پارلیمنٹ میں شوروغل، ہنگامہ،اپوزیشن کاواک آئوٹ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کوئی اجلاس ایسا نہیں ہوتا جس میں کسی نہ کسی بات پر ہنگامہ نہ ہو، احتجاج اورواک آئوٹ کی نوبت نہ آئے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ ہنگامہ صرف اپوزیشن کی طرف سے ہوتاہے، حکمراں جماعت کی طرف سے بھی ہوتاہے۔جب بھی موقع ملتا ہے، دونوں ہنگامے اورمنمانی کے ذریعہ اپنی بھڑاس نکالتے ہیں۔یہ ہنگامہ وقتی نہیں ہوتا کہ کچھ دیر کے بعد اپنے آپ بند ہوجائے اور حالات پرسکون ہوجائیں، بلکہ اسے بند کرنے کاایک ہی خاص طریقہ ہے، وہ یہ کہ اسپیکر یا ایوان کے چیئرمین کچھ وقت کیلئے اورزیادہ ہنگامہ ہونے پر پورے دن کیلئے اجلاس کو ملتوی کرنے کا اعلان کردیں۔اجلاس ملتوی ہونے کی صورت میں جب کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے تو ممبران پارلیمنٹ خود بخود خاموش ہوجاتے ہیں۔ صورت حال اس وقت اور خراب ہوجاتی ہے، جب التوا کے بعد اسی دن دوبارہ اجلاس شروع ہوتا ہے اورپہلے کی طرح ہنگامہ ہونے لگتا ہے۔ چونکہ ہنگامہ کے دوران کوئی کام نہیں ہوسکتا، اس لیے دوبارہ اجلاس کو ملتوی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔ممبران پارلیمنٹ کے طرز عمل سے ایسا لگتا ہے جیسے انہوںنے طے کرلیا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو، اجلاس نہیں ہونے دیں گے اورآخر کار وہی ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کے قیمتی اوقات ہنگامے کی نذرہوکر بربادہوجاتے ہیں۔ بعدمیں اجلاس ختم ہونے کے بعد رپورٹ آتی ہے کہ لوک سبھااورراجیہ سبھا میں اتنے اوقات برباد ہوگئے۔ سرکاراس بات سے مطمئن رہتی ہے کہ وہ جتنے بل منظور کراناچاہتی تھی، اس میں وہ کامیاب رہی اوراس کا ایجنڈا کامیاب رہا۔جبکہ اپوزیشن یہ تاثر قائم کرتی ہے کہ سرکار نے منمانی کی۔ اس طرح یہ سلسلہ برسوں سے چل رہا ہے۔حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ،لیکن پارلیمنٹ کے حالات نہیں بدلتے۔
20 دسمبر کو راجیہ سبھا میں کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے کے بیان پر جب ہنگامہ ہواتو اس وقت ایوان کے چیئرمین جگدیپ دھن کھڑنے جو کہا ، وہ غورطلب ہے۔ ان کاکہناتھا کہ جس طرح سے ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے، وہ غلط ہے۔ ہم بچے نہیں ہیں، 135 کروڑ لوگ ہم پر ہنس رہے ہیں۔ ہنگامہ کرکے ہم بہت غلط مثال قائم کر رہے ہیں۔ انہوں نے حکمراں پارٹی اور اپوزیشن دونوں کو مورد الزام ٹھہرایااوریہ بھی نصیحت کی کہ جب اپوزیشن کچھ کہتی ہے تو حکمراں پارٹی کی طرف سے ہنگامہ ہوتا ہے اور جب حکمراں پارٹی کچھ کہتی ہے تو اپوزیشن کی طرف سے ہنگامہ ہوتا ہے۔ کیا یہاں ٹٹ فار ٹیٹ کی سیاست چل رہی ہے؟ ہم بچے نہیںہیں، جو اس طرح ہنگامہ برپا کر رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل دونوں ایوانوں کی کارروائی خوش اسلوبی کے ساتھ چلانے کی غرض سے حسب روایت باقاعدہ ہربارکل جماعتی میٹنگ طلب کی جاتی ہے اوروہ ہوتی بھی ہے۔ لیکن اس میٹنگ کا کوئی اثر اجلاس کی کارروائی کے دوران نظر نہیں آتا۔بس کوئی بہانہ یا ایجنڈا تلاش کرکے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔کبھی کبھی تقریر ہی ایسی کردی جاتی ہے کہ دوسرے کو ہنگامہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔کچھ نہیں ملے تو پارلیمنٹ سے باہر کے بیان ،تقریراورتنقید کو بنیا د بناکر آسمان سر پر اٹھالیاجاتا ہے۔اس پر جواب ایوان میں طلب کیا جاتا ہے، بسااوقات معافی کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔جس کایہاں کوئی موقع ومحل نہیں ہوتا۔جتنی توانائی ہنگامہ اورجوابی ہنگامہ پر صرف کی جاتی ہے، اگر اس کا نصف بھی عوامی مسائل پر بحث اوران کا حل تلاش کرنے پر صرف کی جائے تو بہت سے مسائل ایسے ہی حل ہوجائیں لیکن افسوس یہ نہیں ہوتا۔ایسالگتا ہے کہ پارلیمنٹ زورآزمائی کا اڈہ اورسیاسی اکھاڑہ ہے جس میں ملک وقوم کے حق میں کام کرنے کے بجائے صرف مخاطب کو کسی نہ کسی معاملہ میں زیر کرنا اوراپنی بات تھوپنا ہے۔
پارلیمنٹ کا ہراجلاس قیمتی ہوتا ہے، اگراس میںملک اور لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے تو کہاں ہوں گے؟عوام کی نظریںپارلیمنٹ پر ہوتی ہیں کہ وہاں سے راحت کی کوئی خبر ملے گی، لیکن سیاسی جماعتیںہنگامہ کرنے میںمصروف رہتی ہیں۔تومسائل کہاں سے اورکس سے حل ہوںگے؟جب تک سیاسی پارٹیاں اورممبران پارلیمنٹ اپنی روش نہیں بدلیں گے، یہ صورت حال نہیں بدلے گی۔ایک تو ہنگامہ اوپر سے اب دیکھا جارہاہے کہ اجلاس کو قبل از وقت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیاجاتاہے۔جس کی وجہ سے کام کاج مزید متاثر ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ اوراس کے کام کاج کو شوروغل اورہنگاموں سے بچانا ہوگا ، تبھی بہتری کی امیدکی جاسکتی ہے۔
[email protected]