محمد حنیف خان
شعبہ علم سے وابستہ افراد کی سبکدوشی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے علامتی احتراز سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ایک وہ شخص جوکم و بیش چالیس سالہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں نہ صرف علم کے موتی لٹاتا ہے بلکہ مختلف انتظامی امور میں کلیدی رول ادا کرکے متعلقہ ادارے کو بہتر بناتا ہے، وہ شخص سبکدوشی کی وجہ سے اپنی جبلی ذمہ داریوں سے تہی دامن نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے سامنے علمی فتوحات کی ایک نئی دنیا ہوتی ہے جس میں وہ آزادی کے ساتھ کام کرسکتا ہے۔لیکن ایک سوال یہ ضرور ہے کہ ایسے کتنے افراد ہیں جو واقعی سبکدوشی کے بعد علمی امور کی انجام دہی میں آزادی کے ساتھ منہمک ہو جاتے ہیں؟
صحافت ایک ایسا شعبہ علم ہے جس کا دائرۂ کار بہت وسیع ہے،اس سے وابستہ افراد کی نظر سیاسی،معاشرتی،معاشی اورادبی کے ساتھ ہی دیگر پہلوؤں پر بھی رہتی ہے۔جب تک وسیع النظر ی نہیں ہوگی، اس وقت تک کوئی شخص نہ تو بہتر صحافی ہوسکتا ہے اور نہ ہی صحافی گر ہوسکتا ہے۔اگر کسی شخص کی نظر نظری پہلوؤں پر ہونے کے ساتھ ہی اسے عملی تجربہ بھی ہو تو وہ شخص معاشرے اور ادارے کے لیے حد درجہ اہم ہوجاتا ہے۔پروفیسر شافع قدوائی ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے۔وہ ایک عملی صحافی ہونے کے ساتھ ہی نظری سطح پر بہت وسیع النظر ہیں۔وہ ایسے شخص ہیں جنہوں نے اردو صحافت کے ساتھ ہی انگریزی صحافت میں بھی نمایاں کردار اداکیا ہے، خاص طور پر اردو زبان و ادب سے متعلق انگریزی جاننے والوں کو بہرہ مند کیا۔1985میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ترسیل عامہ سے وابستگی سے قبل وہ ایک عملی صحافی تھے۔ ان کے بڑے بھائی نافع قدوائی بھی صحافی تھے۔پروفیسر شافع قداوئی متعدد اخبارات مثلاً دی ہندو،انڈین ایکسپریس، ہندوستان ٹائمس،آؤٹ لک،فرنٹ لائن وغیرہ میں ایک عرصے سے کالم لکھتے رہے ہیں۔
یوںتو اردو صحافت کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن جدید صحافت اور اس کے اصول و ضوابط سے متعلق پروفیسر شافع قدوائی کی کتاب ’’خبر نگاری ‘‘ حد درجہ اہمیت کی حامل ہے۔شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے جب ’’ پی جی ڈپلوما ان ماس کمیونی کیشن ‘‘(پی جی ڈی ایم سی)کا دوسالہ کورس شروع کیا اور میں خود اس کے دوسرے بیچ کا طالب علم رہا تو اس دوران پروفیسر شافع قدوائی سے کلاس روم میں استفادے کا موقع ملا۔وہ شعبہ ترسیل عامہ کے استاد ہونے کے باوجود شعبہ اردو کے اس کورس کے طلبا کی کلاس لیا کرتے تھے جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ اردو کے طالب علموں کو جدید صحافت کی باریکیوں سے آشنا کیا جائے۔ان کی پیشہ ورانہ زبان انگریزی ضرور رہی لیکن اردو ان کا اوڑھنا بچھونا رہی چونکہ وہ مولانا عبد الماجد دریا بادی جیسی عبقری شخصیت کے نواسے ہیں جن کی والدہ اپنے والد کی لٹریری اسسٹنٹ تھیں، اس لیے اردو اور صحافت ان کی ذات کا ایک حصہ بن گئی۔پروفسیر شافع قدوائی اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اردو زبان و ادب اور اردو صحافت سے دور ہوئے ہوں۔
اردو صحافت سے متعلق ان کی کتاب ’’خبر نگاری‘‘ 1988میں منظر عام پر آئی تھی۔یہ پہلی ایسی کتاب تھی جس میں جدید صحافت کی باریکیوں،اس کے اصول و ضوابط کو اردو زبان میں پیش کیا گیا تھا۔ان کی یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے،جس میں خبر کی تعریف، حصول کے ذرائع، رپورٹنگ کا طریقہ کار،اس کے اصول و ضوابط،خبر لکھنے کا طریقہ،رپورٹر کے اوصاف،خبر کی اقسام، شعبہ صحافت کے خصوصی شعبے، انٹر ویو، فیچر، راؤنڈاپ، فالو اپ وغیرہ سے متعلق اصولی بحث کی گئی ہے۔
اس کتاب کے ذکر کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ موجودہ اردو صحافت کی جو حالت ہے اس کا اندازہ ہم سب کو ہے،جس کے دو سب سے اہم اسباب ہیں۔چونکہ اردو زبان پر ہی ادبار کے بادل منڈلا رہے ہیں، ایسے میں اس کی صحافت کی کیا حالت ہوگی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔شعبہ صحافت ایک انڈسٹری ہے مگر اردو صحافت میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی کمی ہے جس کی وجہ سے اس کی حالت دگرگوں ہے۔اس کا دوسرا سبب پہلے سے ہی متعلق ہے کیونکہ جب اس شعبے میں سرمایہ کاری نہیں جس کی وجہ سے اس کا مستقبل روشن نہیں نظر آتا ہے ایسے میں تربیت یافتہ صحافیوں کی اس شعبے میں بڑی کمی ہے۔جس کے نشانات دیکھے جاسکتے ہیں۔
پروفیسر شافع قدوائی نے اردو صحافت کو جدید صحافت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہی مذکورہ کتاب لکھی جس سے یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا نے خاص طور پر استفادہ کیا۔نیشنل ایجوکیشن پالیسی (این ای پی ) میں گریجویشن کی سطح پر اردو صحافت کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے اردو صحافت کی باریکیوںکے افہام و تفہیم میں یہ کتاب نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔در اصل موجودہ دورمیں جرنلزم ایک اہم شعبہ علم ہے۔جس کے دائرے میں اخباری صحافت سے لے کرریڈیو،ٹیلی ویژن اور جدید وسائل اعلام یعنی سماجی روابط کی ویب سائٹ کا استعمال،معاشرے میں ان کے اثر و نفوذ اور ان کے اثرات سبھی آجاتے ہیں، اس لیے اردو زبان میں ایسے افراد کی سخت ضرورت ہے جو وقت کی اہمیت کو سمجھتے ہوں اور اس کے مطابق اردو زبان میں علمی و فکری انداز میں کام کرکے رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔امید ہے کہ پروفیسر شافع قدوائی اب آزادی کے ان ایام میں اس جانب بھی توجہ دیں گے۔
پروفیسر شافع قدوائی کی پیشہ ورانہ زندگی چالیس برس کے عرصے پر محیط ہے،جس میںانہوں نے صرف اپنے متعلقہ شعبے(شعبہ ترسیل عامہ) سے ہی سروکار نہیںرکھا بلکہ انہوں نے اردو زبان و ادب کی خدمات بھی انجام دیں۔ سرسید کی تفہیم اور فکر سر سید کو دنیا میں عام کرنے میں خون جگر صرف کیا۔اس وقت بھی وہ سرسید اکیڈمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ہیں۔ان کی کتاب’’ سوانح سرسید ایک بازدید‘‘سرسید احمد خان کی زندگی کو سمجھنے اور نتائج اخذ کرنے میں بہت معاون ہے۔سرسید احمد خاں کی صحافتی خدمات بہت عظیم ہیں،ان کے رسالہ تہذیب الاخلاق نے ایک زمانے کو صرف متاثر ہی نہیں کیا بلکہ زمانے کے رخ کو موڑدینے میں اہم کردار بھی ادا کیا۔پروفیسر شافع قدوائی نے سر سید احمد خاں کی صحافتی خدمات کی تفہیم و تعبیر کے لیے ’’سرسید کی اولین صحافتی کاوشیں‘‘تصنیف کی جو 2020میں منظرعام پر آئی۔انگریزی میں سرسید سے متعلق ان کی کتاب’’Sir Sayyed Ahmad Khan: Reason, Religion and Nation,The Routledge‘‘کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔اسی اردو صحافت سے متعلق انگریزی میں کتاب ’’Urdu Literature and Journalism: Critical perspective‘‘کیمبرج یونیورسٹی پریس سے 2014میں شائع ہوئی۔
پروفیسر شافع قدوائی کی علمی فتوحات کا دائرہ وسیع ہے لیکن انہوں نے صحافت،خاص طور پراردو صحافت،سرسید شناسی/تفہیم وتعبیر اور اردو فکشن کی تنقید سے متعلق اہم کام کیے ہیں۔اسی طرح انہوں نے ہندوستان کی متعدد سرکاری و غیر سرکاری اکادمیوں اور علمی اداروں سے وابستہ رہ کر بھی اردو زبان و ادب کی خدمات انجام دی ہیں،جس کے اعتراف میں انہیں ساہتیہ اکادی جیسا انعام بھی پیش کیا گیا۔ اب جبکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوچکے ہیں تو امید کی جاتی ہے کہ اب وہ آزادی سے علمی امور کی انجام دہی کا فریضہ اداکریں گے۔چونکہ پیشہ ورانہ زندگی میں مصروفیات کی وجہ سے وہ منصوبے پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتے ہیں جنہیں متعلقہ شخص انجام دینا چاہتا ہے مگر سبکدوشی کے بعد اسے بہتر ڈھنگ سے کیا جاسکتا ہے۔ایک پروفیسر کی زندگی کا بڑا حصہ درس و تدریس،لیکچرز اور طلبا کی رہنمائی میں گزرتا ہے،بہت محدود وقت معاشرے کے لیے ملتا ہے لیکن جب وہ سبکدوش ہوتا ہے تو رسمی درس و تدریس کا اس کا رشتہ ضرور منقطع ہوتا ہے مگر رہنمائی کی اضافی ذمہ داری اس پر بڑھ جاتی ہے۔یہ سبکدوشی اپنے علم کو نئے انداز میں پیشکش کی دعوت دیتی ہے۔زندگی کے تجربات،علمی بصیرت اور متعدد امور سے متعلق محفوظ اپنی رائے کے اظہار کا یہ بہترین موقع ہوتا ہے،جس سے نئی نسل کے لیے راہیں روشن ہوں گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک استاد/پروفیسر کی سبکدوشی اس کے علمی سفر کا خاتمہ بالکل نہیں بلکہ علم کی پیشکش کا یہ بھی ایک زاویہ ہے۔اس سے فکری سفر کے نئے امکانات کا آغاز ہوتا ہے،جس سے معاشرہ یقینا مستفید ہوگا۔