امریکہ اور یوروپ میں دراڑ؟

0

ایک طرف امریکہ کی اسرائیل کی صہیونی ریاست کو غیرمشروط حمایت ہے تو دوسری طرف یوروپ کے کئی ملکوں کی آنکھیں کھلنی شروع ہوگئی ہیں۔ غزہ کے معصوم لوگوں کے خون کے چھینٹوں سے شاید ان کا ضمیر اور حمیت بیدار ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اس میں سب سے دلچسپ نام اسپین کا ہے وہ بڑی محنت اوربظاہرخلوص نیت کے ساتھ فلسطین کو ایک مکمل ریاست کا درجہ دلانے کی کوشش کررہاہے۔ اسپین کی موجودہ قیادت اور بطورخاص وزیراعظم پیڈروسانچس (Pedro Sanchez)کا کہناہے کہ اس سنگین مسئلہ کا خاتمہ تبھی ممکن ہے جب ’دوریاستی حل‘ پر اتفاق رائے کرلیا جائے۔ سانچس کا کہناہے کہ ان کا ملک چاہتاہے کہ یوروپی یونین اس بابت کوئی اجتماعی فیصلہ لے مگر ایسا نہیں ہوپاتا تو وہ اس معاملہ میں اسپین خود فیصلہ لے گا۔ دنیا کے 193میں سے 139ممالک فلسطین کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دیتے ہیں اوران ممالک میں یوروپی ممالک بھی شامل ہیں۔

یہ ممالک پولینڈ، آئس لینڈ، رومانیہ دیگر میں روس، چین اور نائیجیریا ہیں۔ اسپین کی قیادت نہ صرف یہ کہ وہ فلسطینیوں کو انصاف دلانا چاہتی ہے بلکہ اب اس نے آگے بڑھ کر اس مقصد کو اپنا مشن بنالیا ہے۔ اسپین کے ساتھ ساتھ ملاتے ہوئے آئر لینڈ، مالٹا، سلوینیہ بھی شامل ہوگئے ہیں۔ اگرچہ پرتگال کا موقف قدرے مختلف ہے، اس کاکہناہے کہ یوروپی یونین کے ساتھ ہی اس معاملہ میں پیش رفت کرنی چاہیے۔ پرتگال مشترکہ حکمت عملی کاقائل ہے۔

یوروپی یونین مجموعی طور پر یا اجتماعی طورپرفلسطین ریاست کوتسلیم نہیں کرتا ہے۔ جس طرح فلسطین کے حق میں اٹھنے والے ممالک مالٹا، سلوینیہ اور اسپین ہیں۔اسی طرح پنجہ یہود میں چھ ممالک ہیں۔ ان میں آسٹریا، جرمنی، نیدرلینڈبطورخاص ہیں۔ ان ممالک کی رکاوٹوں کے باوجود فلسطینی حامیوں کا کہناہے کہ وہ اپنی جدوجہد

اورمہم کو لے کر چلتے رہیں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ دیگرممالک بھی فلسطین کو ان کا حق دلادیں گے۔ ابھی کئی ممالک کی قیادت کے رخ میں تبدیلی اور اس تبدیلی کے اظہار کاانتظار ہے۔ بڑے ممالک مثلاً جرمنی، فرانس اور اٹلی میں تبدیلی لاتے ہیں تو کئی اورچھوٹے چھوٹے ممالک فلسطین کو ایک مکمل ریاست کا درجہ دے سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS