بیان بازیوں سے نہیں ہوگا بچوں کا بھلا!

0

سعدی شیرازیؒ کا کہنا ہے کہ آدمؑ کی اولادیں ایک ہی عنصر سے پیدا کی گئی ہیں، اس لیے ایک آدمی اگر زخمی ہوگا تو دوسرا سکون سے نہیں رہے گا مگر اسی دنیا میں انسانوں کے ہاتھوں انسانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے تک ظلم و ستم سے محفوظ نہیں ہیں۔ شام کے شمال مشرقی علاقے کی غویران جیل میں بند بچوں کی خبر نہیں آتی اگر کردش ملیشیا کی کمانڈ والی سیرین ڈیموکریٹک فورسزنے داعش پر حملہ نہیں کیا ہوتا اور داعش کے دہشت گردوں نے بچوں کو ڈھال نہیں بنایا ہوتا۔ اس حملے میں متاثرہ ایک بچے نے جیل کے اندر سے یہ صوتی پیغام بھیجا کہ اس کا سر زخمی ہو گیا ہے، خون بہہ رہا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ حملے میں اس کے دوستوں کی جانیں گئی ہیں، 8 سے 12 سال کے کئی بچوں کو جانیں گنوانی پڑی ہیں۔ خبر ’ہومن رائٹس واچ‘ کے توسط سے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ریلیز کی کہ تنہا غویران جیل میں 800 بچے قید ہیں جبکہ عراق اور شام کی دیگر جیلوں میںبند ایسے بچوں کی خاصی تعداد ہے۔ ’ہیومن رائٹس واچ‘ کی کارکن لیٹا ٹیلر کا کہنا ہے کہ ’برسوں سے قید ان بچوں کے بارے میں یہ طے نہیں ہو پایا ہے کہ آیا انہیں داعش کی جانب سے تربیت دی بھی گئی تھی یا نہیں ؟ یا انہوں نے کوئی جرم کیا بھی تھا یا نہیں؟ یہ بچے دراصل اس لیے اب تک ان جیلوں میں قید ہیں، کیونکہ ان کی حکومتیں انہیں واپس لینے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔‘
انسانوں کے تحفظ اور انسانیت کی بقا کے لیے عالمی لیڈران بیانات دیتے رہتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ وہ جنگ تک انسانیت کی حفاظت کے لیے کر ڈالتے ہیں، عراق جنگ اس کی ایک مثال ہے مگر جب وقت انسانیت کے تحفظ کے لیے عملی اظہار کا آتا ہے تو انسانیت نواز لیڈروں کا قحط سا نظر آتا ہے۔ سوڈان، صومالیہ، یمن، لیبیا، شام جیسے ملکوں کی ایک طویل فہرست ہے جو برسوں سے تشدد سے متاثر ہیں مگر ان کے مسئلوں کو حل کرنے کے لیے نہ کہیں طاقتور ممالک نظر آتے ہیں، نہ ہی انسانیت نواز لیڈران، اس لیے جیلوں میں بند سیکڑوں بچوں کی حالت زار سے عالمی لیڈروں کی چشم پوشی کوئی حیرت کی بات نہیں، حیرت تو تب ہوتی جب وہ صرف انسانیت کے نام پر بچوں کو برے حالات سے نکالنے کی جدوجہد کرتے، عالمی برادری کو یہ احساس دلاتے کہ بچے چاہے کہیں کے بھی ہوں، کسی بھی مذہب، نسل، زبان یا خطے سے ان کا تعلق ہو، انہیں آج اگر موت کے لمحوں کا ’مزہ‘ لینے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا تو کل وہ دنیا کے لیے امن کے پیغامبر نہیں بنیں گے۔ ان میں سے ایک تعداد ایسے بچوں کی ہو سکتی ہے جنہیں آج جو تجربات و مشاہدات دیے جا رہے ہیں، کل وہ اسی کے مطابق عمل کریں گے، چنانچہ عالمی امن کا خیال رکھنے والوں کو تشدد سے بچوں کو بچانا ہوگا، انہیں دنیا کی تلخیوں سے بچانا ہوگا، انہیں حالات ایسے مہیا کرانے ہوں گے کہ خوش حال زندگی کا خواب دیکھتے ہوئے وہ ڈریں گے مگر ’ریلیف ویب‘ کی رپورٹ کہتی ہے کہ 2019 میں دنیا بھر کے ایک ارب، 60 کروڑ بچے تشدد سے متاثرہ علاقوں میں رہ رہے تھے۔ دنیا بھر میں بچوں کی مجموعی آبادی کا یہ 69 فیصد ہے۔ 2018 میں یونیسیف نے’2018میں دنیا بچوں کو تصادم سے بچانے میں ناکام رہی‘ عنوان کے تحت رپورٹ دی تھی اور یہ بتایا تھا کہ افغانستان میں 2017 اور 2018 کی پہلی تین سہ ماہی میں شہریوں کی ہلاکتوں میں 89 فیصد بچے تھے۔ بات صومالیہ، یمن، شام ،عراق، کیمرون یا وسطی افریقی جمہوریہ کے حالات کی کی جائے یا جمہوری جمہوریہ کانگو، چاڈ، مالی، برکینا فاسو، نائیجر، نائیجیریا، میانمار، جنوبی سوڈان، فلسطین کے حالات کی، بچوں کی ایک بڑی تعداد مدد چاہتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ انسانیت کے نام پر ان بچوں کی مدد کرے گا کون؟ کئی طاقتور ممالک انسانیت کے نام پر مدد کا ہاتھ دراز کرتے ہیں مگر سچ یہ بھی ہے کہ مدد کرنے سے پہلے وہ یہ حساب کتاب اچھی طرح کر لیتے ہیں کہ اس میں ان کا فائدہ کیا ہے۔ کہیں مدد کے نام پر دائرۂ اثر بڑھایا جاتا ہے، کہیں مدد کے سہارے تعلقات مستحکم بنائے جاتے ہیں اور پھر مستحکم تعلقات کے سہارے فائدے اٹھائے جاتے ہیں۔ ’مارشل پلان‘ کے تحت امریکہ کی مغربی یوروپ کے ملکوں کے لیے یہ مدد ہی تھی جو ’ناٹو‘ کی تشکیل میں معاون بنی تھی۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بڑے اور عالمی ادارے بچوں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے چھوٹے اور علاقائی ادارے ان کی معاونت کریں اور ان اداروں کی مدد وہ لوگ کریں جو انسانیت کو خانوں میں بانٹ کر نہیں دیکھتے، جن کے لیے انسانوں کی مدد مالک کائنات کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS