ریاض فردوسی: فاطمی خلافت کا عروج و زوال!

0

ریاض فردوسی
دسویں صدی کے آغاز میں جہاں اندلس میں بنو امیہ کی خلافت اور بغداد میں عباسی خلافت قائم ہو چکی تھی وہیں دوسری طرف مصر اور شمالی افریقہ میں مسلمانوں کی ایک اور خلافت کا آغاز ہو چکا تھا جسے فاطمی خلافت (Fatimid caliphate) کہا جاتا ہے۔فاطمی خلافت 909 ء سے 1171 ء یعنی 262 برسوں تک قائم رہی،اپنے عروج تک فاطمی خلافت مغرب میں بحر متوسط کے ساحلی شمالی افریقی ممالک مصر،مراکش،لیبیا، الجزائر،ٹیونیشیا اور بحر متوسط کے مشرقی علاقے مثلاً فلسطین،اردن،لبنان،شام اور جنوب میں مکہ و مدینہ اور بحر متوسط میں واقع یورپی جزیرہ صقلیہ (Sicily) تک پھیلا ہوا تھا۔
262 سالوں کے اس لمبی مدت میں میں کل ملا کر چودہ خلفاء نے حکومت کی،فاطمی خلافت کا پہلا خلیفہ المہدی باللہ اور آخری خلیفہ العاضدلدین اللہ ابو محمد عبد اللہ بن یوسف بن الحافظ لدین اللہ تھا،درمیان میں کچھ اور بھی نامور خلفاء تخت نشیں ہوئے۔ مثلاً، القائم بأمر اللہ،المنصور بنصر اللہ،المعزّ لدین اللہ،الحاکم بأمر اللہ،المستنصر باللہ وغیرہ۔
فاطمی خلافت دراصل شیعہ خلافت تھی۔ تمام کے تمام فاطمی خلفاء اسماعیلی شیعہ تھے، امام جعفر صادقؓ شیعہ عقیدہ کے مطابق چھٹے امام تھے،انکے دو صاحب زادے تھے۔اسماعیل بن جعفر اور موسیٰ کاظم،اسماعیل بن جعفر کے جو اولاد ہوئی وہ اسماعیلی شیعہ کہلائی اور موسیٰ کاظم کے اولاد اثناء عشری کہلائی،شیعہ مذہب میں خلافت کی جگہ امامت کا تصور ہے،یہاں خلیفہ امام کہلاتا ہے۔ اثناء عشری میں کل بارہ امام ہوئے۔فاطمی خلافت کا پہلا خلیفہ المہدی باللہ دراصل اسماعیلی شیعہ کا گیارہواں امام تھا یا یوں کہیے المہدی باللہ جو گیارہواں امام تھا وہی فاطمی خلافت کا پہلا خلیفہ ہوا۔اگرچہ المہدی باللہ نے فاطمی خلافت کی بنیاد ڈالی لیکن فاطمی خلافت کے قیام میں جس اہم کردار نے کلیدی رول ادا کیا اس شخصیت کا نام ابو عبداللہ شیعی تھا،آٹھویں صدی کے پہلے نصف میں شیعہ داعیان اور مبلغین شیعہ عقائد و نظریات کا اسلامی دنیا میں اشاعت کرنے میں مشغول تھے۔
شیعہ دعوت و تبلیغ کا مرکز ملک شام کا شہر سلمیہ (Salamiyah) تھا جسے خلیفہ المہدی باللہ نے اپنی مملکت کا دارالخلافہ بنایا۔اسی مقام سے شیعہ مبلغین کو دار اسلام کے مختلف شہروں میں شیعہ عقائد و نظریات کے اشاعت کے لیے بھیجا گیا اور انکے معتقدین شمالی افریقہ سے لے کر فارس اور وسط ایشیا تک مصروف کار تھے،اسی مقام سے شیعہ امام اپنے معتقدین کی سرگرمیوں کی خبر رکھتے اور انکی رہنمائی بھی کرتے تھے۔
انہی داعیوں میں سے عراق کے بصرہ شہر کا ابو عبداللہ نامی ایک شخص نمودار ہوا اور شیعہ مبلغ بننے کا خواہشمند ہوا۔ملک یمن میں رہ کر داعیوں سے دعوت و تبلیغ کے اصول اور قاعدے سیکھنے کے بعد اسے علاقہ بربر کی طرف بھیج دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ وہ اسماعیلی شیعہ کے گیارہویں امام المہدی باللہ کے لیے راہ ہموار کرے۔
ایک مرتبہ حج کے دوران ابو عبداللہ شیعی کی ملاقات شمالی الجیریا کے کتامہ بربر قوم کے روساء اور سرداروں سے ہوئی،ابو عبداللہ کے دعوتی کام سے وہ لوگ متاثر ہوئے اور ابو عبداللہ انہیں کے ہمراہ دعوتی کام کے لیے افریقہ روانہ ہوا اور الجیریا کے شمال مشرق میں واقع اکجان شہر میں سکونت اختیار کیا اور اہل کتامہ کو امام مہدی کی آمد کا یقین دلانے لگا،شیعہ عقائد کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ ابو عبداللہ شیعی نے اہل کتامہ کو لیکر ایک مضبوط فوج بھی مرتب کیا،یہ وہ زمانہ تھاجب مغرب میں اور یورپ کے جنوبی اٹلی(Italy)سسلی (Sicily) اور ساردینیا (Sardinia) میں بنو الاغلب کی حکومت (909-800) قائم تھی۔
چونکہ بنو الغلب کی حکومت سنی مسلمانوں کی حکومت تھی۔اس لیے اس خاندان کا سلطان ابراہیم ابن احمد نے ابو عبداللہ کو سخت وارننگ دی کہ شیعہ نظریہ کی اشاعت بند کردیں،اس کے بعد ابو عبداللہ مراکش کا شہر (Tazaroute) چلا گیا۔ ابراہیم بن احمد کا جانشین ابو العباس بن ابراہیم نے اپنے بیٹے کو شیعہ داعی کے خلاف ایک لشکر دیکر بھیجا لیکن بنو الغلب کی فوج کو بھاری شکشت ہوئی،اس فتح کے بعد ابو عبداللہ الشیعی کی جماعت جو داعیوں اور مبلغین پر مشتمل ایک شیعہ تبلیغی جماعت تھی۔اب وہ ایک سیاسی جماعت بن گئی اور اسے سیاسی قوت اور اقتدار بھی حاصل ہو گیا۔سال 904 ء میں ابو عبداللہ شیعی الجیریا کے ایک شہر Setif اور اس کے بعد ٹیونیشیا کے ایک شہر قامودہ کو فتح کیا قامودہ کی فتح کی خبر سن کر ابو مضر زیادہ اللہ جو آخری اغلبی سلطان تھا گھبراکر ملک شام کے رقا شہر بھاگ گیا اور اغلبی خاندان (Aghlabid dynasty) کا خاتمہ ہو گیا اور لوگ ابو عبداللہ شیعی کے ہاتھوں المہدی باللہ کے نام کا بیعت لینے لگے۔
اس سے پہلے ابو عبداللہ شیعی کے کہنے پر المہدی باللہ سلمیہ سے سوداگروں کے قافلہ کے ساتھ مغرب کے لیے روانہ ہوا۔اس کی روانگی کی خبر عباسی خلیفہ المقتفی کو ہوئی،خلیفہ المقتفی نے مصر کے گورنر کو حکم دیا کہ المہدی باللہ کو گرفتار کرکے اسے قتل کر دیا جائے، لیکن المہدی کسی طرح گرفتاری سے بچ گیا اور لیبیا کے طرابلس شہر میں پناہ لیا لیکن بعد میں امیر زیادہ اللہ کے حکم پر مراکش کے شہر سجلماسہ کے گورنر نے اسے سجلماسہ میں گرفتار کیا۔
جب ابو عبداللہ کو المہدی باللہ کے گرفتاری کا علم ہوا تو وہ فوج لیکن قیروان شہر پر حملہ کیا۔جہاں اس کا بھائی بھی قید میں بند تھا،ابو عبداللہ اسے جیل سے آزاد کیا اور اسے قیروان کا گورنر مقرر کیا، اس کے بعد ایک لشکر لیکر وہ سجلماسہ پر حملہ کیا اور سجلماسہ کے گورنر کی فوج کو شکست دے کر المہدی باللہ کو بھی آزاد کروایا۔ قیروان پہونچ کر ابو عبداللہ شیعی المہدی باللہ کے ہاتھوں پر بیعت کی یعنی اسے اپنا خلیفہ تسلیم کیا اور دوسرے لوگوں سے بھی بیعت کرائی،تخت نشیں ہونے کے بعد المہدی باللہ مطلق العنان حکمران بن گیا اور ابو عبداللہ شیعی کے اثر و رسوخ کو مٹانے اور اس ڈر سے کہ کہیں مستقبل میں وہ اس کی حکومت کے لیے مضر و خطرہ نہ بن جائے اس کا قتل کروا دیا۔
سال 915 ء میں المہدی باللہ ٹیونیشیا (Tunisia) کے مشرقی ساحل پر مہدیہ(Mahdiyah) شہر کی بنیاد ڈالی اور اسے اپنی سلطنت کا دارالخلافہ بنایا اور ایک سال بعد 916 ء میں اسی مقام پر ایک جامع مسجد کی بھی تعمیر کروائی۔سال 920 ء میں المہدی مراکش،فاس اور دوسرے صوبوں کو فتح کرکے مغرب سے خاندان ادریسیہ(Idrisid dynasty) کا خاتمہ کیا۔ المہدی باللہ کے بعد اس کا لڑکا القائم بامراللہ(946-934) تخت نشیں ہوا۔وہ بحر روم میں واقع جزیرے ساردینیا،سسلی اور بازنطینی صوبہ Calabria اور جینوا(Genoa) کو فتح کرکے اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔
القائم (یا القایم دونوں نام تاریخ میں درج ہیں) بامراللہ کے عہد خلافت میں ابو یزید نامی خارجی نے فاطمیوں کے خلاف فوجی مہم شروع کی اور بنو الغلب کا دارالحکومت قیروان کو فتح کرنے کے بعد فاطمی دارالخلافہ المہدیہ کو قبضہ کرنے کے لیے پیشقدمی کی لیکن یہ مہم ناکام رہی۔المعز لدین اللہ (975-953) چوتھا فاطمی خلیفہ تھا۔اس کی دور حکومت میں فاطمیوں کا بحری جنگی بیڑا کافی مضبوط ہو گیا تھا اور بحر متوسط ہر اپنی بالادستی کے حصول کے لیے اموی بحری جنگی بیڑا سے مقابلہ آرائی میں لگا ہوا تھا۔جب المعز کی جنگی بیڑا نے اندلس کے مشرقی ساحلی علاقہ المیریا(Almeriah) پر حملہ کیا تو اس وقت اموی خلیفہ عبدالرحمن کی بحری فوج نے شمالی افریقہ کے ساحلی علاقوں پر حملہ کیا اور فاطمی بندرگاہ ٹیونس (Tunis) کا محاصرہ کیا اور اس پر قابض ہو گیا۔المعز کی بحری قوت نے سال 957ء میں بحر روم میں واقع جزیرہ کریٹ(Crete)کے ساحل پر بازنطینی بحری فوج کو شکست دی اور کسریٰ کو سالانہ خراجِ دینے پر مجبور کیا۔سال 969 ء میں جوہر بن عبداللہ کی سپہ سالاری میں مصر (Egypt) فتح ہوا اور اگلے سال 970ء میں جعفر بن فلاح کی قیادت میں میں ملک شام (Syria) بھی فتح ہوا اور دونوں ہی جگہوں سے اخشیدید خاندان (Ikhshidid dynasty) جو عباسی خلافت کے ماتحت حکومت کر رہا تھا اس کا خاتمہ ہوا،اس فتح کے بعد المعز نے اپنا دارالحکومت منصوریہ (Mansuria) سے قاہرہ (Cairo) منتقل کر دیا۔
چھٹا فاطمی خلیفہ الحاکم بامراللہ (1021-996) تھا لیکن مغربی دنیا میں وہ اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا، اسے پاگل خلیفہ(Mad caliph) یا اسلام کا نیرو (Nero of Islam) کہا جاتا ہے۔
نیرو (68-54) ایک جابر وظالم رومی بادشاہ تھا۔ سال 64ء میں جب روم جل رہا تھا نیرو اس وقت بانسوری بجا رہا تھا اور روم میں لگی آگ کے لیے صلیبیوں کو ملزم ٹھرایا اور اس پر پر ظلم و تشدد کیا ۔ اکثر عیسائیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ الحاکم باامرللہ اپنے ماتحت ذمیوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرتا تھا۔ نصرانیوں کے مذہبی تیوہار اور رسومات پر پابندی عائد کرنے کے لیے ا س نے کئی فرمان جاری کیے۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS