنی جرائم میں شدت آرہی ہے، جن میں خاص طور پر اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے،تاہم سب سے زیادہ پریشان کن رجحان قتل کے بڑھتے ہوئے وحشیانہ طریقے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایسی بے شمار وارداتیں سامنے آئی ہیں جن میں لاشوں کے ٹکڑے کرکے فریج، ڈرم یا بیگ میں چھپادیے گئے۔ کچھ دہائیاں قبل اس قسم کی وارداتیں شاذ و نادر سننے کو ملتی تھیں، لیکن اب یہ عام ہوچکا ہے۔ مثال کے طور پر، حالیہ دنوں میں میرٹھ میں ایک خاتون نے اپنے عاشق کے ساتھ مل کر اپنے شوہر کو قتل کر کے اس کی لاش کو سیمنٹ کے ڈرم میں چھپا دیا۔ اسی طرح دہلی، ہریانہ، اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں بھی ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں جہاں قتل کے بعد لاش کو ٹکڑوں میں کاٹ کر چھپایا جا رہا ہے۔ یہ صرف جرم نہیں بلکہ انسانی ذہن میں بڑھتی ہوئی بے حسی اور سفاکیت کو بھی ظاہر کرتا ہے، جہاں حساسیت ختم ہو چکی ہے اور قتل جیسے گھناؤنے عمل کو چھپانے کے لیے انتہائی غیر انسانی طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ وحشیانہ رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟ قتل اور دیگر سنگین جرائم میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ لاء اینڈ آرڈر کی ناکامی ہے۔ بھارت میں قانون کا خوف تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ مجرموں کو معلوم ہے کہ پولیس یا تو کرپٹ ہے یا بے بس اور عدلیہ میں سالوں تک مقدمے لٹکے رہتے ہیں۔ نتیجتاً، جرائم کرنا اور ان سے بچ نکلنا آسان ہوچکا ہے۔

سیاسی سرپرستی اور کرپشن بھی ایک اہم سبب ہے۔ کئی سنگین جرائم، خاص طور پر فرقہ وارانہ فسادات، ہجومی تشدد اور مالی بدعنوانی میں سیاسی جماعتیں خود ملوث ہوتی ہیں یا مجرموں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ سیاستدانوں اور مافیا کے گٹھ جوڑ نے جرائم کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اور فلموں کے اثرات بھی کسی سے چھپے نہیں۔ کئی ویب سیریز اور فلموں میں انتہائی بے رحمانہ قتل کے طریقے دکھائے جاتے ہیں، جو حقیقی زندگی میں بھی دہرائے جانے لگے ہیں۔ بعض لوگ ان سے متاثر ہو کر اسی طرز پر جرائم انجام دینے لگے ہیں۔

معاشرتی ٹوٹ پھوٹ بھی ایک اہم عنصر ہے۔ خاندانی نظام کمزور ہو رہا ہے، رشتوں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں اور لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر انتہائی اقدامات اٹھانے لگے ہیں۔ پہلے جھگڑوں کو سلجھانے کے لیے بزرگوں اور سماجی اداروں کا کردار ہوتا تھا، مگر اب لوگ ذرا سی بات پر قتل جیسے سنگین اقدامات کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ عوام اب جرائم کو عام سی چیز سمجھنے لگے ہیں۔ پہلے چھوٹے موٹے گھوٹالے اور چوری پر بھی ہنگامہ ہوتا تھا، اب کروڑوں کے گھوٹالے معمول بن چکے ہیں۔ یہی حال جنسی جرائم اور قتل و غارت کا بھی ہے۔ لوگ خبر دیکھتے ہیں، سر ہلاتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔

ان جرائم کے سماجی اثرات:ایسے خوفناک جرائم کے باعث سماج میں خوف اور بے یقینی کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ خواتین اور بچوں کے لیے عدم تحفظ بڑھ رہا ہے اور ازدواجی زندگی میں کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔ طلاق کے کیسز بڑھ رہے ہیں، گھریلو تشدد عام ہو رہا ہے اور ازدواجی رشتے عدم استحکام کا شکار ہو رہے ہیں۔ کئی جوڑے قانونی جنگ میں الجھ کر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ قانون اور نظام انصاف پر عوام کا اعتماد ختم ہورہا ہے۔ جب مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں تو لوگ قانون سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں لوگ خود انتقام لینے لگتے ہیں، جس سے مزید بدامنی پھیلتی ہے۔فرقہ واریت اور سماجی ہم آہنگی بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ سیاستداں اپنے فائدے کیلئے سماج میں نفرت کو ہوا دے رہے ہیں اور میڈیا اس کا آلۂ کار بن چکا ہے۔ نیوز چینلس کا زیادہ تر وقت ہندو-مسلم مباحثوں میں گزر جاتا ہے، جبکہ اصل مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ کوئی بھی حساس شہری یہ جاننا چاہے گا کہ آخر ان جرائم پر قابو پانے کے لیے کیا کیا جائے؟

ان سنگین جرائم کے خلاف سخت اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے قانون کا خوف بحال کرنا ہوگا۔ سخت اور فوری سزائیں دی جائیں تاکہ مجرموں کو معلوم ہو کہ جرم کرنے کا نتیجہ فوری اور ناقابل معافی ہوگا۔ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں۔میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ اسے محض سنسنی پھیلانے کے بجائے ایسے جرائم کے پس پردہ عوامل پر توجہ دینی ہوگی۔ عوامی دباؤ کے ذریعے میڈیا کو سماجی جرائم پر توجہ دینے کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی مداخلت کو ختم کرنا ہوگا تاکہ پولیس اور عدلیہ آزاد ہو کر اپنا کام کر سکیں۔ جب تک پولیس پر سیاسی دباؤ رہے گا، وہ ایمانداری سے کام نہیں کر پائے گی۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کو بیدار ہونا ہوگا۔ جب عوام ظلم کے خلاف کھڑے ہوں گے، تبھی حالات بدلیں گے۔ جب لوگ مجرموں کو چھپانے کے بجائے ان کے خلاف آواز بلند کریں گے تو جرم کا گراف نیچے آئے گا۔

تعلیم اور اخلاقی تربیت بھی ایک اہم پہلو ہے۔ تعلیمی نظام میں اخلاقی تعلیم کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ نئی نسل کو تشدد کے بجائے برداشت اور افہام و تفہیم کی راہ دکھائی جاسکے۔ حکومت کو غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے، کیونکہ اکثر جرائم کی جڑ یہی معاشی مسائل ہوتے ہیں۔
بھارت میں بڑھتے جرائم کی اصل جڑ لاء اینڈ آرڈر کی ناکامی، سیاسی مفادات، میڈیا کی بے حسی اور عوام کی خاموشی ہے۔ جب تک یہ چار ستون اپنی ذمہ داری نہیں نبھائیں گے، معاشرہ مزید بگاڑ کا شکار ہوگا۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو وہ وقت دور نہیں جب جرائم اور بدعنوانی ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن جائیں گے اور پھر اصلاح کی کوئی امید باقی نہیں رہے گی۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS