ریٹائرمنٹ کا اشارہ‘قیادت کا سوال

0

ہندوستانی سیاست میں بعض اوقات ایک ہلکی سی’جنبش‘ایک معنی خیز خامشی یا بظاہر بے ضرر تبصرہ ایسے طوفان کا پیش خیمہ بن جاتا ہے جو پورے منظرنامے کو بدل سکتا ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت کا حالیہ بیان جو بظاہر ایک آنجہانی سنگھی مفکر کی زندگی پر لکھی گئی کتاب کی تقریب رونمائی میں دیا گیاایسا ہی ایک اشارہ تھا، جس نے سیاسی افق پر کئی پرتوں کو یکدم بے نقاب کر دیا۔انہوں نے گزشتہ 11جولائی کو موروپنت پنگلے کی حیات و خدمات پر انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب Moropant Pingale:The Architect of Hindu Resurgence(موروپنت پنگلے: احیائے ہندوتوا کامعمار) کی رسم اجراتقریب میں کہا کہ موروپنت جی کہتے تھے کہ75 سال کے بعدیہ سمجھ لو کہ اب رک جاؤ،کیونکہ تم بوڑھے ہو گئے ہو،دوسروں کو کام کرنے دو۔یہ جملہ اسٹیج سے اتراتوسیدھادہلی،احمد آباد،ممبئی،لکھنؤ،پٹنہ اور بنگلورو جیسے سیاسی شہروں میں جا پہنچا۔ ہرچندکہ اس میں بھاگوت نے اپنا‘مودی جی کا یا کسی اور کا نام نہیں لیاتھاتاہم یہ بات جس سیاق و سباق میں کہی گئی اس سے یہ سبھوں کو سمجھ میں آگیاکہ یہ بات کس کیلئے کہی گئی تھی۔

بی جے پی کی تاریخ میں 75 برس کی عمر ایک علامتی سنگ میل بن چکی ہے۔ اڈوانی،جوشی اور دیگر سینئر قائدین کو اسی عمر کے بعد پس منظر میں دھکیل کر ایک نئی سیاسی روایت قائم کی گئی تھی، جسے ’’مارگ درشن منڈلی‘‘کا نام دے کر رسمی پردہ ڈال دیا گیاتھا۔ مگر اب جب یہی اصول خود مودی پر لاگو ہونے کا وقت قریب آ رہا ہے،تو بی جے پی کے لب و لہجہ میں تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔ امت شاہ کا 2029 تک مودی کی قیادت کی بات کرنا اور مودی کی سالگرہ کو جشن کی شکل دینا،ایک نئی سیاسی ہیئت کا مظہر ہے جس میں شخصیت نظریے پر غالب آ چکی ہے۔یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ مودی کی طویل حکمرانی کے دوران بی جے پی اور آر ایس ایس کے درمیان خفیف سی کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ آر ایس ایس کے بعض گوشے حکمرانی میں توازن،غریبی ،بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی شخصی مرکزیت پر تحفظات رکھتے ہیں۔سنگھ اب شاید نئی نسل کو سامنے لانے کے موڈ میں ہے۔ بھاگوت خود شاید ستمبر کے بعد عہدہ چھوڑ دیں۔ ایسے میں کیا مودی بھی تنظیمی اخلاقیات کے تابع ہوں گے؟ یا وہ وہی روش اپنائیں گے جو اقتدار کی حفاظت کیلئے ہر اصول کو پائوں تلے روند ڈالتی ہے؟

آج سوال مودی کی شخصیت سے بڑھ کر اصولوں کی بقا کا ہے۔ اگر وہی شخص جس نے پارٹی میں 75 سال کی عمر کو ریٹائرمنٹ کی بنیاد بنایا ،خود اس اصول پر سوالیہ نشان بن جائے،تو نظریے کی حرمت پر دھبہ لگنا فطری ہے۔ بھاگوت کا بیان دراصل اسی تضاد کو آئینہ دکھاتا ہے۔اگرچہ بی جے پی اور آر ایس ایس دونوں عوامی طور پر اس بحث سے کتراتے دکھائی دے رہے ہیں،مگر سیاسی حلقے،میڈیا، اپوزیشن اورخود تنظیم کے اندر سے ابھرنے والی سرگوشیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ایک عہد کا خاتمہ قریب ہے یا کم از کم اس پر غور ضرور جاری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا محض اصول،روایات یا اشارے کسی ایسی شخصیت کو روک سکتے ہیں جس نے اپنی امیج کو سیاست کی مرکزی قوت بنا لیا ہے؟ شاید نہیں۔ کیونکہ سیاست صرف اصولوں سے نہیں،بلکہ ان کی تعبیر کرنے والوں کی قوت ارادی سے چلتی ہے۔

سچ یہ ہے کہ سنگھ کی طرف سے جو اشارہ آیا ہے،وہ محض ذاتی نہیںبلکہ نظریاتی ہے۔ سنگھ صرف ایک فرد کی بات نہیں کر رہا،وہ ایک اصول کی بات کر رہا ہے۔ مودی چاہیں یا نہ چاہیں،یہ اصول اب ان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ 17 ستمبر کو نریندر مودی کیا کرتے ہیں؟وہ 75 کی دہلیز پر خود کو استثنا دے کر آگے بڑھتے ہیں؟یا وہ اسی اصول کے سامنے سر جھکاتے ہیں جو ان کی پارٹی کی پہچان رہا ہے؟

جو بھی ہو،ایک بات طے ہے کہ قیادت محض کرسی سے نہیں،عمل سے بنتی ہے اور بعض اوقات،سب سے بڑا فیصلہ وہ ہوتا ہے جب آپ خود پیچھے ہٹ کر کسی اور کو آگے بڑھنے دیتے ہیں۔موہن بھاگوت شاید یہی کہنا چاہتے تھے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS