عدالتی فیصلوں کا احترام

0

آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی قائم رکھنے کیلئے عدالتی فیصلوں کا احترام واجب و لازم ہوتا ہے۔ مہذب حکومتیں بغیر کسی قیل و قال کے عدالتی احکاما ت کی فوری تعمیل کرتی ہیں لیکن ہمارے یہاں کا باواآدم ہی نرالا ہے۔ عدالتیں حکم دینے کے بعد منتظر رہتی ہیں کہ ان کے فیصلوں پر عمل درآمد ہو لیکن عام طور پرایسا ہوتا نہیں ہے۔ ٹال مٹول، اپیل، نظرثانی اور دیگرتاخیری حربوں سے عدلیہ کے فیصلوں کو غیر مؤثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ایسا ہی معاملہ مختلف عدالتی ٹریبونلز میں اصلاح قوانین اور خالی اسامیوں پر تقرری نہ ہونا ہے۔ عدالتی ٹریبونلز میں تقرریوں کی بابت عدالت عظمیٰ حکومت کو کئی بار متوجہ کرچکی ہے لیکن حکومت نے بوجوہ اس پر کان نہیں دھرا۔ اس رویہ سے برہم عدالت عظمیٰ کو بالآخر یہ کہنا پڑا کہ اس عدالت کے فیصلہ کا کوئی احترام نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ حکومت اس کے صبر کا امتحان نہ لے۔ چیف جسٹس این وی رمن، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس ایل ناگیشور را ؤ نے اس معاملے میں حکومت کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اگر تقرریوں میں نرم رویہ اختیار کیا گیا تو حکومت کے خلاف توہین عدالت سے متعلق کارروائی شروع کی جائے گی۔
کسی مہذب معاشرہ میں یہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ہے کہ آئین کی محافظ اور جمہوریت کے بنیادی ستون عدلیہ کے فیصلوں کا احترام نہ ہو اور حکومت عدالتی احکامات کی تعمیل میں قصداً تاخیر کرے۔ عدالتی ٹریبونلز کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ملک کی تقریباً 2 درجن مختلف عدالتی ٹریبونلز میں250اسامیاں خالی ہیں جس کی وجہ سے کام کا نمٹارہ نہیں ہورہا ہے۔ان اداروں کیلئے حال ہی میں بنائے گئے نئے ضابطوں اور قوانین پر بھی سپریم کورٹ کو کئی تحفظا ت ہیں۔لیکن حکومت نے ان کے ازالہ کی سمت میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں کی ہے۔اس پس منظر میں سپریم کورٹ کی ناراضگی کو قطعی غلط نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے کیوں کہ جن اہداف مقاصد کے حصول کیلئے یہ عدالتی ٹریبونلز بنائے گئے ہیں، ان میں افسران اورمتعلقہ عملہ کی کمی کی وجہ سے وہ اپنے اہداف کی تکمیل میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ ان ٹریبونلز کی تشکیل کا مقصد انصاف کی فوری فراہمی اور روایتی عدالتی نظام پر ہونے والے بھاری صرفہ کو کم کرنا ہے۔ مختلف شعبہ جات میں قائم ہونے والے یہ ٹریبونلز نیم عدالتی نظام ہوتے ہیں اور ان کا کام عدلیہ پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنا ہے۔ان اداروں کی تشکیل کچھ مخصوص اور چنندہ معاملات دیکھنے کیلئے ہوتی ہے۔ معاملات کی سماعت تیز رفتاری سے ہوتی ہے اور فیصلے بھی جلدی دیے جاتے ہیں۔لیکن ٹریبونلز میں تقرریاں رکی ہوئی ہیں جس پر سپریم کورٹ نے حکومت کی تادیب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرکز ان ٹریبونلز میں تقرریاں نہ کرکے انہیں بے اثر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ جج، پریزائڈنگ افسران، جیوری ممبران اور تکنیکی عملہ کی بھاری کمی کا شکار ہو کر یہ نیم عدالتی نظام اپنی افادیت کھو دے گا۔
سپریم کورٹ کی سہ رکنی بنچ نے اس بات پر زور دیا کہ عدالت، حکومت سے کسی طرح کا تصادم نہیں چاہتی ہے لیکن عدالت یہ ضرور چاہتی ہے کہ بڑی تعداد میں اسامیوں کی قلت کا سامنا کررہے ان ٹریبونلز میں مرکزی حکومت کچھ تقرریاں کرے۔انڈسٹریل ٹریبونل، ٹیلی کام ڈسپیوٹس سیٹلمنٹ اینڈ اپیلیٹ ٹریبونل، نیشنل کمپنی لا اپیلیٹ ٹریبونل، اپیلیٹ ٹریبونل آف الیکٹری سٹی، ڈیٹس ریکویری اپیلیٹ ٹریبونل، انکم ٹیکس اپیلیٹ ٹریبونل، نیشنل گرین ٹریبونل وغیرہ میں 250 سے زیادہ اسامیاں برسوں سے خالی پڑی ہوئی ہیں۔مرکزی حکومت کے اس رویہ پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس این وی رمن نے کہا کہ عدالت کے پاس تین متبادل ہیں پہلا یہ کہ ہم قانون پر روک لگادیں۔ دوسرامتبادل یہ ہے کہ ہم عدالتی ٹربیونلز کو بند کرنے کا حکم دیں اور اس کی طاقت ہائی کورٹ کے حوالے کریں۔ تیسرا متبادل یہ ہے کہ ہم خود ہی تقرریاں کردیں۔ساتھ ہی عدالت نے ٹریبونلز ریفارم بل جو باقاعدہ اب قانون کی شکل لے چکا ہے، کے سلسلے میں بھی ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ فی الحال ہم نئے قانون پر بھروسہ نہیں کرسکتے ہیں۔اس نئے قانون کے تحت حکومت نے اس سال ٹریبونلزکی تعدادبھی26سے کم کر کے 19 کردی ہے۔ تاہم عدالت نے حکومت کو ایک اور موقع دیتے ہوئے اس معاملے کی سماعت کیلئے13 ؍ستمبر کی اگلی تاریخ مقرر کی ہے۔
سپریم کورٹ کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر یہ ٹریبونل کسی بھی وجہ سے غیر فعال ہوگئے تو ملک کا عدالتی نظام جوپہلے ہی مقدمات کے بھاری بوجھ تلے دبا ہوا ہے، متاثرین کو انصاف اور فیصلہ فراہم نہیں کر پائے گا۔ ملک بھر میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد تقریباً ساڑھے چار کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور سپریم کورٹ میں تقریباً 70ہزار معاملے زیر التوا ہیں۔ جون2021تک ہندوستان کے کئی ہائی کورٹ میں 30 برسوں سے بھی زیادہ مدت سے 91,885 معاملے زیر لتوا ہیں۔اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ ٹریبونلز میں افسران کی تقرریاں جلد از جلد کی جائیں۔ آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی اسی میں مضمر ہے کہ متاثرین کی فوری داد رسی کا انتظام ہواور حکومت کسی قیل و قال کے بغیر عدالتی احکامات کی تعمیل کرے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS